مسائل کا حل

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مسائل کا حل
مولانا کلیم اللہ
مولانا صاحب! السلام علیکم!
کچھ دنوں سے ہم چند بہنوں کے درمیان ایک مسئلہ زیر بحث ہے میری بعض بہنوں کا کہنا ہے کہ عورت اپنے سر کے بال نہیں کٹوا سکتی جبکہ میرا مائنڈ یہ کہتا ہے کہ ان کوجیسے بھی سنو ارا اورکاٹاجائے اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ کوئی اتنا بڑاجرم نہیں۔اسلامی نقطہ نگاہ سے اس مسئلہ کا حل کیاہے؟ (شہناز فرخ ،خانیوال)
جواب: بہن!آپ کو ان جیسے مسائل میں الجھنا روا نہیںاورشرعی مسائل پر اپنے مائنڈ سے فیصلے کرنا بہت خطرناک بات ہے جہاں تک آپ نے یہ پوچھا کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے اس مسئلہ کا کیا حل ہے ؟ تو وہ یہ ہے کہ عورت اپنے سر کے بال بالکل نہیں کٹواسکتی۔ایک حدیث مبارک میں آپﷺ نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو اپنے سروں کے بال کٹواتی ہیں لہذا پنی عقل کے بجائے نبی ﷺ کے حکم کی تابعداری کریں اورموجب لعنت کاموں سے بچ جائیں۔ واللہ اعلم
محترم مولانا صاحب!
السلام علیکم
کیا عورت اپنے رخصت کے ایام میں (بحالت حیض یا نفا س) قرآن کریم کو ہاتھ لگا سکتی ہے پہلے ہم نے یہ سن رکھا تھا کہ ایسی حالت میںعورت کا قرآن کریم کو پڑھنا اور ہاتھ لگانا درست نہیں کچھ دنوں پہلے ٹی وی پر ایک مشہور مذہبی اسکا لر .... نے اس بات کی تردید کی اور کہا کہ عورت ایسی حالت میں بھی جبکہ اس کے حیض یا نفاس کے دن ہوں قرآن کریم کو پڑھ بھی سکتی ہے اوراس کو ہاتھ سے پکڑ بھی سکتی ہے۔ پلیز اس کاصحیح حل بتائیں کہ ہم کیاکریں؟
(ماہ نور، دینہ )
جواب: محترمہ! آپ نے جس مسئلہ کی وضاحت چاہی ہے وہ تمام اہل اسلام کے ہاں متفقہ مسئلہ ہے کہ عورت جب حیض یا نفاس کے دنوں میں ہوتو اس کا قرآن کریم کو مَس کرنا(چھونا)جائز نہیں۔اس مسئلہ میں حکم قرآنی کے ساتھ ساتھ احادیث کثیرہ بھی موجود ہیں جن سے یہ مسئلہ باآسانی سمجھ آسکتاہے اس کے علاوہ تمام اہل السنة والجماعة کااس پر اتفاق ہے کہ عورت کاایسی حالت میںقرآن کریم کو پڑھنا اورچھونا دونوں جائز نہیں۔
باقی آپ نے جس ”مذہبی اسکالر“کانام لیا ہے ان کے بعض دیگر مسائل بھی تمام اہل السنة والجماعة کے مسائل کے خلاف اورمتصادم ہیں ہمارے لیے مسائل شرعیہ کا جو حل قرآن وسنت اوراہل اسلام کے اجماع سے ثابت ہے اسی کو ماننا ضروری اور لازم ہے۔
آپ ﷺکے دور مبارک سے لیکر آج تک امت مسلمہ کے تمام لوگوں کا موقف اورنظریہ وہی تھا اوراب بھی وہی ہے جس کے بارے میں آپ نے اپنے سوال میں لکھا:”ایسی حالت میں عورت کا قرآن کریم کو پڑھنا اورہاتھ لگانا درست نہیں۔“ لہذا دورحاضر کے ان تما م مذہبی اسکالرز جن کے مسائل اور نظریات سے اہل اسلام کے مسائل ونظریات کے متصادم ہوں، ان سے بچنا لازم ہے۔ میں ایک گزارش ان تمام ”مذہبی اسکا لرز“ کی خدمت میں بھی کرناچاہتا ہوں کہ وہ بھی لوگوں کو دین کے وہی مسائل اور انہی نظریات کی تعلیم سے بہرہ ور کریں جو اہل اسلام کے ہاں صحیح متفق علیہ اور معمول بہا ہےں۔ نئی نئی باتیں بنا کے اوران کو” اسلام کادرجہ“ دے کر خود بھی گمراہ نہ بنیں اورعوام کو بھی اس سے بچائیںیہ ان کا اپنی ذات پر بھی احسان ہوگا اورعوام کی نجات کا ذریعہ بھی۔ واللہ اعلم
مولانا صاحب!
مسلمان عورتوں کا ایک دوسرے کو سلام کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ صرف منہ سے السلام علیکم کہہ دیں یا ہاتھ بھی ملائیں؟ (منور انور تابش، بہاولنگر)
جواب: دونوں طرح سلام کیا جاسکتا ہے۔