ایس ایم ایس

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ایس ایم ایس
محمد ولی رازی
مو بائل فون اپنی ذات میں ایک بہت ہی بڑی سہولت اور نعمت ہے دو تین انچ کی ایک چھوٹی سی دنیا میں مختلف مشینوں کا مجموعہ آپ کی جیب میں پڑا ہواہے پہلے یہ سب مشینیں الگ الگ بڑے بڑے سائز میں اور بہت مہنگی ملا کرتی تھیں۔ اس ڈھائی انچ کے ٹکڑے میں کیا ہے ؟ اس کا مختصر ساجائزہ لیجیے؟
۱:سب سے پہلے تو یہ فون ہے صرف ایک ٹیلی فون حاصل کرنے کے لیے کسی زمانے میں دس دس سال دفتروں کے چکر لگانے پڑتے تھے۔
۲:یہ فون کاڑد لیس ہے اس میں تاروں کا کوئی جھنجھٹ نہیں ہے۔
۳:یہ فون LCDہے کہ فون کرنے والے کا نمبر اور نام اسکرین پر آجاتاہے LCDفون الگ سے آیاکرتے تھے۔
۴:یہ ایک مکمل ریڈیوبھی ہے یہ بہت مہنگے ملتے تھے۔
۵:یہ مکمل ریڈیو بھی ہے آپ پہلے الگ سے ریڈیو اور ٹرانزسٹر خریدتے تھے اب آپ کی جیب میں ہے۔
۶:اب اس کے ساتھ زوم لینس،ٹیلی لینس اوروائیر اینگل لینس الگ نہایت بھاری قیمت پر ملتے تھے۔اب یہ سب آپ کی مٹھی میں ہیں۔
۷:یہ ایک اعلی درجے کا ویڈیوکیمرہ بھی ہے جو پہلے الگ سے بھاری قیمت پرملتا تھا۔اس سے آپ اپنی گھریلو تقریبات کی ویڈیوبناسکتے ہیں۔
۸:یہ مکمل وی سی پی اور وی سی آر بھی ہے اس پرآپ اپنی پسندیدہ ویڈیودیکھ سکتے ہیں۔
۹:یہ ایک مکمل ڈیجیٹل آرگنائزبھی ہے اس میں آپ اپنی یاداشتیں اپنے دوستوں سے کیے ہوئے ملنے کے وعدے ، میٹنگ وغیرہ کی تاریخ اوراوقات محفوظ کرسکتے ہیں۔
۰۱:یہ ایک ایسا الارم بھی ہے جس میں آپ ایک دن میں مختلف اوقات کے لیے کئی الارم سیٹ کرسکتے ہیں یہ مقررہ وقت پر خودبخود آن ہوتاہے اورمجھے جگا کرخود سوجاتاہے۔
۱۱:اس میں مکمل میڈیا پلیئر بھی ہے جس پرموسیقی اورگانوں کے دلدادہ اپنا شوق پوراکرسکتے ہیں۔
۲۱:اس میں ایک انوکھی مشین ایسی ہے جو پہلے صرف ڈاک خانوں میں ہواکرتی تھی عام آدمی کومیسر نہیں تھی۔ وہ پہلے ٹیلی گراف مشین جس سے پہلے ڈاک کے ذریعے تاریعنی ٹیلی گرام بھیجے جاسکتے تھے اب ہرشخض دنیامیں کسی شخص کوبھی کسی مقام پر بھی ٹیلی گرام بھیج کردوتین سیکنڈ میں جواب حاصل کرسکتاہے اورمیری آج کی اس تحریر کااصل مقصد اسی کے استعمال پر کچھ عرض کرنا ہے اس ٹیلی گرام کانیا نام” ایس ایم ایس“ ہے(یعنی شارٹ میسج سروس
ذراسوچیے اگر آپ تیس چالیس سال یہ تمام مشنیں اپنے کمرے میں جمع کرتے توکتنی رقم خرچ ہوتی اورآپ کے کمرے میںکتنی جگہ بچتی؟آج یہ ساری مشینیں آپ کی جیب میں سگریٹ کے پیکٹ سے بھی کم جگہ پرموجود ہیں اس اعتبار سے دیکھیے تو یہ ڈھائی تین انچ کا ٹکڑا بے شمار سہولتوں کاخوبصورت پیکج ہے اور بڑی نعمت ہے بشرطیکہ اس نعمت کو نعمت سمجھ کر ہی صحیح مقاصد کے لیے استعمال میں لایاجائے۔
ایس ایم ایس کی اچھائیاں:
موبائل فون کی کمپنیوں نے آج کل اپنے کاروباری مقاصد کے لیے SMSکے مختلف پیکج نکالے ہوئے ہیں ان میں سے معمولی سی رقم کے عوض سو سے لے کر ایک ہزار پیغامات بغیرکسی اور معاوضے کے بھیجے جاسکتے ہیں اس سہولت کی وجہ سے نوجوان نسل میں خصوصاً” ایس ایم ایس “ایک وبا کی صورت اختیار کرگئی ہے جس کودیکھووہ ”ایس ایم ایس“بھیج رہاہے اوروصول کررہاہے اور اس میں اس حد تک انہماک بڑھ گیاہے کہ نہ نمازوں کے اوقات کی پروانہ کھانے پینے کی۔طلبہ کے امتحانات ہورہے ہیں اوروہ امتحان کے لیے تیاری میں اتنا وقت صرف نہیں کرتے جتنا SMSٹائپ کرنے اوروصول کرنے میںلگادیتے ہیں۔ اب یہ وبا صرف بچوں تک محدود نہیں ہے بڑے بھی اس سہولت سے اپنے مزاج کے مطابق فائدہ اٹھارہے ہیں۔
یہ پیغامات مختلف قسم کے ہیں جوسیاسی، معاشرتی، لطیفہ گوئی ،مذہبی اورفحاشی وعریانی پرمشتمل ہوتے ہیں بعض اقوال بڑے حکیمانہ،دانش مندانہ اورخوبصورت ہوتے ہیں ابھی کسی نے مجھے ایک پیغام بھیجا،اپنے رب کویہ مت بتاﺅکہ تمہاری پریشانی کتنی بڑی ہے اپنی پریشانی کویہ بتاﺅ کہ تمہارارب کتنا بڑاہے؟اب یہ مقولہ کتنا حکیمانہ اوراس پر عمل کیا جائے تو آدمی مصیبتوں سے راحت میں آجائے۔
لیکن ہمارالمیہ یہ ہے کہ ہم نیکی بھی کرنا چاہتے ہیں توشیطان بڑی چالاکی سے اس نیکی کوگناہ بنا دیتا ہے مثلاً اگر آپ اسی مقولے سے پہلے لکھ دیں کہ حضرت محمدﷺ نے فرمایا۔تو آنحضرت ﷺ سے یہ جھوٹی نسبت اسی مقولے کو جہنم کی کنجی بنا دے گا حدیث میں آنحضرتﷺ کا یہ فرمان بہت واضح ہے:”جس کسی نے ارادةً مجھ پر (کوئی)جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔،،
آ ج کل SMSجو اس وقت کا سب سے بڑاپیغام رسانی کاذریعہ ہے اس پر لوگ کچھ دینی اوراخلاقی اقوال کہیں سے لے کر اس کی نسبت آنحضورﷺ سے کردیتے ہیں(معاذ اللہ)ہمارے یہاں دینی اور اخلاقی تربیت کے فقدان کی وجہ سے اس سنگین اورعظیم گناہ کااحساس تک نہیںہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی ایسے اقوال کو بے سوچے سمجھے دوسروںکو فارورڈ کردیتے ہیں۔
صحابہ کرام ؓ کسی حدیث کو بیان کرتے وقت لرزہ براندام ہوجایا کرتے تھے بعض حضرات تو دوسرے صحابہ کی طرف ٹال دیاکرتے تھے کہ وہ حدیث بیان کردیں۔اکثر صحابہ کرامؓ کی عادت تھی کہ اگر چہ حدیث کو خودسناہوتا اورحدیث کے الفاظ یادبھی ہوتے تواکثر آخر میں یہ اضافہ کردیتے تھے ”یاجیسا رسول ﷺ نے فرمایا۔“
آج کل لوگSMS کے ذریعے دین کی تبلیغ کےلیے مختلف اقوال کو آنحضرتﷺ سے یا حضرت عمر ؓ اورحضرت علی ؓ دیگر صحابہ کرامؓ سے منسوب کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم دین کی تبلیغ کررہے ہیں ان کی نیت غلط نہیں ہوتی لیکن چونکہ وہ ان نقصانات سے واقف نہیں ہیں اس لیے بے دھڑک یہ گناہ کرتے رہتے ہیں۔
ایک اورطریقہ چل نکلا ہے کہ کوئی بھی مذہبی مقولہ لے کر اس کے آخر میں لکھ دیا جاتا ہے کہ اس پیغام کوجو شخص دس مزید لوگوں کوبھیجے گا اس کے لیے عظیم انعاما ت کا وعدہ کیا جاتاہے اوردعوی کیا جاتا ہے کہ وہ شخص یہ پیغام اتنے لوگوں کونہیں بھیجے گااس پرمصیبت آئے گی اورتباہی وبربادی سے ڈرایا جاتاہے کوئی ان سے پوچھے کہ ان انعامات کاوعدہ اللہ نے کسی سے کیااورکس ذریعے سے کیا اورمصیبت وبربادی یہ وعیدیں اللہ نے کس کے ذریعے دی؟ایسے پیغامات میں بھی یہ رویہ ہونا چاہیے کہ وہ قول اگراچھاہے اورقرآن وسنت کے مزاج سے متصادم نہیں ہے تو صرف قول محفوظ کرلیاجائے اوروعدے اوروعید کو حذ ف کردیاجائے ورنہ ایسے پیغام کومٹادیاجائے۔
بعض لوگوں کا دعوی ہے کہ آج کلSMSپیغام بڑے سے بڑا اخبار یہ دعوی نہیںکرسکتاکہ اس کااخبارSMSسے زیادہ پڑھاجاسکتاہے۔اس لیے چاہیے کہ اس میڈیاکولوگوں کی اخلاقی اوردینی تربیت کے لیے استعمال کیاجائے اورخاص طور پر اس سنگین گناہ سے بچنے کی تلقین کی جائے کہ بغیر تحقیق اوربغیرسند کے کسی قول کواللہ کے رسول ﷺ کی طرف نسبت دینے والا اپنے لیے جہنم میں جگہ بُک کرارہا ہے۔اللہ مسلمانوں کو اس گناہ سے اپنی پناہ میں لے لے۔
اپنی اس تحریر کوSMSسے وصول ہونے والی اس دعا پر ختم کرتاہوں جو میرے ایک عزیز نے کل ہی مجھے بھیجا ہے اور ایک حدیث کا ترجمہ ہے ”یااللہ میں تجھ سے مانگتاہوں ایسی معافی جس کے بعد گناہ نہ ہو،ایسی ہدایت جس کے بعد گمراہی نہ ہو،ایسی رضا جس کے بعد ناراضگی نہ ہو۔ایسی رحمت جس کے بعد عذاب نہ ہو ایسی کامیابی جس کے بعد ناکامی نہ ہو،ایسی عزت جس کے بعد ذلت نہ ہو،،آمین
ا س دعا کو اپنے لیے بھی مانگیں اورپاکستا ن اورمسلمانوں کے لیے بھی۔