حضرت خدیجہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حضرت خدیجہ
بنت بشیر احمد
آپ کا نام : خدیجہ ؓ" کنیت : ام ہند " لقب : طاہرہ
سلسلہ نسب یوں ہے : خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی بن کلاب بن مرہ۔ قصی تک پہنچ کر حضرت خدیجہؓ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاندان مل جاتا ہے۔ آپ کی والدہ کا نام ”فاطمہ“ ہے۔
ولادت :
حضرت خدیجہ ؓ کی ولادت عام الفیل سے 15 سال قبل ہوئی۔
بچپن :
آپ کا بچپن بھی بے مثال تھاآپ کی عمر ابھی چھوٹی ہی تھی کہ لوگ آپ کو آپ کے پاکیزہ اخلاق کی وجہ سے ”طاہرہ “ کہا کر تے تھے۔ آپ کے والد نے آپ کے نکاح کے لیے ورقہ بن نوفل ( جوکہ تورات اور انجیل کے بہت بڑے عالم تھے ) کو منتخب کیا لیکن بوجوہ یہ نکاح نہ ہو سکا۔ پھر ابو ہالہ تمیمی سے نکاح کر دیا گیا کچھ عرصہ بعد عتیق بن عائز کے ساتھ نکاح ہوا۔
عام الفیل کو گزرے کوئی 20سال کا عرصہ ہو چکا ہو گا کہ عرب میں ”حرب الفجار “نامی جنگ کے شعلے بلند ہوئے اس میں حضرت خدیجہؓ کے والد بھی اس دنیا سے چل بسے حضرت خدیجہؓ کو جب یہ صدمہ پہنچا تو مارے غم کے نڈھال ہو گئیں۔ باپ کا سایہ سے اٹھ جانے کے بعد آپؓ غمزدہ سی رہنے لگیں۔اللہ تعالی نے مال خوب عطا کیا تھا ،آپؓ تجارت کے لیے اپنا سامان رشتہ داروں کے حوالے کردیتیں اور ان کو اس کا معاوضہ ادا کرتیں۔ ان دنوں مکہ کی گلی گلی اور کوچہ کوچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امانت کے ڈنکے بج رہے تھے مکہ کے باسی آپ کو ”امین“ اور”صادق“ کے لقب سے یاد کر رہے تھے ، ہر طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرافت کے گن گائے جارہے تھے۔
پھیلی ہوئی خوشبو ، سارے چمن میں تھی :۔
حضرت خدیجہ کو جب آپ ﷺ کے بارے میںمعلوم ہوا تو آپؓ نے پیغام بھیجا کہ ملک شام کی طرف میرا تجارت کا مال لے جائیں، میں جتنا معاوضہ دوسروں کو دیتی ہوں آپ کو اس سے دوگنا دوں گی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پیشکش کو قبول فرما لیا اور حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ کو ساتھ لے کر مکہ سے شام کی طرف چل پڑے۔
حضرت خدیجہ ؓ کا غلام میسرہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمدہ عادات سے بے حد متاثر ہوا۔ آپ نے وہاں جاکر تجارت کی۔ آپ ﷺ کی امانت داری کی وجہ سے اس سال نفع پچھلے تمام سالوں سے زیادہ بلکہ دو گنا ہوا۔ شام سے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لائے تو حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کی طرف نکاح کا پیغام بھیجا جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرمالیا۔
کچھ دنوں بعد قریش کے بڑے بڑے سردار جن میںسر فہرست حضرت حمزہؓ اور ابوطالب تھے، حضرت خدیجہؓ کے مکان پر آئے یہاں پرحضرت خدیجہؓ کے خاندان کی بااثر شخصیات پہلے سے موجود تھیں۔ حضرت ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور حضرت خدیجہ ؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ بن گئیں۔
شادی کو تقریباً 15برس بیت چکے تھے کہ پہلی وحی نازل ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لائے تو آپ ﷺ پر جلال خداوندی کا اثر بہت زیادہ نمایاں تھا۔ حضرت خدیجہؓ سے فرمانے لگے ”زملونی زملونی“ مجھے کپڑا اوڑھادو مجھے کپڑا اوڑھا دو!! طبیعت تھوڑی سنبھلی تو واقعہ بیان کرکے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ سیدہ خدیجہ طاہرہ ؓ نے ”تسلیاں دینے والے “ کوتسلی دی اور کہا کہ خداوند قدوس آپ کو بے یارومددگار نہیں چھوڑے گا۔ آپ
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں، بے بس اور محتاج لوگوں کی معاونت کرتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیںاور مصائب میں حق بات کی حمایت کرتے ہیں۔
پھر حضرت خدیجہ ؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس آئیں اور سارا واقعہ بیان کیا۔ ورقہ بن نوفل عبرانی زبان کے ماہراور تورات وانجیل کے عالم تھے۔ کہنے لگے ”یہ تو وہی مقدس فرشتہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا۔“ پھر کہا کہ کاش! میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کو مکہ کے لوگ شہر سے نکلنے پر مجبور کر دیں گے اگرمیری زندگی نے وفاکی تومیں اس کڑے وقت میںآپ(ﷺ) کی معاونت کروں گا۔
اسلام ترقی کی منازل طے کر رہا تھا۔ لوگ اسلام میں داخل ہو کر اپنی اپنی عاقبت سنوار رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث ہوئے سات سال کا عرصہ بیت چکا تھا مکہ کے قریشیوں کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔ چنانچہ قریش نے سرجوڑ کر طے کر لیا کہ نبوت کے اس روشن چراغ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گل کر دیاجائے۔چنانچہ قریش مکہ اور دیگر سردارانِ مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے اصحاب و آل کے ساتھ ایک گھاٹی میں قید کر دیا۔
اہل اسلام نے تین سال کے طویل عرصہ تک اس گھاٹی میں قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں وہ صرف اس جرم کی سزا پارہے تھے کہ ”خدا اپنی ذات و صفات میں یکتااور اکیلا ہے اور محمدﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں “ یوں کہہ لیںکہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے کی پاداش میں ان پر سختیوں کے پہاڑ توڑے گئے۔
ایسے مشکل اور کٹھن حالات میں حضرت خدیجہؓ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس گھاٹی (شعب ابی طالب) میںصعوبتیں جھیل رہی تھیں۔ صحابہ کرام ؓ کہتے ہیں ہم لوگ درختوں کے پتے چبا چبا کر زندگی گزار تے تھے۔ تنگی اور مشقت کا یہ عالم تھا کہ ایک دن میں ایک کھجور کا دانہ کھایا کرتے تھے۔ جب کھجور بھی ختم ہو گئی تو اس کی گٹھلیاں چوس چوس کر گزارا کرنے لگے۔ تین سال تک اس گھاٹی میں اہل اسلام پر ظلم کی وہ داستان رقم کی گئی جس کو لکھتے ہوئے آج بھی قلم کانپ اٹھتا ہے۔
حضرت خدیجہؓ سے آپ ﷺکی اولاد بھی پیدا ہوئی۔ دو صاحبزادے قاسم ؓ اور عبد اللہ ؓ اور چار صاحبزادیاں زینبؓ ، رقیہؓ ، ام کلثوم ؓ اور فاطمة الزہراؓ۔
حضور اقدس ﷺکی ازواج میں سے حضرت خدیجہ ؓ کا مقام بعض باتوں کی وجہ سے سب سے بلند ہے۔ مثلاً حضرت خدیجہؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی بیوی ہیں۔ آپ ﷺنے ان کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی۔ صاحبزادہ ابراہیم ؓ کے سوا ساری اولاد انہی سے پیدا ہوئی۔
شادی کو دس سال کا عرصہ ہو چکا تھا رمضان کی گیارہویں تاریخ تھی کہ 64 سال 6 ماہ کی ضعیفہ ،نبی آخرالزمان ﷺ کی ہمدرد و غمگسار، اپنی جان اور اپنے مال کواسلام پر لٹا دینے والی ”ہماری اس ماں“ نے ہمیشہ ہمیشہ کےلیے آنکھیں بند کرلیں۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
رفیقہ حیات کی جدائی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت رنجیدہ ہوئے آپ ﷺ کو حضرت خدیجہ ؓ سے بے انتہاءمحبت تھی۔ جب کبھی آپ ﷺ کے گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو آپ حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کو بڑے اہتمام سے اس کا گوشت بھجواتے۔ آپؓ کی وفات کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو بہت یاد کرتے تھے اور آنسو کے قطرے آپ ﷺ کے چہرہ انور پر موتیوں کی طرح گرتے ہوئے نظر آتے تھے۔
حضرت خدیجہؓ کے فضائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو احاطہ تحریر میں نہیں آسکتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔