حیا ایک نعمت ہے

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
حیا ایک نعمت ہے
ام لبیب عمار
خداوند قدوس جل مجدہ نے آقائے نامدار سرکار دوعالم ﷺ کو خاتم النبیین بناکر جن مقاصد عالیہ کے تحت مبعوث فرمایا ان مقاصد میں سے اہم مقصد۹ تزکیہ نفوس ہے یعنی انسانوں کو اچھے اخلاق اختیار کرنے اور برے اخلاق سے دور رہنے کی تلقین وتربیت۔ بہترین مہذب اور بااخلاق انسانوں پر مشتمل معاشرے کی تشکیل کا کام اگرچہ تمام انبیاءعلیہم السلام بھی اپنے اپنے زمانے میں انجام دیتے رہے مگر جناب محمد ﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہی اس کام کی تکمیل ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنے اسوہ وکردار سے صحابہ ؓ کی وہ تربیت فرمائی کہ وہ اقوام عالم کے ہادی بن گئے۔ اخلاقی تربیت کے ضمن میں آپ نے فرمایا ”انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق “یعنی میں اخلاقی خوبیوں کو کمال تک پہنچانے کے لیے مبعوث کیا گیاہوں۔
ایک مسلمان کے لیے اخلاقِ حسنہ سے آراستہ ہونا کتنا ضروری ہے، اس کو جناب رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک ارشاد مبارک میں یوں واضح فرمایا ”سب سے کامل مسلمان وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ “ اسلام میں پسندیدہ اخلاق کی ایک طویل فہرست ہے جس میں صبر وشکر ،صدق وامانت ،خوش کلامی ونرم مزاجی ،انس ومحبت زہد وقناعت، توکل ورضا ایثار وقربانی تواضع وخاکساری ،احسان وسخاوت رحم دلی وغیرہ ایسے اخلاق فاضلہ شامل ہیں۔ مگر ان میں شرم وحیا کی خصلت بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث پاک میں ایمان وحیاءکے درمیان بڑاگہرا تعلق بیان فرمایا ہے۔
ارشاد گرامی ہے ”حیاءاور ایمان ہمیشہ ایک ساتھ رہتے ہیں جب ان میں سے ایک اٹھایا گیا تو دوسرا بھی اٹھا لیا گیا۔ “
یعنی حیاءاور ایمان میں چولی دامن کاساتھ ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آپ نے حیاءکو ایمان کا بڑا شعبہ قرار دیاہے۔ ایک جگہ ارشاد مبارک ہے کہ ہردین کی ایک خاص عادت ہوتی ہے اور اسلام کی عادت حیاءہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں مذکور ہے کہ ایک صحابی کسی شخص سے اپنا دیا ہوا قرض واپس مانگنے سے شرمارہے تھے کہ کسی نے کہا: اپنے حق کے لیے شرم مت کرو۔ اس پر جناب نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو (کہ اگر یہ بوجہ حیاءمطالبہ نہیں کر رہا تو اچھی بات ہے )کیونکہ حیاءتو ایمان کا حصہ ہے۔
یہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ جیسے بندوں سے حیا ءضروری ہے اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالی سے حیاءکرنا لازمی اور ضروری ہے اور اس کے لیے زبانی جمع خرچ اورخالی دعوے کافی نہیں بلکہ خواہشات نفسانیہ کو اس مالک کی رضا کے تابع کرنا ہوگا اور اپنے جسم وروح کو اطاعت خداوندی کے رنگ میں رنگ کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا ہوگا کیونکہ یہی حقیقی حیاءاور بندگی کا تقاضا ہے۔