ہماری مائیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ہماری مائیں
بنت بشیر احمد
نام :عائشہ لقب:صدیقہ، حمیرا نسب: صدیق اکبر ؓ کی صاحبزادی ماں کا نام زینب ؓ تھا۔
نکاح : آپ کا نکاح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بچپن میں ہی کر دیا گیا تھا کمسنی کے دن تھے آپ ؓ سہیلیوں کے ساتھ کھیل کود میں مشغول جھولا جھول رہی تھیں کہ آپ کی والدہ نے آواز دی:” یا عائشہ !“آپؓ گھر میں داخل ہوئیں دیکھا کہ انصار کی عورتوں سے گھر بھرا ہوا ہے اور وہ سب آپ ؓکا انتظار کر رہی ہیں۔ آپ کی والدہ نے آپ کا منہ دھویا ،بال وغیرہ درست کیے اس وقت آپ کی عمر تقریباً نو (9)سال تھی۔ یہ اعزاز ازواج مطہرات میں سے صرف سیدہ عائشہ ؓ کوحاصل ہے کہ وہ حضور علیہ الصلوة والسلام کی کنواری بیوی ہیں۔
حالاتِ زندگی : آپ ؓ پہلے بھی برج صداقت میں جلوہ فگن تھیں، لیکن نور علی نور کہ بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا خاوند آپ کو مل گیا۔ نبوت کے علم و حلم، فضل و کمال اور اندرون خانہ زندگی کے وہ گوشے بیان فرمائے کہ آج تک اس عظیم عورت کا کوئی ہم پلہ نہ بن سکا۔ عروہ بن زبیر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے قرآن ، فرائض ، حلت و حرمت ، فقہ ، شاعری ، طب ، تاریخ عرب اور علم انساب کا حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر کسی کو عالم نہیں دیکھا۔آپ ؓ درجہ اجتہاد پر فائز تھیں اور سیدنا صدیق اکبر، حضرت عمراور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانہ ہائے خلافت میں فتویٰ دیا کرتی تھیں۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کا بیان ہے کہ ” ہم کو کبھی ایسی مشکل بات پیش نہیں آئی جس کو ہم نے سیدہ عائشہؓ سے پوچھا ہو اور حضرت عائشہ ؓ کے پاس اس کے متعلق کچھ معلومات نہ ہوں۔ “
آپ ؓ فصیح و بلیغ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قادر الکلام خطیبہ بھی تھیں ادب سے آپ کو بہت لگاﺅ تھا آپ کی زندگی میں قناعت پسندی ، خود داری اور دلیری کا جوہر نمایاں تھا۔
جودوسخا کا عالم یہ تھا کہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ ؓ نے آپؓ کی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے تو شام ہوتے ہی سارے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیے۔ عبد اللہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ” میں نے ان سے زیادہ کسی کو سخی نہیں دیکھا۔“
ہر انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے جو اس کو ساری زندگی یاد رہتا ہے حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ بھی اس طرح کا واقعہ پیش آیا۔ وہ اس طرح کہ ایک دن__ غالباً غزوہ مصطلق میں حضرت عائشہ، آپ علیہ السلام کی ہمسفر تھیںغزوہ سے واپسی پر آپ کا ہار گم ہوگیا پورے قافلے کو روک دیا گیا کہ پہلے ام المومنین کا ہار تلاش کیا جائے اتفاق سے یہ ایسی بیاباں جگہ تھی جہاں پانی نہیں تھا۔ صحابہ کرام ہار تلاش کر رہے تھے نماز کا وقت قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ بعض صحابہ نے آکر عرض کیا کہ پانی بھی موجود نہیں اور نماز کا وقت بھی ختم ہونے کو ہے ؟کیا کیا جائے آپ ﷺ خاموش رہے اسی وقت جبرائیل امین تیمم کا حکم لے کر نازل ہوئے اس پر حضرت اسیدبن حضیر ؓ نے عرض کیا:” اے ابو بکر کی آل! تم لوگوں کے لیے سرمایہ برکت ہو۔“
صداقت کے گھرانے سے ویر اور بغض رکھنے والے منافقین نے حضرت عائشہ پر(نعوذ باللہ)ایسے کام(بدکاری)کی تہمت لگائی جس کا حضرت عائشہ ؓکے حاشیہ خیال میں بھی گزرنہ ہواتھارسول اللہ ﷺ کی حرم محترم پر ہرزہ سرائی ،بدگوئیاں اورافواہیں جب زیادہ پھیلی تو بعض مسلمان بھی اس سے متاثر ہوئے اور یہ ایک فطرتی بات ہے کہ انسان پروپیگنڈا سے متاثر ہوجاتاہے۔ ہرطرف عجیب گھٹن سی تھی جس نے سارے صحابہ اور مسلمانوں کے دلوں کو غم واندوہ سے لبریز کررکھا تھا۔ معاملہ سمجھ سے باہر تھا۔ آقا کی مبارک پیشانی پر پسینہ کے قطرے ،تھال میں دمکتے موتیوں کا منظر پیش کررہے تھے۔ اوپر سے تقدیر کھڑی مسکرا رہی تھی جو چند لمحوں میں منافقین کی سازش کو قیامت تک کے لیے طشت ازبام کرنے والی تھی۔
.... سیدہ عائشہ ؓ نے آپ ﷺ سے اپنے میکے جانے کی اجازت چاہی تاکہ وہاں جاکر کچھ اپنا درددل کہہ سکیںآپ ﷺ نے بخوشی اجازت دے دی سیدہ، کاشانہ نبوت سے کاشانہ صداقت کی طرف گامزن ہوئی.... لیکن جب میکے آئیں تووہاں بھی وہی حالت۔خدایا کیا ماجراہے ؟؟ ”بدلا ہوارنگ سارے چمن کا تھا “
اس کیفیت کا اندازہ دشوار ہے جب محمد ﷺ جیسے شوہر کی آنکھیں بھی غمناک ہوں اور ابوبکرؓ جیسے والد بھی دلاسہ نہ دے رہے ہوںاس مشکل وقت میں ایک عورت زادکس پر اپنی امیدیں باندھ سکتی ہے؟
مختصر یہ کہ اللہ رب العزت نے حضرت عائشہ کی صفائی دی اورفرمایا کہ یہ اس کام سے بری ہیں جس کام کی تہمت منافقین لگارہے ہیں قیامت تک خداکی یہ شہادت نہ صرف یہ کہ موجود ہے بلکہ” اِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّکرَوَاِنَّالَہ لَحَافِظُونَ “کی وجہ سے محفوظ بھی ہے خدا تعالی نے ایسے ہر بدباطن کا جواب پہلے سے دے دیا جو اس پاکدامن خاتون پر کسی قسم کی تہمت لگاتاہے
افسوس کا مقام : آج جس کے قلم کو اُبکائی آتی ہے وہی مصنف بننے کا شوق چرائے یہاں آدھمکتا ہے۔ حال ہی میں میری نظر سے ایک کتاب گزری ہے جس کا نام” صدیقہ کائنات “ہے جس کا مولف مجھے اہل حق کا نمائندہ ہونے کے بجائے کسی” اورکھیت “کی پیداوار معلوم ہوتاہے صدیقہ کائنات کے فضائل لکھتے ہوئے کیااس نے کیا گل فشانی کی ہے، ملاحظہ ہو!!
”آپ (حضرت علیؓ)کوامت نے اپنا” خلیفہ منتخب نہیں کیاتھا“آپ” دنیائے سبائیت کے منتخب خلیفہ “تھے اسی لیے آپ کی ”خود ساختہ خلافت“ کا چار پانچ سالہ دورامت کے لیے ”عذاب خداوندی تھا“(صدیقہ کائنات؛ص 237مولف حکیم فیض عالم صدیقی
پیاری بہنو !مجھے عداوت بھری اس عبارت سے تعصب کے بدبودارجھونکے ابھی بھی آرہے ہیں۔ افسوس !آج امت کی ان برگزیدہ شخصیات کونشانہ تنقید بنایاجارہا ہے جنہوں نے اسلام کو اپنے خون سے سینچاتھا؟
خیر ! حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے بہت فضائل ومناقب ہیں جن کو لکھنا مجھ جیسی کے بس کا روگ نہیں آپ ؓکی زندگی ہمارے لیے دستور حیات ہے۔
مرویات: آپ ؓ نے تقریبا 2210احادیث روایت کی ہیں۔
وفات: آپ کی عمر 58برس کی تھی جنازہ حضرت ابوہریرة ؓ نے پڑھایا۔
مکتب کی زندگی اپنی تیسری بہاردیکھ رہی تھی جب ہم نسل انسانی کا صدہزار بارنسخہ آزمودہ(قرآن کریم)اپنے سامنے رکھے استاد محترم کے انتظارمیں دوزانو بیٹھے تھے۔
” الٓمo اَحَسِبَ النَّاسُ اَن یُترَکُوا اَن یَقُولُوا اٰمَنَّا وَھُم لاَیُفتَنُون۔،،
استاد صاحب کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔
لوگوں نے کیا سوچ رکھا ہے کہ ہم صرف اتنی سی بات کہنے پرچھوٹ جائیں گے کہ ہم مومن ہیں اوران کو آزمایا نہیں جائے گا؟
ایمان لانے کے بعدآزمائش کا مرحلہ خدائے حکیم کی حکمت کا مظہر ہے تاکہ لوگوں پر واضح ہوجائے کہ کون دل سے ایمان لایااور کون ہے جوزبانی جمع خرچ پرگزارا چلارہاہے دوسرے مقام پر اسی بات کو ایک اورپیرائے میں بیان فرمایاگیا:
”وَلَنَبلُوَنَّکُم بِشَیٍ مِّنَ الخَوفِ وَالجُوعِ وَنَقصٍ مِّنَ الاَموَالِ وَالاَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ،،
ہم تمہیں ضرورآزمائیں گے خوف ، بھوک، اموال اورپھلوں وغیرہ میں کمی دے کر۔
معاشرہ پر نظر کی جائے تم ہمارے سامنے دوطرح کے انسان آتے ہیں نیک اوربد۔ نیک لوگوں کے لیے توحکم بالا:”وَلَنَبلُوَنَّکُمبِشَیٍ....ہے اوردوسرے قسم کے انسان کے لیے
”ظَہَرَ الفَسَادُ فِی البَرِّوَالبَحرِ بِمَا کَسَبَت اَیدِی النَّاسِ ،،
بحروبرمیں جوفسادرونماہورہا ہے یہ انہی کے کرتوتوں کانتیجہ ہے۔
اس بات کو آج کے تناظر میں دیکھتے ہیں دنیا میں کتنے فیصد لوگ نیک اور کتنے بد ہیں آپ کسی بھی شعبے میں جاکر دیکھیں کتنے پابندشرع ہیں؟اورکتنے مخالف شرع؟سابقہ اقوام کی تباہی وبربادی کی جن وجوھات کی قرآن کریم نے نشاندہی کی ہے کفروشرک کے علاوہ رشوت ، چوربازاری ،غنڈہ گردی، بدکاری وبے حجابی ہے۔اللہ تعالی نے انسا ن کو سمجھایاہے کہ اگر تم میری نافرمانی سے باز نہ آئے تو ....ذلیل ورسواہوجاﺅگے،چہروں کو مسخ کرابیٹھوں گے ،گھروں میں بے چینیاں اوربے قراریاں تمہارامقدرہوں گی ،گناہ کرتے رہوگے تو”لَہمُعَقِّبٰتµ مِّنبَینِ یَدَیہِ وَمِنخَلفِہِ یَحفَظُونَہمِناَمرِاللّٰہِ۔“ جیسے محافظ تم سے چھین لیے جائیں گے اورتم خفیہ طاقتوں سے بھی ہاتھ دھوبیٹھوگے ،برے کاموں سے بازنہ آئے توناکامیوں کی دلدل تمہیں اپنے اندر لے لے گی،گناہ کرنے پرتم مصررہے تو جیسے بدکار اقوام مکافات عمل کی چکیوں میں پستے رہے تم بھی پس جاﺅ گے۔بلکہ قرآن حکیم تو ان کے ان خیالات کوبھی آشکارکیاہے جن کو وہ سینوں میں چھپائے پھرتے تھے
”اَم حَسِبَ الَّذِینَ یَعمَلُونَ السِّیِّاَتِ اَن یَّسبِقُونَا سَآئَ مَایَحکُمُونَ ،،
ان بدکاروں کا کیا خیال ہے کہ وہ ہم سے بچ نکلیں گے ؟یہ ان کاغلط فیصلہ ہے۔
ایک اصول ہے کہ” تسلیم ورضامیں حسن اورخوبصورتی ہے اوربغاوت میں فساداورشرہے۔“
کائنات کے نظام پرآپ ایک نظر دوڑائیے!!! آپ کو اِنس وجن کے علاوہ ہرشے سرتاپا پیکر تسلیم نظر آئے گی، ہزارہا آفتاب وماہتاب باقاعدگی سے آج بھی ان راہوں پر رواں دواںہیں جو ان کے خالق نے ان کے لیے تجویز کیے تھے ،گل وصنوبرکے قافلے معین اوقات پرآجارہے ہیں ،پانی ابتداءسے نشیبی راستے کامسافرہے، کوہساروں میں وہی صلابت اور پختگی ہے، سمندروں کی موجیں اٹھ اٹھ کربیٹھ جاتی ہے۔آپ ذراسوچیں !!!اگر سیارے ایک لمحے کے لیے بھی جادہ تسلیم کوچھوڑ کردوسری طرف جائیں توفضاﺅں میں آگ کے شرارے بھٹرک اٹھیں اوریہ کائنات جل کر بھسم ہوجائے۔
ہمیں آج اس میں اختیار ہے کہ خدا کے مجوزہ اورپسندیدہ راہوں پرچل کرکامیاب ہوں یااسے چھوڑکرقافلہ شیاطین کے ہم قدم بن جائیںپھر اس کے بعد ذلت ،افلاس ،رسوائی، غم بے چینی، ملائکہ کی حفاظت سے محرومی اوربالآخر جہنم اوراگرہم نے آج یہ فیصلہ کرلیاکہ ہمیں اطمینانِ قلب، صحت ،فراخی رزق، معاشرہ میں حقیقی عزت ،ہراقدام پر کامیابی اوربالآخر جنت حاصل کرنی ہے تومیری بہنو!اس کا صرف اورصرف ایک ہی حل ہے کہ ہم حضورﷺ کادامن تھام لیں۔