آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
سامنے روضہ اقدس ﷺ ہے محبت والفت اور امن آشتی کے ٹھنڈے جھونکے قلب وجان کو فرحت بخش رہے ہیں آج سے چودہ سو سال پہلے والا مدینہ (یثرب)اپنے اندر وہی سکون وہی بہار رکھتا ہے مکہ کے ریگزاروں سے مدینہ تک، شعب ابی طالب سے طائف کی گلیوں تک، غار ثور سے لیکر غار حرا تک ،حضور ﷺ کی عملی زندگی قرطاس کے چہروں کو منور کر رہی ہے۔ زبان مبارک سے ادا کیا ہوا ہر لفظ مبارک اعضاءسے وجود پانے والا ہر آشارہ آج بھی قابل عمل اورذریعہ نجات کی حیثیت رکھتا ہے اور اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے بلغ ما انزل الیک من ربک کو کتنی دیانتداری سے پہنچایا۔
لخت جگر بیٹیوں کو طلاقیں، ابولہب کاسگاچچا ہو کر پتھر اچھالنا، جسد اقدس پر اوجھڑی، معاشی بائیکاٹ، وہی طائف کے پتھر جن سے آپ کا مبارک جسم لہو لہان ہوگیا، ان سنگریزوں اورپتھروں کو بوچھاڑ میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک مرتبہ گرتے ہیں درندے بغلوں میں ہاتھ ڈلا کر پھر کھڑا کردیتے ہیںپھر پتھروں کا مینہ برساتے ہیں آپ پھر گرتے ہیں....نعلین مبارک لہو سے تر بتر ہو جاتے ہیں لیکن دین کی تبلیغ واشاعت کاسفر پھر بھی جاری وساری ہے۔
اپنا وطن، گھر بار، خاندان، رشتہ دار،قوم،قبیلہ،علاقہ ایک خدا کے لیے قربان کیا جارہا ہے صرف اس کی خوشنودی کے لیے چٹانوں کے دامن میں بسیرا ہو رہا ہے کبھی غاروں میں روپوشی ہو رہی ہے، بھوک اور بے سروسامانی کا عالم میں بدرواحد کے معرکے لڑے جارہے ہیں، پیٹ پر ایک پتھربلکہ دو دوپتھر باندھ کر خندق کو کھودرہے ہیں، اتنی عسرت اور تنگی کے عالم میں بھی خدائی احکام ادا کیے جارہے ہیں، امت کو آپس میں جانثاری کادرس سنایا جا رہا ہے، رنگ، نسل، نسب کا فرق مٹ رہا ہے، کالے گورے کی تمیز ختم ہورہی ہے، عجمی اور عربی میں تفریق اپنی موت آپ مر رہی ہے، خاندانی اورقبائلی تعصب حسدوکینہ سے پاک ہو رہے ہیں، مہاجرین وانصار یک جسم ویک جاں بنے ہوئے ہیں، ا وس وخزرج کی دشمنی باہمی مودت اور موانست میں ڈھل رہی ہے۔
پھر اس میں عورت کہاں پیچھے ہے؟ صحابیات خصوصاًامہات المومنین ان تمام مشکل اورکڑے اوقات میں دین کی سربلندی کے لیے اپنے آپ کو وقف کر چکی ہیں۔ سب کی سوچ یہی ہے کہ باقی آنے والوں تک خدا کا یہ دستورِ حیات (قرآن کریم)پہنچ سکے، اس کے لیے زمانہ کے سرد و گرم برداشت کر رہے ہیں خوشی وتنگی کے نشیب وفراز طے کر کے دین اسلام کو ہم تک پہنچانے کی سعی کی جارہی ہے۔
لیکن!!!
ہم نے اس دین کی کیا قدر کی ؟ اس کے احکامات کا مذاق اڑایا، آقاﷺ کے مبارک فرامین سے رخ دوسری طرف پھیرا، اخلاقیات کاجنازہ نکالا، معاشرت کو غیروں کے طریقوں سے گزارنے کے لائحہ ہائے عمل بنائے ،میلے ٹھیلے ناچ گانے اورموسیقی کو دین سمجھا، میں اسی طرح کی باتوں کوسوچ رہا تھا کہ وقت گزرنے کا احسا س بھی نہ ہوایقین جانیے !آنکھیں نم تھیں میں روضہ رسول ﷺ کی تاب نہ لا سکتا تھا۔ کبھی دیدار کی کوشش کرتا پھر خود ہی نظرکو نیچے جھکا دیتا اوراپنے آپ سے سوال کرتا ان آنکھوں کو کیا حق ہے کہ اس ر سول ہاشمی ﷺ کی زیارت کریں؟
حالت عجیب ہورہی تھی، اپنے اعمال اور امت مسلمہ کی زبوں حالی دونوں مجھے آقا کے حضور میں شرمندہ کررہی تھیں کہ ہمارے اعمال آپ ﷺ پر پیش کیے جاتے ہیں اور ہم پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے ہماری وجہ سے آقا ﷺ کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی؟ دل مضطرب کو سوائے شفاعت کی کرن کے اور کوئی چیز ختم نہیں کرسکتی تھی تحفہ دروروسلام پیش کرنے کے بعد بصد ادب واپس پلٹ آیا۔اللہ مجھے اور آپ کو اپنے پیارے حبیب کے صدقے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشے اور انکی شفاعت خاصہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین