بوڑھا حکیم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بوڑھا حکیم
ام ارسلان ؛فاروق آباد
ابوابو!داداجان پہلے حکیم تھے ؟رافع اوررافعہ بھاگتے ہوئے پہنچے کہ کون پہلے ابو سے پوچھتاہے ؟ ہاںبیٹا! تمہارے داداحکیم تھے مگر تمہیں اس سے کیا؟مسکراتے ہوئے اپنے دونوں بچوں کی طرف دیکھا۔
میرا دوست ہے ناصائم۔ جی! ابونے اثبات میں سر ہلا کر۔ اس کے ابو پوچھ رہے تھے رافع نے کہا ہمیں تومعلوم نہیں تھا ہم نے کہہ دیا کہ نہیں ہمارے ابو تو حکیم نہیں تھے رافعہ بھی بتانے کا موقع ڈھونڈ رہی تھی۔تھوڑی دیر رک کربولی :”ابویہ توجھوٹ ہوگیانا؟“ نہیں! بے وقوف ہمیں پتاہی کہاں تھا؟اگر پتاہوتاتو تب جھوٹ ہوتایہ.... ابو کی بجائے رافع جھٹ بول پڑی پھر فورا ہی اپنا سوال داغ دیا؛ابو!دادا ابو حکیم کیوں نہیں ہیں؟ ”یہ بات آپ جاکر داداسے پوچھ لیں۔ بچوں نے داداکے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔
ٹک ٹک ٹک .... اندرسے دادے نے بولاتودونوں اندرداخل ہوئے ،داداپلنگ پرنیم درازکوئی کتاب پڑھنے میں مشغول تھے اپنے دونوں پیارے پیارے پوتاپوتی کوآتے دیکھا توکتاب بند کرکے میز پر رکھ دی تاکہ غورسے ان کی بات سن سکیں۔داداجان! آپ پہلے حکیم تھے نا؟ رافعہ نے پوچھا”ہونہہ !دادانے پیار سے سر ہلایا۔
تواب آپ حکیم کیوں نہیں ہیں؟رافع نے کہا۔ اچھاتم دونوں یہ جاننا چاہتے ہو کہ میں نے حکمت کیوں چھوڑی؟ جی ہاں داداجان! دونوں ایک ساتھ بولے اچھا پھر سنو! ابھی انہوں نے کہنا شروع کیاہی تھا کہ ان کے ابو اورامی بھی کمرے میںداخل ہوتے نظر آئے کیونکہ وہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ ان کے ابو نے حکمت کیوں چھوڑدی تھی؟ وہ دونوں کرسیوں پربیٹھ گئے تو داداکہنے لگے ”بات دراصل یہ ہے کہ جب میں حکیم تھا تولوگ دوردور سے میرے پاس علاج کے لیے آتے تھے اللہ نے میرے ہاتھ میں شفاءرکھی تھی لوگ پہلی دوسری خوراک میں ہی صحت یاب ہوجاتے لہذامیری سارے شہر میں دھوم تھی ایسے لوگ بھی میرے پاس آتے تھے جنہیں ڈاکٹر جواب دے دیتے تھے وہ میرے پاس سے صحت یاب ہوکر جاتے لوگ مجھے اتنا جاننے لگے کہ دوسرے شہروں سے بھی آتے اورتندرست ہوکر جاتے۔
پھر یہ ہواکہ ایک صاحب مجھ سے علاج کروانے لگے میں نے اس شخص پر اپنی حکمت آزماڈالی مگر وہ ٹھیک نہ ہوئے اس شخص کی وجہ سے میں نے کئی نسخے بھی بنا ڈالے وہ دوسروں پرآزمائے وہ ٹھیک ہوگئے مگر وہ آدمی ٹھیک نہ ہوامیں نے اپنے شاگردوں کے ذریعے کہلوایا بھائی ! جب اس حکیم سے تم تندرست نہیں ہورہے کہیں اورسے جاکر علاج کروالو تو جانتے ہوکیا کہنے لگا اس نے کہا میرا اصول ہے کہ جب ایک حکیم یاڈاکٹر سے علاج کرواتا ہوں تو پھر ساری عمراسی سے علاج کرواتارہتاہوںپھرمیں نے کئی نئے نئے نسخے ایجاد کرڈالے مگر وہ آدمی کمزورہوتاگیاآخرکاریہ تنگ آگیا کہ ایک آدمی اتنی مدت سے میرے پاس آرہا ہے اورمیں اس کا علاج نہیں کرپارہاہوں میں نے سوچا اس آدمی کی وجہ سے میری شہرت اورعزت ماند ہورہی ہے لہذا میں نے اسے زہر دینے کافیصلہ کرلیاکیونکہ میںکافی تنگ آگیاتھا میںنے سوچا جب یہ مرجائے گا تو لوگ اسے بھول بھال جائیں گے اورمیری حکمت چلتی رہے گی۔
ایک دن__ میں نے ایک پیالہ زہر کا تیارکیااورکہایہ تمہارے لیے شفا کاپیغام ہے اس نے کمزور ہاتھوں سے پکڑ کروہ پی لیا۔وہ کافی دن نہ آیاتو میںنے خیال کیاکہ وہ مرگیاہے لیکن وہ اگلے دن آگیامیں نے حیرت سے دیکھا وہ بالکل صحت مند تھا۔ حکیم صاحب !وہ بولا۔ آپ نے جوآخری دوادی مجھے بہت فائدہ ہواایک اورخوراک دے دیں وہ بھی اسی دوا کی۔ میں نے کہا تمہاراعلاج مکمل ہوگیا بس !یہاں سے چلے جاﺅ !اس واقعے کے بعد میںنے سوچا اگر یہ آدمی مرجاتاتواس کا خون میرے اعمالوں میں لکھاجاتا۔ بے شک اس کے بعد میری حکمت اورشہرت میں اضافہ ہوجاتا مگر آخرت توتباہ ہوجاتی نا ؟لہذا میں نے اللہ سے گڑ گڑاکرمعافی مانگی اورحکمت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیاکیونکہ اسی کی وجہ سے میں ایک شخص کا قاتل بننے والا تھا میںنے سوچا مجھے اپنی آخرت سنوارنی ہے۔
”زندگی نہیں“