خواب جو روٹھ گئے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
[آخری قسط]
خواب جو روٹھ گئے
ام محمد رانا
زینب ایک دفعہ پھر مصائب کی چکی میں پسنے لگ گئی تھی ایک طرف تو جوان بیٹی ہاجرہ کی بیوگی کادکھ تھا تو دوسری طرف اب صغری کے حالات بھی ڈانواڈول تھے۔ صغری کامیاں زاہد ایک ماڈرن اور فیشن ایبل مرد تھا لیکن صغری نے چونکہ ایک سادہ ماحول میں پرورش پائی تھی وہ زمانے کے نام نہاد جدید تقاضوں کے مطابق مغرب زدہ نہیں بن سکتی تھی۔ وہ جس نے کبھی غیر مرد کو اپنے لباس کی جھلک تک نہیں دکھائی تھی بھلا وہ مغربی لباس میں پارٹیوں میں جاکر ڈانس کیسے کر سکتی تھی؟ بقول زاہد کے صغری کی قدامت پرستی کو وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ صغری شادی کے دوسرے سال ہی طلاق کا پر وانہ لیے گھر آگئی تھی۔ زینب نے جتنی جلدی اپنے فرض سے فراغت حاصل کی تھی اتنی ہی جلدی وہ دوبارہ دکھوں کی دلدل میں دھنس گئی۔ اسے سمجھ نہیںآتا تھا کہ اس نے زندگی میں کونسی خطا کی ہے جس کی اسے اور اس کی بیٹیوں کو سزا بھگتنا پڑی۔
ادھر شہزاد لڑکپن سے جوانی میں داخل ہو رہا تھا۔ اب دن رات بہنوںکی توجہ کا مرکز صرف اور صرف ان کا بھائی تھا انہوں نے اپنی ماں سے کہہ دیا تھا کہ وہ انھیں دوبارہ شادی کا کہہ کے شرمندہ نہ ہو۔ زینب نے بھی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا اب تینوں ماں بیٹیاں شہزاد کی شادی کے خواب سوتے جاگتے میں دیکھا کرتی تھیں۔ آخر وہ دن بھی آگیا جب شہزاد نے دولہا بن کر اپنی ماں اوربہنوں کے ارمان پورے کر دیے اورچاندسی دلہن لا کر اس سکوت کو توڑا جوعرصہ سے اس گھر کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا۔
خوبصورت تو شہزاد بھی بہت تھا لیکن رابعہ کے انتخاب پر لوگ ہاجرہ اورصغری کو داد دیے بنا نہ رہ سکے جنہوں نے نہ صرف اتنی خوبصورت بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر خوب سیرت لڑکی کو اپنے بھائی کے لیے پسند کیا تھا۔ شہزاد بھی رابعہ کو پا کر نہال ہو گیا تھا اب اس کے چاروںطرف محبتیں ہی محبتیں تھیں ماںواری صدقے جاتی نہ تھکتی او ربہنیں بھائی بھاوج کو دیکھ کر خوش ہوتیں اور دل ہی دل میں نظریں اتارتی رہتیں۔
شہزاد اوررابعہ کی خوشحال ازدواجی زندگی گزر رہی تھی کمی تھی تو صرف اور صرف اولاد کی جس کی تمناصرف شہزاد اوررابعہ کو ہی نہیں تھی بلکہ شہزاد کی دونوں بہنیں بھی اس بات کی بہت خواہشمند تھیں کہ اللہ ان کے بھائی کو بھی وارث عطاکرے۔ شادی کو دس سال کا عرصہ گزر گیا تھا جب ان پر یہ بات منکشف ہوئی کہ رابعہ ماں نہیں بن سکتی۔ ماں تو اس دکھ لیکر جلد ہی خالق حقیقی سے جاملی اب بہنوں کی خواہش تھی کہ بھائی دوسری شادی کر لے۔ ایک دن ہاجرہ نے اپنے دل کی بات بھائی سے کہہ ہی دی مگر اس نے انکار کر دیا لیکن جب دونوں کا اصرار بڑھا تو رابعہ بولی جو کام کرنا ہے وہ کل پر کیوں چھوڑیں آج ہی کیوں نہ کریں؟
زینب کی وفات کو ایک سال ہونے کو آیا تھا کہ شہزاد کی دوسری شادی کی تاریخ طے ہوگئی۔ شہزاد کے دل میں طرح طرح کے وسوسے تھے اوررابعہ بھی دل میں پریشان تھی شہزاد کورابعہ کا پتہ تھا اوررابعہ شہزاد سے اچھی طرف واقف تھی۔ شہزاد کا گیارہ سال تک دوسری شادی کے بارے میں نہ سوچنا اوررابعہ کا خود آگے بڑھ کر شہزاد کی شادی کروانادونوں کی ایک دوسرے سے محبت کامنہ بولتا ثبوت تھا۔ رابعہ نے دل میں ٹھان لی تھی کہ وہ اپنی سوکن نبیلہ کو کسی بھی شکایت کا موقع نہیں دے گی اور شہزاد کو اس بات کا خوب اچھی طرح احساس تھاکہ اس نے را بعہ اور نبیلہ کے درمیان انصاف سے کرنا ہے۔
رابعہ، صغری اور ہاجرہ تینوں اس گھر کی دائمی خوشیوں اور شہزاد کی پرسکون زندگی کے لیے بارگاہ الہی میں سراپادعابن گئی تھیں انہیں کیا معلوم تھا کہ تقدیر ایک دفعہ پھر انہیں آزمائش میں ڈالنے والی ہے۔ شہزاد کی شادی کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تھے کہ نبیلہ نے اپنے رنگ دکھانے شروع کر دیے۔ اس کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جہاں ایک وقت کی روٹی ملنے کے بعد اگلے وقت کی روٹی کے لیے سوچ بچار کرنا پڑتی تھی۔ فاقوں سے نکل کر اب وہ ایسے گھر میں آگئی جہاں اس کی ناز برداریاں شہزادیوں کی طرح کی جاتی تھیں اس نے بجائے اللہ کے شکر کرنے کے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ گھر میں موجود باقی تینوں عورتوں سے چھٹکارنے کی کونسی صورت اختیار کرے کہ وہ اس گھر کی بلا شرکت غیر مالک بن جائے سیاہ وسفید پر اس کی حکمرانی ہو۔ نبیلہ نے شہزاد کو بناوٹی باتوں سے دھیرے دھیرے اپنی گرفت میں لینا شروع کر دیا اورغیر محسوس طریقے سے وہ اس کے دل ودماغ پرقابض ہوتی جارہی تھی۔ رابعہ نے اپنے آپ کو پہلے ہی ایسی صورتحال کے لیے تیار کررکھا تھا اس نے اپنے مجازی خدا کی خوشی کے لیے اپنی زندگی کا سکھ قربان کر دیا۔ بہنیں بھی اب شہزاد کی محبت میں کمی محسوس کرنے لگیں تھیں اگرچہ ان سب کے لیے یہ ساری باتیں انہونی تھیں اس کے باوجود وہ صرف اورصرف شہزاد کی اولاد دیکھنے کی آرزو رکھتی تھیں۔
لیکن نبیلہ کسی طور نہیں چاہتی تھی کہ ہاجرہ اور صغری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس گھر میں اس پربوجھ بنی رہیں۔اس نے شہزاد کی ذہن سازی کر دی تھی جس کی وجہ سے وہ بھی اس بوجھ کواتار پھینکنے کا سوچنے لگا۔ وہ دن نہ صرف دونوں بہنوں کے لیے بلکہ رابعہ کے لیے بھی قیامت سے کم نہیں تھا جب شہزاد نے انہیں بتایا کہ ایک ماہ بعد وہ ان کو اس گھرسے الو دواع کرنے والا ہے۔ دونوںحیرت سے گنگ رہ گئیں اتنا بڑا فیصلہ ان کی رضا کے بغیر ہی کر لیا گیا تھا اور ساتھ یہ وارننگ بھی کہ اس فیصلے میں لچک نہیں ہے۔ دونوں بہنوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہی بھائی جس نے گھر کے ہر معاملے کا اختیار بہنوں کو سونپ رکھا تھا آج ان کی زندگی کا اختیار نبیلہ کو دے دے گا۔
نبیلہ نے ہاجرہ کا رشتہ اپنے دور کے چچا سے جو کہ پہلے ہی جوان اولاد کا باپ تھا اور ان کے نکمے پن کی وجہ سے عاق کرکے انکی ماں کو طلاق دے چکا تھا، اس سے طے کردیا اورصغری کو اپنی بہن کے اوباش اور ہیروئن کے عادی جیٹھ کے ساتھ منسلک کر دیا۔شہزاد کی آنکھوں پر حماقت کی پٹی بندھی ہوئی تھی اس کی اپنی کوئی سوچ نہیں تھی وہ اب نبیلہ کے دماغ سے سوچتا تھا۔
جس دن شہزاد نے اپنی بہنوںکو بیوی کی خوشی کی بھینٹ چڑھایا تو رابعہ، ہاجرہ اور صغری کی سسکیوں سے گھر کے درودیوار کانپ گئے جبکہ نبیلہ بڑے تفاخرانہ اندازا سے گردن اکڑائے رابعہ کو کہہ رہی تھی” جو کام تم دس سال میں نہیں کر سکیں میں نے وہ چند مہینوں میں کر دیا ہے۔“ رابعہ کو کیا معلوم تھا اس نے اور اس کی نندوں نے جو دیا روشنی کے لیے جلایا وہ انہیں ہی جلا کر راکھ کردے گا۔ جن کے مقدر میں دکھ ہوں وہ در بدلنے سے دور نہیں ہوتے۔ اٹھائیس سالہ ہاجرہ کا ساٹھ سالہ شوہر بیاہ کر گھر بھی نہیں پہنچا تھا کہ اس کے عاق کردہ بیٹوں نے راستے میں ہی اپنی انتقام کی آگ بجھانے کے لیے اپنے باپ کے ساتھ ہاجرہ کو بھی گولیوں سے چھلنی کر دیا ادھر جب صغری نے اپنی بہن کے قتل کے بارے میں سنا تو اس نے دوسرا سانس لینا بھی گورانہ کیا حجلہ عروسی میں جانے سے قبل ہی اس کی روح بھی پرواز کرگئی۔
رابعہ نے جب ہاجرہ اور صغری کی موت کا ذمہ دار نبیلہ اور شہزاد کو ٹھہرایا تو نبیلہ نے اب اسے بھی اپنے ظلم کے لیے تختہ مشق بنا لیا۔ ادھرخدا شہزاد کو اولاد سے سرفراز کرنے والا تھا رابعہ نے سب دکھ بھول کر نبیلہ کو دل سے معاف کر دیا تھا لیکن نبیلہ ان لوگوں میں سے نہیںتھی جو کسی کا احسان یاد رکھیں۔ اس نے شہزاد کو باور کروادیاتھا کہ رابعہ ان کی خیرخواہ نہیں ہے وہ رائی کو پہاڑ بنا کر پیش کرتی رہی اور ایک دن شہزاد نے وہ کر دیا جو نبیلہ کی دلی خواہش تھی اوررابعہ کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ رابعہ طلاق کا داغ لیکر اس گھر کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر اپنے بھائی کے گھر چلی گئی۔ بعض اوقات اللہ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے کہ وہ جو چاہے کرے اور اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے نجانے کسی وقت انسان کو اپنے کیے کی سزا مل جائے۔
نبیلہ ایک بیٹے کی مان بن چکی تھی اور اپنی مکاریوں اور چالاکیوں پر بڑا فخر کرتی کہ کس طرح میں نے اپنا میدان صاف کیا لیکن اسے کیا پتہ تھا اس کے مکافات کا وقت آچکا ہے۔ایک دن دونوں میاں بیوی بیٹے سمیت باہر کھانا کھانے جارہے تھے کہ سامنے سے آتے ٹرک نے بائیک کو کچل کر رکھ دیا۔ شہزاد نے موقع پر دم توڑ دیا جبکہ اس کے بیٹے کی دونوں ٹانگیں اس حادثے کی نذرہوگئیں۔
نبیلہ رو رو کر نیم پاگل ہو گئی لیکن اپنا بویا، کاٹنا بھی تو خود ہی پڑتا ہے۔ آج نبیلہ لوگوں کے لیے عبر ت کی علامت بن چکی ہے۔ سچ ہے کہ جو دوسروں کے احسانات کی قدر نہیں کرتے تواللہ بھی بڑا بے نیاز ہے وہ بھی ایسے لوگوں کو نشانِ عبرت بنا دیتا ہے۔