سوچنے کی باتیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سوچنے کی باتیں
بنت آصف علی؛لاہور
میرے اور آپ کے نبی حضرت محمد ﷺ فرماتے ہیں کہ اپنے ہر فعل میں غوروفکر کیا کرو میرا خیال ہے اگر انسان غور وفکر کرنا شروع کردے تووہ کبھی بھی اللہ کی محبت سے غافل نہیں ہوسکتا اورنہ ہی جہنم میں جاسکتا ہے کیونکہ جب انسان کسی چیز کوغور سے دیکھتا ہے یاغور سے پڑھتا ہے تویہ اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ وہ اس سبق میںیا اس کام میں غلطی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرئے گااورجب غلطی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے توکامیابی اس کامقدر ہوتی ہے اورمیراخیال ہے کہ انسان کوہر کام میں غور وفکر ضرورکرنا چاہیے کیونکہ مومنین کاغوروفکر کرنااللہ کی قربت کا ذریعہ اور باعث ہے
مثلاجب ہمارے امتحان نزدیک ہوتے ہیں تو اہم اپنے اساتذہ کرام سے کہتے ہیں کہ آپ سبق بند کروادیں تاکہ ہم اچھے طریقہ سے تیاری کرلیں اور ہم جان مارکر محنت کرتے ہیں اس کے بعد ہمارے پیپرہوتے ہیں اورہمیں اپنے پیپروں سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہمارا رزلٹ کیا ہوگا؟اس کے باوجود ہم رزلٹ والے دن بے چین ہوتے ہیں گھرمیں ماں باپ سے کہتے ہیں ہمارے لیے دعا کرنا ہماراآج رزلٹ ہے خودنوافل پڑھتے ہیں کہ ہم اس امتحان میں کامیاب ہوجائیں رزلٹ آنے سے پہلے ہماری دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں کوئی چیزاچھی نہیں لگتی جسم کپکپارہاہوتاہے۔
سوچو!دنیا کے امتحان میں ہماری یہ حالت ہے تو آخرت میں ہماری کیا حالت ہوگی؟اگر اس دنیا کے امتحان میںغورکریں کہ اس امتحان میں ہماری یہ حالت ہے تو قیامت کے دن جب ہم اپنے رب العزت کے سامنے حاضر ہوں گے اورہمارے نامہ اعمال ہمارے ہاتھوں میں تھمادیے جائیں گے توا س دن،اس وقت ہماری کیا حالت ہوگی؟ جبکہ اس دن ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں جانتا ہوگا کہ ہماری ایک نماز یا ایک روزہ یادوسرے عبادات کے بدلے میں اللہ تعالی نے ہمیں کتنا اجر دیاہے؟ قبول بھی ہواہے یا نہیں؟ ہمارے نامہ اعمال میں کتنی نیکیاں ہیں اورکتنے گناہ ہیں؟
ایک طرف دنیاکا امتحان ہو تو ہم محنت کرتے ہیں اس کے باوجود ہمارے جسم کپکپارہے ہوتے ہیں ایک انجاناساخوف ہمارے سکون کو برباد کردیتا ہے اورایک طرف آخرت کاامتحان ہے جو فائنل امتحان ہے جس میں یہ بھی گنجائش نہیں کہ اگر کسی احکام میں کوئی سپلی آگئی تو اس کو دوبارہ دے کر کامیاب ہوجائیں گے اس کے باوجود ہم اس کی طرف رجوع نہیں کرتے آخرت کی تیاری نہیں کرتے اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے
اے مری بہنو! ذرا غور کروہماراکیاانجام ہوگا؟ہم کیسے کامیاب ہوں گے۔
حضرت خواجہ حسن بصریؒ فرماتے ہیں:” اے ابن آدم! اپنے پیٹ کے تیسرے حصے میںکھایا کر تیسرے حصہ میں پانی پیاکر اورتیسراحصہ ان سانسوں کے لیے چھوڑدیا کر جس میں توآخرت کی باتوں پراپنے انجام پراوراپنے اعمال پرغوروفکر کرسکے۔“
دنیا کی عجیب مثال:امام غزالیؒ فرماتے ہیں ایک آدمی جارہا تھا ایک شیر اس کے پیچھے بھاگا اس کے قریب کوئی بھی درخت نہیں تھاکہ جس پروہ چڑھ جاتا اسے ایک کنواںنظر آیا۔اس نے سوچا کہ میں کنویں میں چھلانگ لگادیتا ہوں،جب شیر چلاجائے گاتو میں بھی کنویں سے باہر نکل آﺅں گا۔جب اس نے نیچے چھلانگ لگانے کے لیے دیکھا تو کنویں میں پانی کے اوپر ایک کالا سانپ تیرتاہونظرآیا۔اب پیچھے شیر تھا اور نیچے کنویں میںکالا سانپ وہ اورزیادہ پریشان ہوکر سوچنے لگا کہ اب میں کیاکروں؟ اسے کنویں کی دیوار پر کچھ گھاس اگی ہوئی نظر آئی اس نے سوچا کہ اس میںگھاس کوپکڑ کر لٹک جاتا ہوں جب شیرچلا جائے گاتومیں بھی باہر نکل آﺅںگا۔تھوڑی دیر بعد اس نے دیکھا کہ ایک کالا اورسفیدچوہا دونوں اسی گھا س کوکاٹ رہے ہیں جس گھاس کو پکڑ کروہ لٹک رہا تھا اب اسے اور زیادہ پریشانی ہوئی اس پر یشانی کے عالم میں جب اس نے ادھر ادھر دیکھا تو اسے قریب ہی شہد کی مکھیوں کا ایک چھتہ نظر آیااس پر مکھیاں تو نہیں تھیں مگر وہ شہد سے بھرا ہوا تھا۔یہ چھتہ دیکھ کراسے خیال آیا کہ ذرادیکھوں تو سہی اس میں کیا شہد ہے؟ چنانچہ اس نے ایک ہاتھ سے گھاس کوپکڑااور دوسرے ہاتھ کی انگلی پر جب شہد لگا کر چکھاتو اسے بڑا مزا آیااب وہ اسے چاٹنے میں مشغول ہوگیااسے شیر یاد رہا نہ سانپ یاد رہا اورنہ ہی چوہے سوچیں اس کا انجام کیا ہوگا؟
اے دوست! تیری مثال اسی انسان کی سی ہے ملک الموت شیر کی مانند تیرے پیچھے لگا ہواہے قبرکاعذاب اس سانپ کی صورت میں تیرے انتظار میں ہے کالا اور سفیدچوہا یہ تیری زندگی کے دن اور رات ہیں اوریہ شہد کا چھتہ دنیا کی لذتیں ہیں جن سے لطف اندوز ہونے میں تولگا ہواہے تجھے کچھ یادنہیں!!!! سوچ کہ تیرا کیا انجام ہوگا؟واقعی بات یہی ہے کہ انسا ن دنیا کی لذتوں میں پھنس کراپنے رب کو ناراض کرلیتا ہے کوئی کھانے پینے کی لذتوں میں پھنساہواہے اورکوئی اچھے عہدے اورشہرت کی لذت میں پھنسا ہواہے کوئی اچھے عہدے اورشہرت کی لذت میں پھنسا ہوہے یہی لذتیں انسان کو آخرت سے غافل کردیتی ہیں اورغفلت انسان کوجہنم کی طرف لے جاتی ہے۔
گستاخ رسول کا عبرتناک انجام
حضورﷺ نے عرب کے ایک متکبر رئیس کے پاس آدمی بھیجا کہ اسے میرے بلالاﺅ قاصد نے اس کو کہا کہ رسول اللہﷺ تجھے بلاتے ہیں کہنے لگا رسول اللہ ﷺ کون ہے؟اوراللہ کیاچیز ہے؟سوناکاہے یاچاندی کا یاتا نبے کا؟العیاذ باللہ۔ تین مرتبہ یہ گفتگوکی۔تیسری مرتبہ جب وہ گستاخانہ کلمات کہہ رہا تھا۔ایک بادل اٹھا فوراً بجلی گری اورا س کی کھوپڑی سے سرجداکردیا۔
بعض روایات میں ہے کہ عامر بن طفیل اوراربد بن ربیعہ نے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا:” ہم اسلام لاتے ہیں بشرطیکہ آپ ﷺ کے بعدخلافت ہم کو ملے۔“ آپﷺ نے انکار فرمایادونوں یہ کہہ کراٹھے کہ ”ہم مدینہ کی وادی کو آپ ﷺ کے مقابلے میں پیدل اور سواروں سے بھر دیں گے۔ “آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ اس کوروک دے گااور انصارمدینہ روکیں گے وہ دونوں چلے گئے راستے میں اربد پر بجلی گری اورعامر طاعون کی گلٹی سے ہلاک ہوا۔
انتخاب :فوزیہ الشاشی ،مانسہرہ