کمو کون اور نکمو کون

User Rating: 2 / 5

Star ActiveStar ActiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کمو کون اور نکمو کون ؟
تنزیلہ ارشد گکھٹر منڈی
پوتے اورپوتیاں سب برابر ہوتے ہیں مگر ہمیں لگتا تھا کہ صرف کمال بھائی دادی کے سگے پوتے ہیں اور ہم سوتیلے، دنیا کی تمام نعمتیں کمال بھائی کے لیے موجود ہوتیں اور زمانے بھر کی لغزشیں صرف ہمارے نصیب میں۔ کمال بھائی کو پیار سے ”کمو“ کہا جاتا اور ہمیں خیر سے” نکمو“ کے لقب سے یاد کیا جاتا۔
دادی جان کے اس رویے اور تعصب پر ہم نے بہت غور کیا غور کرتے کرتے ہمارا دماغ چکرا گیا مگر یہ بات ہماری سمجھ میں نہ آئی کہ ان کو کمال بھائی سے اس قدر محبت اور ہم سے اس قدر خفگی کیوںہے؟ ہمارے پیدا ہونے سے پہلے ہی دادا جان کا انتقال ہوگیا تھا لہذا یہ الزام تو ہمارے سر نہیں آسکتا پھر آخر دادی جان کو ہم سے شکایت کیا ہے جو کمال بھائی سے نہیں ہے؟
خوب غور کرنے کے بعد یہ ترکیب ہماری سمجھ میں آئی کہ ہمیں دادی جان کے کام بڑھ چڑھ کر کرنے چاہئیں۔ بزرگوں سے سنتے آرہے تھے کہ ’خدمت میں عظمت ہے‘ ایک دن دادی جان نماز پڑھنے کے لیے جیسے ہی اٹھیں ہم نے تیزی سے دوڑ کر وضو کا لوٹا اٹھا لیاکہ وضو کے لیے گرم پانی بھر کر لادیں مگر یہ کیا !ہم ابھی لوٹا لے کر چلے ہی تھے کہ وہ اس بری طرح چیخیں کہ سارا گھر ہل کر رہ گیا ”ارے لڑکے! اے نکمو! دیکھو تو میرا وضو کا لوٹا تک لے اڑا۔ واہ بھئی واہ آنکھ بچی اور مال پرایا ارے وہ تو خیر ہوئی کہ میں نے دیکھ لیا نہیں تو گیا تھا آج میرے وضو کا لوٹا بھی پڑا ہوتا کسی گندی جگہ پر یا کسی گری چھوہارے والے کو دے دیا ہوتا۔“
ہم نے بوکھلا کر کہا ”ارے دادی جان!میں توآپ کے وضو کے لیے گرم پانی لینے جارہاتھا۔“
دادی جان نے غصے میں ایک جھٹکے سے لوٹا چھینتے ہوئے کہا
”اچھا تو ایسے فرماں بردار ہوگئے کہ وضو کا گرم پانی لا رہے تھے۔ تمہارے ہاتھ توڑ دوں گی اگر کبھی میرے لوٹے کو ہاتھ بھی لگایا۔“
دادی جان کے اس سلوک نے ہمارا دل توڑ کر رکھ دیا جی چاہا کہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں مگر پھر خیال آیا کہ لوہے کو موم بنانا آسان کام تو نہیں ابھی تو اس قسم کی بہت سی باتیں ہمیں سننا پڑیں گی۔
اپنے دل کو سمجھا بجھا کر پھر دوڑے ان کے لیے جائے نماز بچھانے کے لیے کہ اب خوش ہوجائیں گی کہ جسے وہ نگوڑا اورنکموکہتی ہیں آخر وہی ان کے کام آرہا ہے مگر یہ کیا؟ جائے نماز اٹھا کر ابھی ہم نماز کی چوکی تک بھی نہ پہنچے تھے کہ ان کی کڑکتی ہوئی آواز ابھری
”ہائے میری جائے نماز....ارے میں کہتی ہوں لڑکے !تیرا آخر کیا مطلب ہے کیوں میری جان کا دشمن ہو رہا ہے بھلا کوئی پوچھے میری چیزوں سے اس کا کیا کام آپڑا ہے کہ اڑائے لیے جارہا ہے۔ ہزار دفعہ منع کیا ہے کہ تو میرے کمرے میں نہ آیا کر مگر میں ذرا سی ہٹی اور نگوڑے نے اپنی کارستانی شروع کر دی“ اس طرح چیختی چلاتیں جب وہ قریب آگئیں توہم نے روہانسے انداز میں کہا ”دادی اماں میںتو آپ کی جائے نماز چوکی پر بچھانے کے لیے جارہا تھا۔“
دادی جان چڑ کر بولیں ”ہاں ہاں اورکیا!کان کھول کر سن اے لڑکے! ٹانگیں توڑ کر چولھے پر چڑھا دوں گی جو آئندہ میری کسی چیز کو چھوا اور ہاں اب یہ بھی سچ سچ بتادوکہ میری دھوپ والی عینک کہاں چھپائی ہے؟“
ایک دن ہم گئے باورچی خانے میں نمک مرچ کی چوری کرنے کہ کل سکول میں املی پر لگا کر مزے مزے لے کر کھائیں گے اسی وقت دادی جان کو باورچی خانے میں آتا دیکھ کر ہم ایک طر ف چپکے سے چھپ گئے۔
دادی جان دبے پاﺅں باورچی خانے میں داخل ہوئیں اور دودھ کا برتن کھول کر ایک پلیٹ میں ساری بالائی اتار لی اور اس پر جلدی جلدی چینی ڈال کر اسی طرح دبے پاﺅں باہر نکل گئیں۔ ہم حیران رہ گئے کہ یا للہ! ہم نے یہ کیا دیکھا ہے؟ دادی جان جیسی نمازی پرہیز گار اور گھر بھر کی بزرگ، بالائی چور ہیں!؟؟ جی میں آیا کہ ابھی گھر بھر کے سامنے ان کا بھانڈا پھوڑ دیں اور ان سے زندگی بھر کا بدلہ لے ڈالیں۔ پھر خیال آیا کہ دیکھیں توسہی کہ آخر دادی جان کرتی کیا ہیں؟ دبے پاﺅں ہم ان کے کمرے کی طرف گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دادی جان کمال بھائی کو اپنے ہاتھوں سے بالائی کھلا رہی ہیں اور وہ بڑے مزے سے بالائی چٹ کر رہے ہیں۔ اچانک ہمیں بدقسمتی سے ایک زوردار چھینک آگئی۔
دادی جان چونکیں اور پلٹ کر دیکھا ہمیں اپنے کمرے کے دروازے سے جھانکتے دیکھ کر انھوں نے آسمان سر پر اٹھا لےا فورا بالائی کی پلیٹ پر دوسری پلیٹ رکھتے ہوئے چیخیں
”کیوں آیا؟ کیوں آیا تو میرے کمرے میں“ تجھے منع کیا تھا ناں میں نے۔ ارے نگوڑے، چور اب عینک کے بعدکیا اورکچھ لے اڑانے کا ارادہ ہے ؟“
عینک کا سن کر کمال بھائی چونکتے ہوئے بولے ”دادی اماں! آپ کی عینک مجھے کبوتروں کے ڈربے پر سے ملی تھی اسے میں نے آپ کے بستر کے نیچے رکھ دیا تھا۔“
”دادی اماں اب تو آپ کو یقین آگیا کہ آپ کی عینک میں نے نہیں چرائی تھی۔“ ہم نے موقعہ غنیمت جا ن کر فوراً کہا
”ارے ہٹ کم بخت سب جانتی ہوں میں۔ یہ تو نے ہی کبوتروں کے ڈربے پر رکھی ہوگی۔“ دراصل وہ خود ہی رکھ کر بھول گئی تھیں مگر ماننے کو تیار نہیں تھیں، ایک ہماری شرافت کو دیکھیں کہ ہم نے ان کی بالائی چوری کی بات کسی کو نہیں بتائی اور خاموش رہے اس طرح چند دن گذرے آخر ایک دن اسکول سے جو آئے تومعلوم ہوا کہ دادی جان کو بہت تیز بخار ہوگیاہے۔
ہم نے سوچا کہ جا کر مزاج پرسی کر آئیں مگر پھر خیال آیا کہ ہم کو دیکھ کر ان کا بخار بڑھ جائے گا اللہ نہ کرے کچھ ایسا ویسا ہو گیا تو ہمیں ہی قصور وار ٹھہرایا جائے گا۔
دوسرے دن ان کی حالت اور زیادہ خراب ہوگئی تو ہم سے نہ رہا گیا اور ایک سچے مسلمان کی طرح خدمت کے لیے ان کے کمرے میں پہنچ گئے باجی اسکول سے نہیں آئی تھیں امی جان باورچی خانے میں تھیںاور دادی جان تخت پرلیٹی ہائے ہائے کر رہی تھیں اور پانی مانگ رہی تھیں ہم نے جلدی سے گلاس بھر کر اپنے ہاتھوں سے انہیں پانی پلایا۔ پانی پی کر بولیں ”جیتا رہے میرا چاند! کمال! کھانا بھی کھایا ہے تو نے یا نہیں ؟“ یہ کہہ کر آنکھیں جو کھولیں تو سامنے ہمیں پایا۔
کہنے لگیں ”اچھا تو تم ہو۔“
ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ خیریت گزری۔ اس کے بعد ہم ان کے پاس سے بالکل نہیں ہٹے دوا کے وقت دوا د یتے رہے ہاتھ پکڑ کر باتھ روم لے جاتے رہے اپنے ہاتھوں سے دوا اور خوراک کھلاتے رہے اور ان کے ہاتھ پاﺅں کو دباتے رہے کمال بھائی تو ادھر کا رخ ہی نہیں کررہے تھے دادی جان کو جب بھی ہوش آتا وہ ہمیں ہی اپنی خدمت میں مصروف پاتیں اب وہ ہمارے سر پر ہاتھ بھی پھیرنے لگی تھیں ڈھیروں دعائیں بھی دیتیں۔
آخر اللہ میاں نے ان کو صحت یا ب کر دیا ان کی صحت یابی کی خوشی میں آج گھر میں تقریب تھی۔ دادی جان پھولوں کے ہاروں میں لدی پھندی تھیں جیسے ہی ہم نظر آئے پاس بلا کر گلے میں پڑے سارے ہار ہمارے گلے میں ڈال دیے اور پیار سے ہماری بلائیں لیتے ہوئے ابو جان سے بولیں
”کھوٹا پیسا اور نکما بیٹا مشکل وقت میں کام آتا ہے، دیکھا میرا نکمو کیسا پیارا کمّو نکلا!!!“
دعائے صحت کی اپیل
ہمارے مربی اور مرشدحضرت شاہ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم ان دنوں شدید علیل ہیں تمام بہنوں اور بھائیوں سے درخواست ہے کہ حضرت والا کی صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ کے لیے خصوصی دعاﺅں کا اہتمام کریں۔