کھوکھلے دعوے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کھوکھلے دعوے
بنت بشیر احمد
میں اپنے گھر سے پڑھنے کے لیے آرہی تھی اچانک ہی میں نے اس طرف دیکھا جہاں لوگوں کا اکثر ہی رش رہتا تھا۔میں نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو اچانک پھسلنے کی وجہ سے سجدہ کی حالت میں گری اوردیکھئے !ہماری نوجوان نسل کا حال وہ تقریبا ۲منٹ تک اسی حالت میں رہی مگرکسی نے اسے اٹھانے کی زحمت نہ کی پھر ایک معصوم سابچے دوڑتا ہواآیا اوران کوسہارادے کرکھڑاکیااوران کی وہ چیزیں جوزمین پرگری پڑی تھیں ،وہ اٹھاکراس بوڑھی اماں کو دیں تومجھے رشک ہوااس ماں پر جس کاوہ بچے تھا میں اس تربیت یافتہ بچہ کو کافی دیر دیکھتی رہی اورافسوس ہواتونوجوان نسل پر کہ کیا اتنا غرورہے ان کو اپنی جوانی پر کہ وہ ایک ماں کوسہارا نہیں دے سکتے، کیا اس قدر بے حسی کی فضا چل پڑی ہے کہ اگر کوئی لاغر اور کمزور ماں کہیں گر پڑے تو اسے نہ اٹھایا جائے کیا حالات اس ڈگر پر آچکے ہیں کہ اب انسان کی انسان کو ضرورت باقی نہیں رہی ؟جن ماﺅں نے مہینوں اپنے پیٹوں میں ان کو اٹھائے رکھا اور بچپن سے لے کر اس عمر تک بھی ان کی دیکھ بھال کی اگر وہ ماں ٹھوکر کھا کر گر جائے تو اس کو کوئی اٹھانے والا نہ ملے اف اللہ ! یہ میرا مشاہدہ تھا نجانے کتنے واقعات اس طرح کے روزانہ رونما ہوتے ہوں گے اور میری کتنی مائیں ٹھوکرکھا کر گر پڑتی ہوں لیکن ان کو کوئی نہیں اٹھاتا ہوگا اور دیکھ کر اجنبیوں کی طرح لوگ گزر جاتے ہوں گے اور مائیں خود زمین پر سہارا لے کر اٹھ کھڑی ہوتی ہوں گی۔ آج کل اپنے بیٹے اپنا خون جن پرماں اپناسب کچھ واردیتی ہے وہ اپنی بیوی کے سامنے اپنی جنت کوبھلادیتے ہیں ان کے احسانات کو بھلا دیتے ہیں۔ ہائے افسوس !اس قوم پرجواک ماں کوسہارانہیں دے سکتی کہاں ہیں وہ دعوے جن کو طوطوں کی طرح رٹا کرتے تھے۔
ہومرا کام غریبوں کی حمایت کرنا درد مندوں سے ،ضعیفوں سے محبت کرنا