ادلے کا بدلہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ادلے کا بدلہ
عابد جمشید
ہماری دلہن نے کیا بنایا ہے اپنے ہاتھوں سے ؟
”سرتاج جو آپ کی فرمائش تھی ، بھنا ہوا گوشت اور چلغوزے کا حلوہ “
”واہ بھئی !مان گئے“
شادی کوسات دن ہی تو گزرے تھے کہ ماجد نے فرمائش کر دی ”کل تمہارے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کھاﺅں گا۔ “
”جی ضرور“ عفت شرماتے ہوئے بولی۔ ایک ہفتہ میں ہی اس نے اپنے خاوند کی ہر پسند و ناپسند معلوم کر لی تھی۔ عفت ان عورتوں میں سے تھی جو اس دنیا میں جنت کی حوروں کا روپ ہوتی ہیں۔ خالص مشرقی بیوی، فرمانبرداری اور جاں نثاری کی مثال !
سپیدہ سحر نمودار ہو چکا تھا چہچہاتے پرندے اپنے مقدر کا لکھا رزق تلاش کرنے نکل پڑے تھے۔ عفت نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد سے کچن سے باہر نہیں نکلی تھی، ماجد حجلہ عروسی میں پڑا سو رہا تھا۔ گھر میں دونوں کے سوا اور تھا ہی کون ایک ملازم، دینو بابا جو عرصہ سے اسی گھر میں تھا،کل سے وہ بھی چھٹی پر تھا۔ سورج طلوع ہوئے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ عفت نے کھانا تیار کرکے دسترخوان سجا دیا۔ ماجد کی آنکھ پاﺅں پر ہلکی سی گدگدی سے کھلی، عفت سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔
”اٹھے سرتاج! کھانا تیار ہے۔ “
”کھانا ؟ کیسا کھانا؟ دینو بابا تو کل چھٹی لے کر چلا گیا تھا۔“ماجد حیران ہوتے ہوئے بولا
”میرے حضور ! آپ کی باندی نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے“۔ عفت شرما کر بولی ”آپ ہی نے تو فرمائش کی تھی۔“”ارے ہاں! یاد آیا“ ماجد سر پر ہاتھ مارتے ہوئے چھلانگ لگا کر بستر سے باہر نکل آیا ”ارے واہ! کیا خوشبوہے بس آئندہ سے دینو بابا کی چھٹی“ عفت نے سالن کے ڈونگے سے ڈھکن اٹھایا تو ماجد چہک اٹھا۔
عفت نے پلیٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ دروازہ پر ٹھک ٹھک کی آواز آئی ماجد کے دل میں نجانے کیا آیا کہ عفت سے کہنے لگا بیگم لاﺅ سالن میں نکالتا ہوں تم دروازے پر دیکھو تو کون ہے ؟
عفت دوپٹہ سنبھالتے ہوئے اٹھی اور دروازے پر جاکر بولی، کون ہے ؟
دستک دینے والے کو شاید عفت کی مدھم آواز سنائی نہ دی یا کوئی اور وجہ تھی کہ وہ خاموش رہا۔ ماجد کی نظریں عفت کی طرف ہی تھیں۔ اس نے اشارہ کیا کہ دروازہ کھول کر دیکھ لو۔ دروازہ کھلا تو ایک زردرو نوجوان کھڑا دکھائی دیا، عفت کو سامنے کھڑا دیکھ کر نوجوان نے نظریں جھکالیں
”بہن کئی دن سے بھوکا ہوں اللہ کے لیے کچھ کھانے کو دے دیجئے۔“
ماجد اپنی نئی نویلی دلہن کے ہاتھ کا بناکھانا کھانے کوتیار بیٹھا تھا اسے یہ بے وقت کی مداخلت سخت ناگوار گزری۔
”جاﺅ دفع ہو جاﺅ یہاں سے۔ “ وہ پلک جھپکنے میں دروازے پر جا پہنچا ”یہ صبح صبح کس منحوس کا منہ دیکھ لیا، کوئی وقت بھی ہوتا ہے مانگنے کا۔ “
زردرونوجوان اس افتاد پر بوکھلا کر پیچھے کو ہٹنے ہی لگا تھا کہ ایک زور دار دھکے نے اسے زمین پر گرادیا۔
”کم بخت اتنا ہٹا کٹا ہوکر بھیک مانگتا پھرتاہے شرم نہیں آتی۔ اب یہاں زمین پر پڑارہا تو یہیں گاڑ دوں گا مردود کو۔ “
نوجوان بھکاری اپنا سر تھامتے ہوئے لڑکھڑاتی ٹانگوں کے ساتھ اٹھا اور دیوار تھامتے ہوئے ایک طرف چل دیا۔ عفت کو اس کے میل کچیل میں اٹے زرد چہرے پر تیز سرخی دکھائی دی۔ ماجد کے بے رحم دھکے نے اس کے ماتھے کو زخمی کر دیا تھا۔
”آﺅبیگم کھانا کھائیں۔ کم بخت نے سارے موڈ کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ “
ماجد ا س کا لرزتا ہوا ہاتھ تھام کر واپس دستر خوان پر آبیٹھا۔ عفت کے حلق سے لقمہ نیچے نہیں اتر رہا تھا لیکن خاوند کی خوشی کی خاطر خود پر جبر کرکے بیٹھی رہی۔ گوشت کی سرخی اور نوجوان بھکاری کے خون کی سرخی اس کو ایک جیسی لگ رہی تھی۔ لقمہ منہ میں رکھنے لگتی تو کلیجہ منہ کو آتا۔ جیسے تیسے چند لقمے زہر مار کیے اور اٹھ گئی۔
عفت کی شادی کو پانچ سال ہونے کو تھے اور ابھی تک اس کی آغوش خالی تھی۔ ڈاکٹرز کی رپورٹ کے مطابق عفت میں کوئی نقص نہیں تھا اور نہ ہی ماجد میں۔ بس اوپر سے ہی حکم نہیں ہو رہا تھا۔ ماجد ہر وقت اسی سوچ میں غلطاں رہتا دوسری مصیبت یہ آن پڑی کہ کاروبار میں دن بدن نقصان ہونے لگا۔ ماجد اپنا سارا غصہ بے چاری عفت پر اتارتا اور وہ بے چاری اپنے نصیبوں کا لکھا سمجھ کر چپ ہو رہتی۔
ایک دن تو غضب ہی ہو گیا کسی ملازم کی غلطی پر آگ بگولا ہوکر ماجد نے اسے نوکری سے نکال دیا۔ ملازم کی آہ وزاری سے ماجد کا دل تو کیا پسیجتا الٹا بے چارے کو مار مار کر ادھ موا کر دیا۔ شام کو عفت نے ماجد کی زبانی سارا قصہ سن کر اس غریب کی سفارش کی تواس ظالم نے طلاق دے کر نکال باہر کیا۔ عفت اس صدمے کو بھی خدا کی رضا سمجھ کر پی گئی اور واپس بوڑھی ماں کے گھر آبیٹھی۔
وقت: پر لگا کر اڑتا رہا اور عفت کے زخموں کا مداوا بھی کرتا رہا۔ بوڑھی ماں نے بھاگ دوڑ کر کے ایک اچھا رشتہ تلاش کیا اور عفت ایک مرتبہ پھر ہاتھوں میں حنائی رنگ لیے پیا آنگن جا اتری۔ شادی کو دو ہفتے گزرے تو رضوان نے وہی فرمائش کی جو ہر شوہر اپنی نئی دلہن سے کیا کرتا ہے۔
عفت نے اپنی ساس سے مل کر بڑے چاﺅ اور ارمان سے کھانا تیار کیا۔ دستر خوان سجا تو رضوان بھی آبیٹھا۔ عفت پلیٹوں میں سالن نکال رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ رضوان اٹھنے ہی لگا تھا کہ دروازہ دوبارہ کھٹکھٹایا گیا اور باہر سے ایک نحیف سی آواز ابھری
”اللہ کے نام پر کچھ کھانے کو دے دو “
”رضوان بیٹا !یہ سالن اور کچھ روٹیاں فقیر کو دے آﺅ۔“ زینت خاتون اپنے بیٹے سے مخاطب ہوئیں
”ٹھہریں امی جان ، میں جاتی ہوں۔“کسی انجانے احساس کے تحت عفت اٹھ کھڑی ہوئی
کھانا ہاتھ میں لیے دروازے تک پہنچی اور دروازہ کھول کر کھانا باہر موجود فقیر کو دینے ہی لگی تھی کہ چکرا کر رہ گئی۔ برتن گرنے کی آواز سن کر ماجد بھاگتے ہوئے عفت تک جا پہنچا جو اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے زاروقطار رو رہی تھی۔
”کیا ہوا ؟عفت کیا ہوا؟“ رضوان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے اچانک کیا ہو گیا؟
”بیٹی کیا بات ہے ؟کیوں رو رہی ہو؟“ زینت خاتون بھی دروازے پر آپہنچی تھیں اور اب عفت کو سینے سے لگائے ہوئے تھیں۔
ماجد اتنی دیر میں دروازہ بند کرکے واپس پلٹا تو عفت کی بات سن کر سکتے میں آگیا
”رضوان یہ فقیر میرا سابقہ شوہر تھا۔ ماجد انٹر پرائزز کااکلوتا مالک ! ماجد علی خان ! اسے اس کے تکبر کی سزا ملی ہے۔ امی جان ! اس نے شادی کے ساتویں دن ایک فقیر کو کھانا مانگنے پر دھکا دے کر اس کی پیشانی خون آلود کر دی تھی اور اتنی گالیاں بھی دی تھیں۔“
اب باری رضوان کی تھی اس نے کہا!
”عفت ! جس بھکاری کی روح کو زخمی کرنے پر اکتفا نہ کرتے ہوئے اسے دھکا دے کر تمہارے سابقہ شوہر نے زخمی کر دیا تھا وہ میں ہی تھا .... ہاں میں ! “
عفت کو یوں لگا جیسے اس کے بدن میں جان ہی نہ رہی ہو۔ وہ بے سدھ سی ہو کر زینت خاتون کی بانہوں میں جھول گئی۔