پچھتاوا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پچھتاوا
ازکی انتظار؛لاہور
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں مسجد میں استاد تھا۔پندرہ سال کا وہ لڑکا ہر روز مغرب کے بعد مسجد میں بیٹھا کرتا تھا... چوری چھپے ہمیں تھوڑی تھوڑی دیر بعددیکھتا رہتا تھا.. آج میں نے عشاءکی نماز کے بعد.. اس سے ملنے کا عزم کر لیا۔
''میرا نام طلحہ ہے مسجد میں پڑھاتا ہوں'' میں نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔
''اور میرانام عمار ہے''اس نے فورا جواب دیا۔
''عمار ! آپ کیا پڑھتے ہیں؟'' میں نے بات بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
''میں نویں کلاس کا طالب علم ہوں اور قرآن پاک سے مجھے بہت محبت ہے''اس نے جواب دیا۔
میری حیرانی اور بڑھ گئی...بھلا اس آخری جملے کی کیا ضرورت تھی..؟! میں نے سوچا۔
''عمار !کیا آپ مغر ب کے بعد فارغ ہوتے ہیں؟ اگر آپ مسجد میں پڑھنے آئیں گے تو ہمیں بہت خوشی ہو گی'' میں نے مزید بات کو بڑھانا چاہا۔
''آں...ہاں..قرآن پاک...مسجد... جی ...جی ..ضرور...ان شاءاللہ میں آﺅں گا'' اس نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
''تب ..ہم کل ملیں گے''میں الوداعی سلام کرتے ہوئے مسجد سے باہر نکل آیا۔
ساری رات میں اس عجیب سے لڑکے کے بارے میں سوچتا ہی رہالیکن کچھ سمجھ نہ آیا...آخر کار نیند نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا..
دن گزرتے رہے.. عمار مسجد میں روز آتا رہا..بہت محنتی تھا وہ ... اس نے سب کو بہت پسند کیا... اور سب نے اس سے محبت کی.. قرآن پاک ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا... بہت اچھی عادات کا مالک تھا وہ ...صرف ایک چیز ہمیں بہت عجیب لگی اس میں... اسکی گہری سوچیں...کبھی کبھار ایسا لگتا کہ اسکا جسم تو ہمارے ساتھ ہے لیکن اس کی روح...کسی اور دنیا میں تیرتی پھر رہی ہے... ایک دن میں اسے سمندر کی سیر کروانے لے گیا... شاید کہ اس کی دل کی بات سمندر کے دل کی بات سے جا ملے .. ہم سمندر پر پہنچے...اسکے کنارے پر ٹہل قدمی کرنے لگے... رات کا وقت تھا... چاند چمک رہا تھا... عجیب سماں تھا... آسمان کا اندھیرا...سمندر کے اندھیروں سے مل رہا تھا.. اور چاند کی روشنی... ان دونوں کے درمیان حیران کھڑی تھی۔
سفید چاند کی پرسکون خاموش روشنی.. اس خاموش سمندر کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی... میں اس خاموش لڑکے کے سامنے کھڑا ہو گیا.. ہر طرف خاموشی تھی... خاموشی ہی خاموشی.. کوئی آواز نہیں...سوائے خاموشی کی آواز کے...اور اچانک ... اس پرسکون خاموشی میں...عمار کے رونے کی آواز سنائی دینے لگی.. عمار پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا... میں اسے چپ کروا کر رونے کی لذت توڑنا نہیں چاہتا تھا...شاید کہ اسے اسی میں راحت ملے اور اس کا غم ہلکا ہو جائے۔
چند لمحوں بعد ...وہ روتے روتے بولا:
''میں آپ سے محبت کرتا ہوں..سر طلحہ!! میں قرآن سے محبت کرتا ہوں... اور قرآن والوں سے محبت کرتا ہوں.. نیک لوگوں سے... پاکیزہ روحوں ..سے محبت کرتا ہوں لیکن...میرے والد صاحب...والد..''اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔
''آپکے والد صاحب.. عمار !! ان کو کیا مسئلہ ہے؟'' میں نے نہایت پیار سے پوچھا۔
''میرے والد صاحب...وہ مجھے آپ لوگوں سے ڈراتے ہیں..نفرت کرتے ہیں آپ لوگوں سے... جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں آپ لوگوں کے بارے میں... اور مجھے بھی آپ کی وجہ سے نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں...لیکن... جب میں آپ لوگوں کو مسجد میں قرآن پڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں..مجھے آپکے چہروں پر نور کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا... روشنی ہی روشنی نظر آتی ہے... آپکے لباس میں نور... آپکی باتوں سے نور ٹپکتا ہے...سر طلحہ..!! یاد ہے.. یاد ہے وہ دن..؟جب آپ عشاءکے بعد میرے پاس آئے تھے.. میں کتنے عرصے سے آپ کا انتظار کر رہا تھا کہ آپ آئیں.. میری روح کر پکڑ کر اپنی روحوں کے ساتھ لٹکا دیں.. عفت اور پاکیزگی کی دنیا میں... نور اور استقامت کی دنیا میں... آپ کے کہنے پر میںنے مسجد میں قرآن پڑھنے کے لے داخلہ لیا۔ میں نے بہت محنت کی.. سونا چھوڑ دیا.. دن رات قرآن کے ساتھ گزارتا تھا... لیکن ...جب میرے والد نے یہ تبدیلی محسوس کی.. اور کسی کے ذریعے پتا کروایا کہ میں نے مسجد میں داخلہ لے لیا ہے اور مولویوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا ہے... تو..!!
اس رات... وہ اندھیری رات...کاش وہ رات میری زندگی میں نہ آتی... جب ہم رات کو والد صاحب کا انتظار کر رہے تھے.. ہر روز کی طرح رات کا کھانا کھانے کے لیے.. وہ اپنے اندھیر چہرے کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے..کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے.. ہر کوئی خاموش تھا.. ہمیشہ کی طرح.. ان کی موجودگی میں کوئی بات کرنے کی جرات نہ کر سکتا تھا..اس پرسکون ماحول میں ان کی آواز بجلی کی طرح کڑکی...
''عمار..!! میں نے سنا ہے کہ تم مولویوں سے میل جول رکھنے لگ گئے ہو..؟'' انہوں نے مجھے گھورتے ہوئے پوچھا۔
میری زبان کو تالے لگ گئے.. دل دھک دھک کرنے لگا.. بولنے کی کوشش کی تو کلمات گڈ مڈ ہونے لگے.. لیکن انہیں کون سا میرے جواب کا انتظار تھا... چائے کا تھرماس اٹھایا اور میرے منہ پر پھینک مارا..میری آنکھوں کے سامنے تارے آگئے،زمین پر گر گیا۔ میری امی جان نے مجھے اپنی گود میں اٹھا لیا۔ اپنی امی کے نرم و گرم ہاتھوں میں آکر تھوڑا سا بے ہوشی سے افاقہ ہوا۔
اپنی مختصر سی کہانی سناتے ہوئے پتا نہیں اس کی آنکھوں سے کتنے خاموش آنسو نکلے .. میری سمجھ نہیں آ رہا تھا کن الفاظ سے اسے حوصلہ دوں.. . اے اللہ!! اتنا دکھ اتنے چھوٹے سے لڑکے کے سینے میں!!! کیا میں اس ظالم باپ پر حیران ہوں...؟ جس کا دل رحمت کے معانی سے خالی تھا.. اور.. جس کے دل میں سختیوں کے علاوہ کچھ نہ تھا.. کیا میں اِ س صابر بچے پر حیران ہوں.. یا میں ان دونوں پر حیران ہوں..؟
آخر میں نے حوصلہ کرتے ہوئے اس لڑکے کے کندھے پر ہاتھ رکھا..اسکے آنسووں کو صاف کیا... اس کے لیے دعا کی.. اسے اپنے والد سے نیکی کی نصیحت کی.. ان کے ظلم پر صبر کی نصیحت کی..اور اس سے وعدہ کیا کہ میں اسکے باپ کے پاس ضرور جاﺅنگا.. محبت سے بات کرونگا... شاید کہ میری باتوں سے ان کا دل نرم ہو جائے۔پھر ہم واپسی کے لیے چل دیے۔
میں سوچتا رہتا کہ کس طرح عمار کے والد سے بات کروں گا..؟ اپنا تعارف کیسے کرواﺅں گا؟ آخر کار...ایک دن میں نے اپنی قوت جمع کی اور عمار کے گھر کی طرف چل پڑا.. کانپتے ہوئے ہاتھوں سے بیل بجائی... پھر دروازہ کھلا.. اور وہی سخت ترش رو چہرہ! میں ہلکا سا مسکرایا کہ شاید وہ اپنی غضب ناک آنکھیں مجھ پر سے ہٹا لے.. اور اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا.. اس نے میرا گریبان پکڑلیا...: '' تو ہی وہ مولوی ہے نا جو عمار کو پڑھاتا ہے؟''
''آ..آں...ہاں..ہاں جی'' میں نے بمشکل جواب دیا۔
''اگر میں نے آج کے بعد اس کے ساتھ پھرتا ہوا دیکھ لیا تو ٹانگیں توڑ دونگا..اور.. سن !! عمار آج کے بعد کبھی نہیں آئے گا..''یہ کہتے ہی اس نے اپنے منہ سے سارا تھوک جمع کر کے.. اللہ کے اس فقیر بندے کے منہ پر پھینک کر دروازہ بند کر لیا... جس چیز سے اس نے میری مہمان نوازی کی تھی اسے میں نے اپنے منہ سے صاف کیا اور اپنے آپ کو حوصلہ دیتے ہوئے واپسی کی راہ لی.. . اسی طرح دن گزرتے گئے.. مہینے گزرتے گئے لیکن عمار کبھی نہ آیا۔ہم اس کے لیے دعا مانگتے رہے۔
اور پھر ہم اسے اس اندھیر دنیا میں بھول گئے... کتنے سال گزر گئے.. اور ایک رات.. عشاءکے بعد... وہی سخت ہاتھ ... میرے کندھے پکڑتا ہے.. آہ... یہ تو وہی ہاتھ ہے جس نے چند سال پہلے میرا گریبان کھینچا تھا... آہ.. یہ تو وہی چہرہ ہے جس نے چند سال پہلے میری مہمان نوازی کی تھی... تھوک پھینک کر !لیکن یہ تو بدلا ہوا ہے ... ترش رو اور سخت چہرہ. . . انکساری سے جھکا ہو تھا... غصہ والی زبان.....خاموش ہو چکی تھی... جسم کو دکھوں نے بوڑھا کر دیا تھا...
''خوش آمدید.. چچا جان!!'' میں نے ان کا استقبال کیا۔
لیکن جواب میں... وہ ... بچوں کی طرح رونے لگا.. سبحان اللہ...! اللہ کی قدرت..!! میں نے کبھی نہ سوچا تھا کہ یہ پہاڑ کبھی اتنا نرم بھی بن جائے گا۔
''بولیے چچا جان.. کہیے.. کیا ہوا..؟ عمار کیسا ہے؟''
عمار..!! یہ سوال پوچھ کر میں نے تو جیسے ان کے سینے میں خنجر مار دیا
''بیٹے!! عمار اب وہ عمار نہیں رہا جسے تم جانتے تھے... وہ عمار نہیں جو محبت کرنے والاتھا... جب سے میں نے اسے تمہارے پاس آنے سے منع کیا اس نے برے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا... سگریٹ پینا شروع کر دی... میں نے اسے بہت مارا.. بہت گالیاں دیں.. لیکن ..اس کا جسم مار کھانے کا عادی ہو چکا تھا... گالیاں سننا اس کا معمول بن چکا تھا۔ اسے سکول سے نکال دیا گیا.. پھر تو اس نے گھر کا چکر بھی لگانا چھوڑ دیا.. اسکی باتیں پہلی جیسی نہ رہیں... اسکا چہرہ وہ چہرہ نہ رہا... وہ روشن سفید چہرہ... گناہوں سے کالا ہو گیا... وہ شرمسار صاف آنکھیں... آگ کی طرح سرخ رہنے لگیں.. ایسا لگتا کہ جو وہ برائیاں کرتا ہے ،اللہ اس کا بدلہ آخرت میں دینے کی بجائے اس کی آنکھوں پر اتار دیتا ہے۔'' یہ کہہ کر وہ پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہو گئے..
پھر خود ہی اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولے..
''طلحہ..!! میرے عزیز بیٹے..!! میری ایک ہی گزارش ہے تم سے..اللہ کے لیے عمار کے پاس جاﺅ.. اسے اپنے ساتھ لے آﺅ..وہ تو تم سے محبت کرتا تھا.. مجھے بس اپنا عمار چاہیے... پہلے والا عمار'' یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگ گئے۔
''اے چچا..!آپ نے یہ کھیتی بوئی تھی... اور آج آپ اسے کاٹ رہے ہیں.. لیکن پھر بھی... میں کوشش کروں گا''...
بوڑھی آنکھوں میں امید کی کرن چمکی اور میں اپنے آنسو چھپانے کی خاطر پلٹ کر چل دیا۔