عقل

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عقل
ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی
ایک روز مجلس میں عقل پرگفتگوشروع ہوگئی۔شاہ جی نے فرمایاکہ عقل وکردارکے بارے میں یہ قطعہ بھی خوب ہے۔
خرد کی سروری وحکمرانی ہے مستحکم زمیں وآسمان میں
جومفتوح سلیمان خردہے وہی ہے فاتح اعظم جہاں میں
کسی نے حضرت عبداللہ بن مبارک ؓ سے پوچھاتھا کہ انسان کی سب سے بڑی خوبی کیاہے ؟آپ نے فرمایا:”عقل۔“کامل لوگوں نے پوچھااگریہ نہ ہو؟ فرمایا :” حسن ادب۔“ لوگوں نے پوچھااگریہ نہ ہو؟فرمایا:”شفقت ومحبت۔“ لوگوں نے پوچھااگریہ بھی نہ ہو؟فرمایا:” مکمل خاموشی۔“ لوگوں نے پھرپوچھااگریہ بھی نہ ہو تو؟ فرمایا:” پھرتوموت بہترہے۔“انسان کوکمال عقل وحکمت اس وقت حاصل ہوتاہے۔جب وہ تعریف سے خوش اورمذمت پر غمگین نہ ہو۔
ملک صاحب نے کہا کسی کاقول ہے کہ خداکی بہترین تخلیق انسان ہے، انسان کی بہترین چیز عقل ہے اورعقل کی بہترین چیز یہ ہے کہ وہ انسان کوعدل وتوازن یعنی صراط مستقیم پر قائم رکھے عقل کامنصب مابعد الطبیعات اورطبیعات میں یہ ہے کہ نظام عالم پرغورکرے اوراسے تسخیرکرے،اخلاقیات میں یہ ہے کہ خواہشات میں نظم وضبط پیدا کرے اورسیاست میں یہ ہے کہ عدل ومساوات پرمعاشرے کی تنظیم کرے۔
عقل کے بغیرجذبہ اندھاہے اورجذبہ کے بغیر عقل مردہ ہے ان دونوں کے توازن ہی سے ایک متوازن زندگی عبارت ہے عقل کی کارفرمائی نفس کی رہنمائی میں ہوگی تومعاشرہ کی بربادی یقینی ہے اوراگرعقل کی کارفرمائی دین یاایمان یاوحی یانفس زکیہ یا انسانیت کے جذبے کی رہبری میں ہوگی تو معاشرہ میں امن وسلامتی اورخیروصلاح کادرودورہ ہوگا۔ایک اچھا اورسچا معاشرہ وہ ہے جس میں انسانی عقل ایمان وحیاکی اقدار کی روشنی میں کارفرماہو،یہی ایمان باللہ کا مقصود ہے، یہی ایک مہذب اورباحیاءمعاشرے کی علامت ہے مناقب العارفین میں ہے کہ ایک دن حضرت مولانارومؒ نے وعظ میںفرمایاکہ جب اللہ نے آدم کے جسم پاک کو مٹی سے پیدا کیا اورروح پاک کواس میں پھونکا توجبرئیل امین کو حکم دیا کہ قدرت حق کے سمندر سے تین سب سے بہترین موتی لو اورایک طشت میں رکھ کر آدم صفی اللہ کو پیش کرو اوران سے کہو کہ ان میں سے صرف ایک لے لویہ تین موتی عقل،ایمان،حیا تھے۔
جب یہ تینوں گوہر حضرت آدم کوپیش کیے گئے توآپ نے گوہر عقل لے لیا۔جبرئیل نے چاہاکہ باقی جو دوگوہرہیں ان کوواپس قدرت الہی کے سمندرمیں لے جائے لیکن! باوجود اپنی زبردست طاقت وقوت کے وہ ایسا نہ کرسکے ایمان وحیاکے گوہروں نے یہ کہا کہ عقل جومحبوب خدا ہے ہم اس کا ساتھ نہیں چھوڑسکتے۔اس کے وجود کے بغیر ہماراکوئی وجودنہیں۔
اللہ میاں نے جرئیل کوحکم دیا کہ ان کواسی طرح چھوڑواورتم آجاﺅ۔حضرت جبرئیل کے جانے کے بعد عقل انسان کے دماغ میں ایمان نے انسان کے دل میں اورحیانے انسان کے چہرہ مبارک میں اپنا گھر بنا لیایہ تینوں موتی آدم علیہ السلام کی میراث خاص ہیں۔جوانسان ان موتیوں سے آراستہ نہیں ہے،وہ انسان نہیں۔
شیخ صاحب نے کہا :”قرآن کے حوالے سے عقل وایمان اوروحی تینوں کی اہمیت مسلم ہے جو قومیں صرف عقل پر عمل کرتی ہیں ایمان اوروحی کی رہنمائی نہیں رکھتیں وہ دنیاوی سازوسامان اورجاہ وجلال تو حاصل کرسکتی ہیں لیکن روحانی اوراعلی اخلاقی اقدار سے بے بہری رہتی ہیں کیونکہ وہ دولت ایمان او رربانی رہنمائی سے محروم ہوتی ہیں مغربی تہذیب اس کی مثال ہے،جوقومیں ایمان ووحی رکھتی ہیں لیکن دنیاوی معاملات میں عقل سے کام نہیں لیتیں وہ زندہ تورہ سکتی ہیں ایمان واخلاق حسنہ کی وجہ سے لیکن دنیاوی ترقی سے محروم ہوں گے اورجوقومیں صرف وحی رکھتی ہیں نہ ان کے پاس ایمان کامل ہے اورنہ عقل سلیم،وہ منزل سے محروم انتشاروبدبختی کاشکارہوتی ہیں۔ جیسا کہ آج کل مسلم ملت کا حال ہے ملت اسلام وحی یعنی قرآن کی توحامل ہے لیکن نہ ایمان کامل رکھتی ہیں اورنہ عقل سلیم سے کام لیتی ہیں۔ اس لیے عددی کثرت اوربے حددنیاوی وسائل کے باوجود خواری، زبوں حالی کاشکارہے قرآن میں جسے حکمت کہاگیاہے اورجوخیرکثیر ہے دراصل وہ عقل ہے جوجذبہ ایمان سے تقویت یافتہ ہے اوروحی کی بصیرت سے بہرہ ور ہے،یہی عقل کلیت بین بھی ہے یہ وہ عقل ہے جس کے بارے میں رسول برحق ﷺکافرمان ہے:” مسلمان کی فراست سے ڈروکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتاہے۔“ وہ عقل جووحی کی روشنی سے محروم ہے اگر ایک فرداستعمال کرے گاتووہ مکر وفریب اورخودغرضی کی صورت اختیارکرجائے گی ، اگر ایک قوم استعمال کرے گی تووہ قوم تعصب،تنگ نظری اورظلم وتعدی کی تاریکیوں میںڈوب جائے گی اوریہ عقل اگر خداکے بارے میں غورکرے گی توسوائے ذہنی الجھن اورکفرکے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
شاہ جی نے فرمایا:” اسلام فکر میں اخلاص اوآفاقیت کا علمبردارہے، فکر دین اورفکر دنیا دونوں ہی لازمی ہیں کہ اسلام میں دین کے ساتھ دنیا کی بھی اہمیت ہے اگرصرف فکر آخرت ہوگی تودنیاکے مسائل کیسے حل ہوں گے؟ اوراگر صرف فکر دنیا ہوگی توآخرت کے معاملات کیسے سدھریں گے؟ سودونوں کے امتزاج ہی سے زندگی کے مسائل صحیح معنوں میں سدھر سکتے ہیں۔ پھر دنیا کے مسائل کو دنیا یا فطرت کے قوانین کے مطابق ہی سدھارا جاسکتا ہے جنہیں سنت الہی یا قوانین قدرت کہنا چاہیے کھیت کی پیداوار ہو یا فیکٹری کی پیداوار معاشیات اور سائنس کے جدید اصولوں یعنی قوانین قدرت پر کاربند ہوئے بغیر کیسے بڑھائی جاسکتی ہے؟محض دم،درود یا تعویذ گنڈوں سے یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
انسا ن کی تخلیق اس کی زبان اوررنگ کے فرق، بادل کے برسنے غرض تمام مظاہر فطرت میں اہل علم ونظر کے لیے نشانیاں ہیں البتہ تمام سائنسی طریقے اوردوسرے دنیاوی وسائل اختیارکرنے میں بنی نوع انسان کا مفاد بالعموم اورملت اسلامیہ کا مفاد بالخصوص مدنظر رہے یہی غایت اسلام ہے یہی اسلامی فکرہے یہی قوانین قرآن پرعمل کرنا ہے یہی عقل کادرست استعمال ہے اسے ہی حکمت کہا جاسکتاہے جوخیرکثیرہے۔
ملک صاحب نے کہا کہ دانایان دھر کہتے ہیں کہ صاحب دانش اورصاحب حکمت میں بھی ایک فرق ہے کہ دانشوردانش ہی کو سب کچھ سمجھتاہے اورصاحب حکمت جانتا ہے عقل ودانش کی اپنی حدود ہیں صاحب دانش مشکلات ومصائب میں پھنس جائے توسعی وتدبیر سے ان مشکلات ومصائب سے نکل آتاہے۔
لیکن صاحب حکمت کوشش کرتاہے کہ مشکل یا مصیبت میں نہ پھنسے اس کے علاوہ دانشور،دانشور میں بھی فرق ہوتا ہے مثلاًآلام زمانہ اور گردش دوراںکی شکایت ایک عام دانشوریا دانشمند کرتاہے تواس میں تلخی ہوتی ہے اوراگروہ دانشودردیدہ ورہوتو اس کی شکایت میں شگفتہ پن یا ظرافت کا رنگ ہوتاہے اور یوں اس ظرافت سے وہ تلخی دوراںکوگوارابنانے کی کوشش کرتاہے اوراگروہ دانشوردیندارہویعنی صوفی ہوتووہ شکایت نہیں کرتابلکہ شکرکرتاہے۔اورآلام ومصائب کو قربت حق کاسبب سمجھتا ہے گویا دانشمند آشنائے دھرہوتاہے،دانشورآشنائے خویش ہوتاہے اوسرصوفی آشنائے حق ہوتاہے یایوں کہہ لیجیے کہ دانشمند دانش کواپنی ذات کے لیے استعمال کرتاہے دانشوردانش کوبنی نوع انسان کے لیے اورصوفی دانش کوقربت حق کے لیے استمال کرتاہے۔“
ملک صاحب نے کہا:” دانشمند اوردانشور میں ایک اوربھی فرق ہے دانشمند اپنی عقل کے ذریعہ سے مسائل کا وقتی حل پیش کرتاہے اوردانشور مسائل کے تمام پہلوﺅں پرغوروفکرکرنے،ان کو سمجھنے کے بعد ان کا مستقل حل تلاش کرتاہے اورفکر کرنا فکر رکھنا اورفکرپالنامختلف پہلو رکھتے ہیںمسائل حیات پر فکر کرنا دانائی کا کام ہے،آخرت کی فکر رکھنا عبادت ہے اوردنیا کے فکر پالنا حماقت ہے۔“
شیخ صاحب نے کہا:” انسانی زندگی کے عین پہلو میں ایک آخرت کا جوخالص مذہبی ہے اورعقائد وارکان دینی پر مبنی ہے یہ وحی اورمذہب یعنی قوانین قرآن سے متعلق ہے یہاں عقل کے پَرجلتے ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ عقل والے کے سواکوئی اور اس کا اہل بھی نہیں۔صاحب عقل ودانش ہی قرآنی احکام کی حکمت کو سمجھتا ہے بزرگان دین کااس پر اتفاق ہے کہ عقل والے کے سواکوئی اورخدا کونہیں پہچان سکتا۔“
دوسرپہلودنیاکاہے یعنی صنعت وزراعت کے عمومی مسائل اورتسخیر کائنات جوخالص سائنسی علمی یا عقلی ہے؛اس کاتعلق اگرمذہب سے ہوتا تو غیر مذہبی لوگ دنیا میں کوئی ترقی نہ کرپاتے جوقومیں قوانین قدرت پر عمل کریں گی خواہ وہ کافرہوں، دنیاکی خوشحالی سے بہرہ ورہوں گی کہ یہ سنت الہی ہے یاقوانین قدرت پر عمل کرنے کا نام ہے۔ قوانین قدرت اورقوانین قرآن میں یہ فرق ہے کہ زندگی کے مادی پہلوقوانین قدرت یا سنت الہی کے تابع ہیں اورزندگی کے روحانی اوراخلاقی پہلو قوانین قرآن یاسنت رسول ﷺ کے تابع ہیں قوانین قدرت اورقوانین قرآن میں لطیف فر ق ہے اور ان دونوں پرعمل کرنے ہی سے سعادت دارین وابستہ ہے۔
زندگی کاتیسرا پہلو معاملات سے متعلق ہے یعنی انسانوں کے باہمی حقوق وفرائض کے مسائل یہ پہلو عقل ودین میں مشترک ہے حلال وحرام اورفرائض وحقوق کاشعوردین اسلام نے کامل طور پر پیش کیاہے جوعقل سلیم کے مطابق ہے اسی لیے قرآن پاک نے اکثراہل حکمت ودانش سے خطاب کیاہے اگراس حصہ کوترک کیاجائے توفساد فی الارض کا خدشہ ہے۔عقل سلیم بھی اس حققیت کو تسلیم کرتی ہے۔جو ان حقائق کو سمجھتے ہیں وہی صاحب دانش وحکمت ہیں۔
انصاری صاحب نے کہا کمال حکمت وذہانت کے ساتھ اگر ضمیر کی صداقت نہ ہوتو شیطنت ہے اور اگر کمال ذہانت کے ساتھ قوت حافظہ اورصداقت ضمیر بھی ہوتوجان لوکہ نابغہ روزگاروجود میں آگیاکمال ذہانت اورصداقت ضمیر کے ساتھ خطابت کاجوہربھی ہوتو سمجھ کہ عظیم اساسی رہبر منصئہ شہود پرآگیا۔“
مرزاصاحب نے کہا عقل کے استعمال میں توازن ہوتوحکمت یاذہانت کہلاتی ہے اگر اعتدال سے بڑھ جائے توشیطنت یامکاری کہلاتی ہے اوراگراعتدال سے گھٹ جائے توحماقت نام پاتی ہے۔“ مرزاصاحب نے کہا کہتے ہیں کہ حماقت کامیاب ہوجائے توجرات کہلاتی ہے اورجرات ناکام ہوجائے توحماقت نام پاتی ہے۔ شاہ جی نے کہا:” علمی اورعقلی دلائل سے بات کرنے والے یہ نکتہ بہت کم ذہن میں رکھتے ہیں کہ دوسروں کومرعوب کرنا اوربات ہے قائل کرنا اوربات ہے اورمتاثر کرنا بالکل مختلف چیز ہے تحکمانہ لہجہ سے بات کرکے آپ دوسروں کو مرعوب توکرسکتے ہیں لیکن قائل نہیں کرسکتے اورٹھوس دلائل سے دوسروں کوقائل یا مرعوب کیا جاسکتاہے لیکن متاثر اعلی اخلاق ہی سے کیا جاسکتاہے گفتگو میں یہ کہنا کہ صرف میراہی نقطہ نظر درست ہے خواہ کتنی ہی ٹھوس دلیلوں پرمبنی ہوتہذیب وشائستگی کے خلاف ہے اور کچھ تکبروتعصب اورہٹ دھرمی کا بھی عکاس ہے ایک بااخلاق مہذب اورشائستہ انسان اپنا نقطہ نظر اس خوبصورتی سے پیش کرتاہے کہ دل میں اترجاتاہے اختلاف نظر کے باوجود بدمزگی پیدانہیں ہوتی۔وہ گفتگو میں اس بات کا خاص دھیان رکھتا ہے کہ اپنی بڑائی اوردوسروں کی برائی نہ کرے۔ایساہی شخص سچا صاحب دانش اورصاحب حکمت ہوتاہے۔