لیکن

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
لیکن
ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی
ہم نہ لغت کے ماہر ہیں اور نہ ہی الفاظ کے محقق،جو لفظ ذہن میں آگیا اسے استعمال کرلیا بلکہ اس سے کام چلا لیا ،تمام الفاظ کے حسب نسب کو جاننا اپنے بس کی بات نہیں ، ورنہ محققین نے تو الفاظ کی تصویری معنویت کی بھی تحقیق کی ہے۔ لفظ غضب کے بارے میں ایک محقق کا خیال ہے کہ یہ لفظ غضب کی پوری تصویر پیش کرتا ہے یعنی غضب کی ”غ“غصے میں گلے کی غرغراہٹ، ”ض“غصے میں دانت پیسنے اور حرف ”ب“غصے سے منہ بند ہوجانے کی علامت ہے اس کے علاوہ لفظوں کی معنویت اور دلالت کے اور بھی بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔
صرف ایک لفظ ”ہاں“ ہمارے ایک محقق دوست کے مطابق صرف اپنی ادائیگی کے اعتبار سے بہت سے معانی کا حامل ہے اگر ”ہاں “آہستہ سے شرمانے کے انداز میں بولا جائے تو قصورکا قبول کرنا اور تین بار اسی انداز میں ہاں کہا جائے تو نکاح قبول کرنا مراد ہوتا ہے۔ اگر عام لہجے میں دو تین دفعہ ہاں کہا جائے تو مطلب ہے کہ مخاطب بے وقوف یا ناپسندیدہ شخص ہے جس سے پیچھا چھڑانا مقصود ہے ،اگر ہاں زور سے پرجوش انداز میںکہا جائے تو ڈھٹائی کو ظاہر کرتا ہے اگر ہاں خوب کھینچ کر کہا جائے تو کئی معانی رکھتا ہے یعنی ہماری بلی ہمیں ہی میاوں ،یا زمانہ ہی برا آگیا ہے ،لیجیے لفظ ہاں تو صرف ایک ہے اور محض ادائیگی کے اختلاف سے اس میں اتنے ڈھیر سارے معنی پیدا ہوجاتے ہیں۔
ایسے ہی ایک لفظ ”لیکن “ہے جسے قواعد میں حرف استثناءکہتے ہیں۔ ہم نے کبھی سوچا ہی نہیںتھا کہ اس کی معنویت کی بھی بہت سی جہتیں ہیں ہم تو سمجھتے تھے کہ استثناءکے معنوں میں اسے حضرت علامہ نے استعمال کیا تھا اور خوب کیا تھا
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
لیکن اس لفظ ”لیکن“ کی معنوی جہتیں، جن سے کم از کم ہم شعوری طور پر واقف نہیں تھے، ایک روز اتفاق سے ہم پر روز روشن کی طرح بلکہ روز محشر کی طرح عیاں ہوگئیں ہوا یوں کہ ایک روز ہم نے ایک مجلس ادب میں مضمون پڑھنے کی حامی بھر لی۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ یہ مجلس ”مجلس تنقید “ہے تو ہم کبھی یہ دعوت نامہ قبول نہ کرتے ہم دھوکے میں مارے گئے۔
اصل میں ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ سیدھی سادی مجلس ادب ہوگی ہم مضمون پڑھیں گے اور واہ واہ سنیں گے کہ تنقید تو ویسے بھی ہمیں بہت بری لگتی ہے، ہاں اگر دوسروں پر ہوتو اور بات ہے اپنے بارے میں تنقید ہم برادشت نہیں کرتے، ہمیں تو بس اپنی تعریف اچھی لگتی ہے۔ اگرچہ سب لوگ کہتے ہیں کہ انہیں اپنی تعریف پسند نہیں اور وہ سچ ہی کہتے ہوں گے لیکن اس معاملے میں ہم ساری دنیا سے مختلف ہیں چنانچہ ہم بہت خوش تھے کہ ہمیں اپنے کمالات فن کے اظہار کا موقع ملا۔ لوگ جونہی ہمارا مضمون سنیں گے تو حیرت سے کہیں گے کہ یہ رستم زمانہ ،یہ نابغہ روزگار ،یہ یگانہ عصر ،یہ وحید دہر زمانے کی نظروں سے کہاں چھپا ہو ا تھا؟ اب تک کیوں نہ دنیا کو پتا چلا کہ
ایسی چنگاری بھی ”یارو“ اپنی خاکستر میں تھی
چنانچہ ہم نے اس عزم کے ساتھ کہ آج تو بس واہ واہ لوٹنی ہے اور معرکہ ادب سر کرلیناہے مجلس ادب میں شریک ہوئے بڑے اعتماد سے ہم نے اپنا مضمون پڑھا۔ پڑھنے کے بعد سامعین کرام پر فاتحانہ نظر ڈالی سب کبوتروں کی طرح دبکے ہوئے سے نظر آرہے تھے اور خود ہم اپنی نظرمیں اس وقت شہباز سدرہ نشین سے کچھ کم نہ تھے بلکہ ہمیں اپنے بارے میں کچھ زیادہ ہی زعم تھا کہ ایک کرم فرما نے یوں گوہر افشانی شروع کی کہ یہ مضمون بہت ہی خوبصورت ،بڑا ہی پرمعانی ہے کیا الفاظ! کیا مطالب! ہر لحاظ سے شاہکارہے۔ یوں اس ادیب باتمیز نے ہمارے مضمون کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملادےے۔
ہمارا دل باغ باغ ہوگیا اور واہ واہ کر اٹھا دل نے زور سے دعا دی کہ اللہ کرے زورزباں اور زیادہ۔ ہم یہ گفتگو یعنی اپنی تعریف سن رہے تھے اور سر دھن رہے تھے کہ اتنے میں اس کرم فرمابلکہ ستم ظریف نے زور سے کہا لیکن ....ہم نے سوچا کہ ہمارا دوست اب کہے گا ....لیکن زمانہ اس قدر سفلہ پرور ،دانشور ناشناس ہے کہ ایسے گوہر نایاب بلکہ گدڑی میں لعل کی قیمت نہیں پہچانتا، قدر نہیں کرتا۔ یوں زمانے کے خلاف لعنت و ملامت ہوگی اور ہماری اشک شوئی اور ہمت افزائی ہوگی لیکن....
لیکن کے بعد میرے کرم فرما نے فرمایا کہ مضمون مذکورہ میں الفا ظ کا انتخاب بھونڈا سا ہے ،تراکیب کی بندش بودی ہے اور مطالب کچھ بوسیدہ سے ہیں جو گوش حق نیوش کو ناگوار لگتے ہیں یہ سن کر ہم دم بخود سے رہ گئے کہ کیسا تنقیدی ”شب خون “ مارا ہے اتنے میں ایک دوسرے کرم فرما نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں ہمارے مضمون کی تعریف وتوصیف شروع کی تو کچھ ہماری جان میں جان آئی ہم نے سوچا کہ واقعی سچ، سچ ہوتا ہے اور اس دنیا میں حق گو انسانوں کی کمی نہیں ایسے ہی اللہ کے بندے جن سے حق گوئی اور بے باکی کی آبرو باقی ہے ہمارے دل کی زبان پکار اٹھی
بجاکہتے ہو، سچ کہتے ہو پھر کہیو کہ ہاں یوں ہو
مرحبا! سبحان اللہ ! کیا بر وقت اور باموقع بات کہی ہے تیری آواز مکے اور مدینے! لیکن ہمارے اس کرم فرما نے اچانک پینترا بدلا اور لیکن کا لفظ اس زور سے بولا کہ ہم ٹھٹک کر رہ گئے دل دھک دھک کرنے لگا کہ خدا خیر کرے پھر بھی ہم نے اس دل زار کو تسلی دی کہ اب یہ کرم فرما کہے گا لیکن میرے فاضل دوست نے جو تنقید کی ہے وہ بالکل بے جا ہے ناروا ہے متعصبانہ اور جاہلانہ ہے بلکہ تنقید نہیں تنقیص ہے یا تنقید برائے تنقید ہے۔ لیکن جلد ہی ہماری امیدوں پر پانی پھر گیا اور ہمارے کرم فرمانے فرمایا کہ سارا مضمون پھس پھسا سا ہے کیا الفاظ کیا مطالب کیا معانی غرض کوئی چول سیدھی نہیں ان کی نظر میں یہ مضمون ”خودغلط ،املا غلط ،انشاءغلط بلکہ سراپا غلط کی صحیح اور سچی تصویر تھا “ہمارے باقی کرم فرماوں نے بھی اسی طرح پہلے ہمیں خوب اونچا اڑایا ،گویا تھپ تھپایا بلکہ گلے سے لگایا کندھوں پر بٹھایا آنکھوں پر سجایا اور پھر ”لیکن ....“کا نعرہ مار کر زور سے زمین پر دے مارا۔
لیکن کے نعرے سے پہلے ہماری کیفیت کچھ یوں ہوتی تھی کہ اپنے فن کی تعریف میں ہم خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں باچھیں کھلی جارہی ہیں ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے آنکھوں میں چمک ہے کانوں میں رس گھل رہا ہے لیکن”لیکن....“کے نعرے کے بعد ہماری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا تھا الفاظ نہیں بلکہ تیر تھے جو کانوں کے راستے سیدھے سینے میں بلکہ دل میں جگر میںگردے میں پھیپھڑوں تک میں پیوست ہورہے تھے۔
اس صورتحال سے بد حال ہوکر ہم نے ایک کرم فرما سے جس کی دوستی پر ہمیں کچھ بھروسہ تھا شکایت کے طور پر نہیں بلکہ فریاد کرتے ہوئے کہا اے شبلی ثانی !تیرے ہاتھ میں بھی پتھر ہے اور ہمارے اس دوست نے آگ بگولہ ہوکر فرمایا کہ یہ مجلس تنقید ہے خالہ جی کا گھر نہیں۔ یہاں کسی کی رعایت نہیں ہوتی یہاں کوئی رسم مروت نہیں چلتی اس کھیل میں شریک ہوئے ہو تو اس کے آداب سیکھو ان سے عہدہ برآہونے کا حوصلہ بھی رکھو اور نتائج بھی بھگتو تمہیں کس حکیم نے کہا تھا کہ ضرور مضمو ن لکھو اور اسے مجلس تنقید میں پڑھو اس کی صلواتیں سن کر ہمیں یوں محسوس ہوا کہ جیسے ہم کسی افسر بالا کو رشوت دیتے ہوئے انسداد رشوت ستانی کے عملہ کے ہاتھوں رنگے ہاتھ پکڑے گئے ہوں۔
ہم اس بے کسی کے عالم میں ہر ایک کرم فرما کی طرف دیکھ رہے تھے اور ہر ایک اپنی زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ جرم کیا ہے تو سزا بھی بھگتو اوریہ بندہ عاجز ایک ایسی بھیگی بلی بنا بیٹھا تھا جس میں گربہ عاجز بننے کی بھی سکت نہیں تھی ....نہ بھاگنے کی طاقت نہ صلواتیں سننے کی تاب اور یوں اس روز بلکہ اس گھڑی اس مثل ”نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن “کے معنی ہم پر صحیح طور پر واضح ہوئے اسی کے ساتھ ”لیکن “کے استعمال کی بھی نئی جہتیں روشن ہوئیں اور معاًیاد آیا کہ ہمارے ایک دوست نے بھی ”لیکن “بڑی خوب صورتی سے استعمال کی تھا جب ہم نے اس سے ایک پنسل مانگی تھی تو اس نے بڑی سادگی سے کہا تھا کہ آپ کے لیے جان حاضر ہے لیکن ....یہ پنسل میں نہیں دے سکتا۔
اسی طرح ایک بزرگ سے سنا تھا کہ ہلاکو خاں نے اپنے ایک وفادار جاں نثار جرنیل کے بارے میں غصے میں حکم دیا کہ اسے بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دیا جائے اس بے چارے نے اپنی وفادار ی کے اعتماد پر ہلاکو خان سے کہا کہ خان اعظم! یہ غلام سرکاروالا کا بڑا ہی وفادار جاں نثار ساتھی ہے میرے ساتھ ایسا سلوک نہ کیجیے ورنہ آسمانی روحیں او ر خدائے ذوالجلال آپ سے ناراض ہوجائے گا۔ ہلاکو خان بولا تم سچ کہتے ہو تم ہمارے بڑے وفادار جاں نثار جرنیل ہو ”لیکن....“ مابدولت اس وقت غصے اور جلال میں ہیں اور ہمیں خدا وند نے اسی حالت میں پیدا کیا تھا یعنی سزا بھگتنی ہی ہوگی۔
اسی طرح کہتے ہیں جب ایک طاقتور ملک نے ایک چھوٹے سے پڑوسی ملک پر حملہ کیا تو جس کے ساتھ باہمی امن ودوستی کا معاہدہ تھا تو اس چھوٹے ملک کے سفیر نے بڑے ملک کے بادشاہ کے دربار میں جا کر کہا کہ ہم میں تودوستی اور امن کا معاہدہے آپ ہم پر کیوں حملہ آور ہوگئے؟ اس طاقت ور ملک کے بادشاہ نے بھی” لیکن “کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کہا ہم جانتے ہیں ،ہم میں اور تم میں امن کا معاہد ہ ہے لیکن ....تم جانتے ہی ہو کہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ امن دوستی کے معاہدے وہاں ہوتے ہیں جہاں فریق برابر کے ہوں طاقتور کا جو جی میں آتا ہے کرتا ہے اور کمزور کو برداشت کرنا ہوتا ہے اسے برداشت کرنا ہی پڑتاہے ___میرصاحب کہنے لگے کہ افسوس ! اس ”لیکن“ نے ایک عظیم اہل قلم کا خون کردیا۔