سوئے حرم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سوئے حرم
صبا یونس انبالوی
آج پر وفیسر عانیہ کی بہن کو آنا تھا اس لیے وہ جلدی گھر جانے کے موڈ میں تھی۔ آج اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ کس طرح اس دنیا کی دوڑ میں دوڑتی ہوئی اپنے گھر والوں کو بھول گئی تھی وہ چھ سال بعد اپنی اس لاڈلی بہن سے ملے گی جس سے وہ چھ گھنٹے بھی دور رہنے کا تصور نہیں کر سکتی تھی۔
نجانے کیوں آج اسے بار بار بابا کی نصیحتیں یاد آرہی تھیں اس کے والد نہایت متقی شخص تھے اور وہ اکثر کہا کرتے تھے بیٹا! ہر شخص اس دنیا کو فتح کرنے کی فکر میں ہے مگر یہ کسی سے بھی فتح نہیں ہوگی۔ عانیہ کو اپنے دل پر بھاری بوجھ محسوس ہو رہا تھا وہ ان یادوں کے بھنور سے نکلنا چاہتی تھی مگر ناممکن....وہ محسوس کر رہی تھی کہ وہ چھوٹی سی بچی بن گئی ہو اور اپنے باباکی گود میں بیٹھی ہو.... باباکہہ رہے تھے ” بیٹا! یہ دنیا میٹھی اور سر سبز وشاداب ہے جو اس کی طرف بڑھتا ہے وہ اسے اپنی رنگینیوں میں چھپا لیتی ہے۔“
عانیہ اس وقت سٹاف روم میں اکیلی بیٹھی تھی اور آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہ لیتے تھے اس کا جی چاہا کہ کاش وہ ہمیشہ اپنے بابا کے پاس رہتی اور اس دنیا کو کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی۔ اتنے میں کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی، وہ جلدی سے چہرہ صاف کر کے رجسٹر کھول کر اسے دیکھنے لگی۔
”عانیہ! کیا کر رہی ہو؟“ پرنسپل صاحبہ پوچھنے لگیں
”وہ ....میں ناں گھر جارہی تھی بس یونہی ادھر آبیٹھی کچھ خاص نہیں بس سر میں درد ہے۔“
تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد وہ اجازت لے کر Good by کہتی ہوئی پارکنگ کی طرف چلی آئی۔ اسے لگا جیسے پیچھے سے آواز آئی ”بیٹا میں نے تمہیں پہلے بھی ایک بار بتایا تھا کہ السلام علیکم کہا کرو“
گاڑی نکالتے ہوئے اس نے ان یادوں کو ایک بار پھر جھٹکنا چاہا مگر ندارد
”بیٹا مجھے سب سے بری عورت وہ لگتی ہے جو کہ چار دیواری سے نکل کر باہر سڑکوں پر بلا وجہ گاڑی دوڑاتی پھرے۔“
یا اللہ! یہ آج پندرہ سال بعد مجھے بابا کی یاد کیوں آرہی ہے؟ کیا بابا مجھے زندگی کے ہر موڑ کی نصیحت کر گئے ہیں؟
گاڑی چلانے میں جواحتیاط درکار تھی اس کے باوجود وہ اپنے آنسوﺅں پر قابونہ پاسکی
”ماما !خالہ آئی ہیں“ ماما ،ماما چلاتی ہوئی ننھی حمنہ کچن میں دوڑے چلی آئی۔ فارینہ سے ملتے ہوئے عانیہ کی آنکھوں سے دو آنسو نکلے اور دوپٹے میں جذب ہو گئے۔ بڑے اہتمام سے رات کا کھانا کھلانے کے بعد وہ بہن کے پاس باتیں کرنے بیٹھی تھی کہ پھر بابا کی نصیحتوں پہ بات آ رکی۔ ”وہ.... ہاں.... یاد آیا....“ فارینہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔
”جی باجو! کہیں کیا بات ہے؟ آپ کچھ کہنا چاہ رہی تھیں۔“
”وہ ناں.... میں کہہ رہی تھی.... کہ تمہارے گھر کا ماحول....“باجو پھررک گئیں۔
آپ کیا کہنا چاہتی ہیں ذرا کھل کے بات کریں مجھے سمجھ نہیں آرہی.... میرے گھر کا ماحول.... کیا ہے اس ماحول کو؟
”وہ میں کہنا چاہتی ہوں کہ تمہارے گھرکاماحول ویسا نہیںجیسی تمہاری تربیت کی گئی تھی۔“
”ہاں فارینہ باجو مجھے دنیا کی رنگینیوں میں گم ہو کر پتہ ہی نہ چلا کہ میں کہاں پہنچ چکی ہوں لیکن دو تین دنوں سے مجھے یہ احساس ہو رہا ہے اور بابا بھی حد سے زیادہ یاد آرہے ہیں لیکن....“
”لیکن کیا ؟“
”وہ مم....میرے بچے ان سب چیزوں کے عادی ہو چکے ہیں وہ تو کارٹون دیکھے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتے پھر میری مصروفیت بھی ایسی ہی ہے۔“
”تمہارے بچے تو اس لیے ایسے ماحول کے عادی ہیں کہ تمہاری توجہ کے طالب ہیںاور رہی مصروفیت کی بات وہ تو تم خود ہی بڑھا رکھی ہے تمہیں کیا ضرورت پڑی تھی کی؟ حمادبھائی کی اچھی بھلی تو جاب ہے۔“ فارینہ باجو بڑے پیار سے بولیں
”ہاں یہ تو ہے۔“ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی حقیقت کا اعتراف کر گئی
فارینہ تو اگلے دن چلی گئیں لیکن ایک نیا عزم اس کے اندر بیدار کر گئیں۔
”بیٹا! کیا کر رہے ہو؟“
وہ خلاف معمول ماما کو اپنے کمرے میں دیکھ کر حیران ہوئے اور ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے
اس نے دیکھا کہ سی ڈی پلئیر پہ کارٹون لگے ہیں جوبالکل فلم کی طرح تھے۔ آگے بڑھ کر سی ڈی پلئیر کو آف کیا اور بچوں کے پاس بیٹھ گئی
”آﺅ بچو میں آپ کو کہانی سناﺅں گی۔“
”کک....کیا؟ واقعی؟“ انہوں نے خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات سے مختلف آوازیںنکالیں
”ہاں، لیکن پہلے کھانا“
کھانے کے بعد عانیہ نے دونوں بچوں کو نہایت پیار سے ”ممتا کی گود“ نامی کہانی سنائی۔ دونوں بچے اس کی گود میں تھے۔ وہ عزم کر چکی تھی کہ میں اپنے بچوں کو وہ بھولا سبق سکھاﺅں گی جو میرے ماں باپ نے مجھے سکھا یا تھا
”چلو بیٹا اب سونے کی دعا پڑھو
اللھم باسمک اموت واحیا“
عانیہ کو اپنی کمر پر بابا کی تھپکی سی محسوس ہوئی........