ظہیرالدین محمد بابر

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
ظہیرالدین محمد بابر
امان اللہ کاظم'لیہ
سرزمین منگولیا جس کی شمالی سمت میں بحر منجمد شمالی کا برفانی دلدلی علاقہ اور ٹنڈراکے برف پو ش میدانوں کا ایک طویل سلسلہ پھیلا ہوا ہے جب کہ اس کے جنوب میں تبت اور قراقرم کے برف پوش پہاڑ اور سلسلہ ہائے کوہ ہمالیہ واقع ہے اس کے مشرق میں چین جیسا وسیع و عریض ملک اور منچوریا کے گھنے جنگلا ت کا سلسلہ بہت دور تک چلا گیا ہے جب کہ اس کے مغرب میں سائبیریا کے بےآب وگیا ہ برفیلے میدان اور روس کے برف پوش پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے منگولیا کا بیشتر حصہ دنیا کے عظیم صحرا" صحرائے گوبی" پر مشتمل ہے جس کی تمام تر زمین بنجر اور خشک ہے جس کی جلی ہوئی ریت اور مٹی آندھیوں کے دوش پر ہر آن ادھرسے ادھراورادھرسے ادھررواں دواں رہتی ہے کہیں کہیں چھوٹی چھوٹی جھلیں اور ننھے منھے سے دریا بھی موجود ہیں اور کبھی کبھی ہونے والی بارشوں میں اپنےوجود کا احساس دلاتے ہیں جھلیوں اور دریاوں کے کنارے کنارے گھاس سے ڈھکے ہوئے قطعات زمین بھی واقع ہیں جن سے خانہ بدوش قبائل کے مویشیوں کے دوزخ شکم کو ایندھن مہیا ہوتا ہے اس علاقے کے موسموں میں بھی خاصاتنوع پایا جاتاہے ہے یعنی کہیں کہیں تو رگوں میں خون منجمد کر دینے والی سردی پڑتی ہے اور کہیں کہیں چلچلاتی ہے دھوپ جسموں کو جلائے دیتی ہے جب کبھی تھوڑی بہت بارش ہوجاتی ہے تو پھر انسانوں اور جانوروں کے دم میں دم آجاتاہے۔
زمانہ قدیم میں یہاں کے صحراانورد اور خانہ بدوش قبائل نہایت ہی وحشی اور خونخوار زمانہ قدیم کے عربوں سے کہیں بڑھ کر تھی یہ ویرانہ نورد انسانی گروہ عموما چراگاہوں اور دریائوں کی وادیوں پر قبضہ کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ بر سر پیکار رہتے تھے کیونکہ ان کی خوراک کا تمام تر انحصار ان کے مویشیوں پر تھا وہ جنگلی جانوروں کا ابلا ہوا گوشت کھاتے تھے(جب کہ ان جانوروں میں چوہے اور گلہری سے لے کر بھیڑیے اور ریچھ تک کے تما م جانور شامل ہوتےتھے)اور پالتو جانوروں میں سے خصوصا گھوڑی کا دودھ بھی پیتے تھے اور اس دودھ سے شراب بھی بناتے تھے ان میں غذا ،اناج،نمک ،مسالہ جات اور گھی سے پاک ہوتی تھی۔بوقت ضرورت صرف وہ سوکھے گوشت کو بغیر بھگوئے اور ابالے کھاجاتے تھے اور گھوڑوں کا فصد کھول کر ان کے خون سے پیاس بجھاتے تھے ان قبائل کے سرداروں کے لئے اپنے قبیلے کی عورتوں سے شادی کرنا ممنوع تھا انہیں اپنی دلہنیں بزور بازو دشمن قبائل سے حاصل کرنی ہوتی تھیں چاہے وہ کنواری ہوں یا کسی کی بیاہتا ہوں۔
چودھویں صدی عیسوی اپنے دوسرے نصف حصے میں قدم رکھ چکی تھی یہ وہ وقت تھا جب سلطنت چنگیزی کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔چین تبت او منچوریا میں’’ چنگیز خان ‘‘کا پوتا اور ’’ تولی خان ‘‘ کا بڑا بیٹا’’ قبلائی‘‘ اپنی حکومت قائم کر چکاتھا اس نے بدھ مذہب اختیار کرکے اپنے ماضی سے پیچھا چھڑالیا تھا روس میں" جوچی خان" کے پوتے نے اپنی سلطنت کے حصے بخرے کر لئے تھے۔ان کی اکثریت نے مذہب اسلام قبول کرلیاتھا" تولی خان "کے چھوٹے بیٹے’’ ہلاکو خان‘‘ کی اولاد مذہب اسلام کی طرف قدم بڑھا چکی تھی انہوں نے چنگیزی چغہ اتار کر ’’ایل خانی‘‘ سلطنت کی داغ بیل ڈال دی تھی چنگیز خان کا تیسرا بیٹا اور منگولیا کا دوسرا’’ خاقان ‘‘بے اولاد مر گیا تھا اس لئے اب’’ خاقانی چنگیز خان‘‘ کےبڑے بیٹے ’’چغتائی خان‘‘ کی اولاد میں منتقل ہوچکی تھی۔
چغتائی خان کی اولاد نے اپنے پرانے مستقر قراقرم کو چھوڑ کر "کا شغر" کے شمال میں یہ سلسلہ ہائے کوہ ’’ تھیان شیان‘‘ کے اس پارقزل قم کے وسیع ریگستانوں میں خیمے نصب کر لئے تھے اور یہاں کے دودریائوں(دریائے سائر یعنی دریائے سیھون اور دریائے آمو یعنی دریائے جیجوں) کی درمیانی وادی تک حکومت کررہے تھے دین اسلام کی روشنی وہاں کی تاریک دنیاتک بھی جاپہنچی تھی اس طرح چغتائیوں کے خانوادے کاتعلق بھی منگولیا سے برائےنام رہ گیا تھا اور انہوں نے اپنےصحرائی مستقر کو مغلستان کانام دے دیا تھا چنانچہ آہستہ آہستہ خانوادہ چنگیزبکھرتا چلا گیا تھا ایک دادا کی اولاد میں ایک دوسرے سے رابطے معدوم ہوتے چلے گئےتھے اور ا ن کی خونی رشتے دشمنیوں میں بدلنے لگے تھے۔
یکایک وادئ کا شغر کے افق پر ایک شخص نمودار ہوا سمر قند سے پچاس کو س کی دوری پر’’ شہر سبز‘‘ جسے’’ کیس‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاتھا اس کا مولد ٹھہرا۔بیس سال کی عمر تک بھیڑیں چرانے والایہ شخص جس کا دایاں بازوغیر متحرکStiff))اورداہنی ٹانگ میں ایک گھائو لگنےکے سبب لنگ پیدا ہوگیا تھا اور جو فنون حرب سےبے بہرہ تھا بزعم خویش خود کو دولت چغتائیہ کا وارث گرداننے لگا حالانکہ وہ منگول نہیں تھا بلکہ تاتاری تھا بہرحال اس لنگڑے چرواہے نے تاریخ عالم جسے’’تیمور گورگان‘‘ کے نام سے یاد رکھے ہوئے ہے آہستہ آہستہ میدان حرب وضرب کی طرف پیش قدمی شروع کردی اور پھر شہر بلخ پر قبضہ جمالیا اس کے حوصلے اس قدر بڑھ چکے تھے کہ اس نے۱۳۶۹ میں چغتائی املاک پر قبضہ کرلیا اور شہر بخاراکواپنا مستقر بنالیا۔
اب اس کے قدم آگے اور آگے بڑھتے چلے گئے۔۱۳۸۰ء میں پرشیاپر ۱۳۹۵ء میں روس پر اورپھر۱۳۹۸ءمیں تخت دہلی پر قابض ہوگیا ۱۴۰۱ء میں شام ،مصر اور پھر ۱۴۰۲ء تک عراق اناطولیہ اور سلطنت عثمانیہ (ترکی)کو اپنے زیر نگیں کرچکا تھا وہ جس طرف بھی قدم بڑھاتا کامیابی اس کے قدم چومتی تیس برس کے عرصے تک وہ انہی فہم وفراست اور طاقت کے بل بوتے پر اپنی سلطنت کی حدیں وسیع سے وسیع ترکرتا چلا گیا امیر تیمور کی شخصیت نہایت ہی دلچسپ تھی اس قدر لمبا بدن چھریرا،اعصاب نہایت قوی، سر بڑا،چھاتی کشادہ رنگ گورا باز نما آنکھیں پیشانی نہایت ہی کھلی اور روشن انگلیاں موٹی ہاتھ بھاری اور چہرے پر لمبی اور گھنی داڑھی تھی۔
ستر برس کی عمر میں بھی وہ تواناجوان دکھائی دیتا تھا (تیمور کا لفظی معنی ہے لوہا )اپنے بازو ٹانگ کے لنگ کے باوجو د ایک فولادی جسم اور فولادی اعصاب کا مالک تھا گویا وہ اسم بامسمی تھا۔
تیمور لنگ (یاتمرلنگ)کے نام لے ایک عالم لرزہ براندام تھا۔حدتویہ ہے کہ خاقان اعظم چنگیز خان(جس کا نام سن کر انسانوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے)کی اولادیں تمرلنگ تاتاری کو خراج ادا کررہی تھیں اور ان کا نان ونفقہ اس لنگڑے فاتح کے رحم وکرم پر موقوف تھا۔وہ جسے چاہتا پل بھر میں بادشاہ بنادیتاتھا اور جسے ناپسند کرتا اسے گمنامی کا کفن پہنا کر عدم آباد پہنچا دیتا تھا گویا لوگوں کا زوال وعروج لنگڑے گدڑئیے کی جنبش نگاہ کا مرہون منت ٹھہرا تھا۔
اگرچہ تمرلنگ دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کا بلا شرکت غیرے بادشاہ تھا مگر وہ خود کو امیر کہلانے پرہی اکتفا کرتا تھا۔اس نے کبھی بادشاہ یا سلطان کا لقب اختیار نہ کیا اس بات کے پیچھے ایک وجہ موجود ہے اور وہ یہ کہ چنگیز خان کے زمانہ عروج میں منگولوں اور تاتاریوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا کہ منگولوں کی اولاد دنیا پر حکومت کرے گی اور بادشاہ کہلائے گی جب کہ تاتاریوں کی اولاد منگول بادشاہوں کے دربار میں منصب وزارت سنبھالے گی اپنے زمانہ عروج میں بھی تیمور اپنے اجداد کا کیا ہوا وعدہ بھولا نہیں تھا اس لئے وہ خود کو امیر کہلانے ہی میں فخر محسوس کرتا تھا چہ چائیکہ اس نے اولاد چنگیز کو اپنا مطیع ومنقاد بنا لیا تھا ان کی سلطنتوں کو اپنے لنگڑ ے پاوَں تلے روند ڈالا تھا (اس بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ منگول اور تاتار الگ الگ قبائل ہیں جو لوگ منگولوں کو تاتاری سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں)امیر تیمور کے مشیروں کے مشیروں نے اسے بہت ورغلایا کہ وہ ''شہنشاہ عالم" کا لقب اختیار کرے مگر اسے فاتح عالم یا شہنشاہ عالم سے زیادہ "لرزندہ جہاں" کہلوانے کا شوق تھا اس لئے اس نے امیر تیمور گورگان کا لقب اختیار کیا" گورگان" کے معنی بھی "لرزندہ جہاں "میں۔
ایک صدی اور بیت گئی اگر تاریخ عالم کا بنظر عمیق مطالعہ کیاجائے تو دنیا کی مختلف اقوام کے عروج وزوا ل کے اسباب کا بآسانی تجزیہ کیا جا سکتا ہے قانون قدرت سب کے لئے ہے کسی قوم نے چند مخصوص اصولوں کو بہت مضبوطی سےاپنا لیا تو اسے بھر پور ترقی حاصل ہوئی اور جب اس نے ان اصولوں کو ترک کردیا تو پھر وہ قعرمذلت میں جاگری جن عوامل نے اقوام کو اوج کمال تک پہنچایا ہے ان میں سے اتحاد، بے غرضی اور جفا کشی نمایا ں اہمیت کے حامل ہیں اور پھر جب وہی قوم باہمی نفاق وافتراق میں مبتلا ہو جاتی ہے تو جادئہ اعتدال سے ہٹ جاتی ہے اور اسراف وتعیش پرستی میں مشغول ہوجاتی ہے تو پھر اس پر تنزل وابتلا کے دروازے کھل جاتے ہیں اورذلت ومسکنت اس کا مقدر بن جاتی ہے ایک عمرانی حقیقت بھی ہے وہ یہ کہ کم وبیش سو سال کے بعد ہر قوم کے قصر اقتدار کے ستون بوسیدہ ہوجاتے ہیں اگر ان ستونو ں کی تجدید ومرمت نہ کی جائے تو پھر وہ ڈھے بھی سکتا ہے تاریخ عالم اٹھا کر دیکھیے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح دکھائی دیتی ہے وہ حقیقت کے جو منگولوں کے اقتدار کے ہر سو سال بعد دیکھی جاسکتی ہے چنگیز خان کی موت کے ایک سو سال بعد تک منگولوں کے اقتدار کا شیرازہ بکھرچکا تھا جس سے تیمور لنگ نے فائدہ اٹھایا امیر تیمور کے اقتدار کو بھی ایک صدی بیت چکی تھی اس کی سلطنت اس کی اولاد میں تقسیم در تقسیم ہوچکی تھی گویا اس کا شیرازہ بھی بکھر چکا تھا اب ضرورت اس بات کی تھی کی تاتاریوں کے قصر اقتدار کے ستونوں کی تجدید ومرمت کی جاتی مگر تاتاریوں کی پانچویں نسل تو ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریباں ہوچکی تھی۔چغتائیوں کی سلطنت (یعنی سلطنت مغلستان)دوحصوں میں بٹ چکی تھی مغلستان کا صحرائی علاقہ چغتائی خان کی اولاد کی تیرھویں پشت کے دو بھائیوں میں سے بڑے بھائی "عیسی بوغا خان" کی تحویل میں چلا گیا تھا کیونکہ اسے مغلوں کی روائتی بدوی زندگی پسند تھی وہ شہروں کی پر تعیش زندگی کی بجائے خیموں میں رہنا پسند کرتا تھا اس لئے وحشی منگول اس پر اپنی جان نچھاور کرتے تھے جب کہ "عیسی بوغا خان "کا چھوٹا بھائی یونس شہری زندگی کا دلدادہ تھا۔ یونس خان تعلیم یافتہ تھا اس لئے وہ اپنے حلقے میں عالم کہلاتا ہے کہا جاتاہے کہ اسے کلام حافظ اور مثنوی معنوی کے بے شمار اشعار ازبر تھے وہ بڑا نفاست پسند اور ذی شعور تھا اس نے اپنے دو مستقر بنارکھے تھے کبھی تو وہ کاشغر میں رہتا تھا اور کبھی تاشقند میں اگرچہ چغتائیوں کے کئی بڑے قبیلےیونس خان کے ساتھ رہتے تھے اور وہ ان کا بظاہر سرپر ست اعلی بھی بنا بیٹھا تھا مگر در پردہ وہ لوگ "عیسی بوغاخان" ہی کو اپنا"خاقان "مانتے تھے اوروہی شخص ان کے نزدیک زیادہ قابل احترام بھی تھا۔ یونس خان خاقانی والی کوئی خوبو نہیں تھی وہ تو ان کے نزدیک فقط سمر قند بخارا کا ایک عالم تھا اور بس۔
یونس خان زیادہ عرصے تک مغلستان کی خیمہ بستی میں ٹک نہ سکا اوراس نے دوبارہ شہر کا رخ کیا چشتی مغلوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور بار دگر عیسی بوغاخان کی مسند خاقانی پر بیٹھایونس خان شرمندہ تھا کہ وہ ابو سعید مرزا کے عطا کردہ منصب خاقانی کا تحفظ نہیں کرپایا تھا اب وہ کس منہ سے ابو سعید مرزا کا سامنا کرے گا مگراسے معلوم نہیں تھا کہ وہ بذات خود ابو سعید مرزا کی ضرورت تھا ابوسعید مرزا کےاپنے تحفظ کے لئے ضروری تھا کہ یہ دونوں بھائی(عیسی بوغاخان اور یونس خان) آپس میں بر سر پیکار رہیں وہ جانتا تھا کہ اگر خدانخواستہ یہ دونون متحد ہوگئے تو پھر اس کے منصب سلطانی کی خیر نہیں پس ایک مدت دراز تک دونوں بھائیوں میں چوہے بلی کا کھیل جاری رہا۔کبھی تو "عیسی بوغان خان "بن جاتا اور کبھی "یونس خان"
یونس خان نے ابو سعید مرزا کو خوش رکھنے کے لئے ایک چال چلی اور وہ یہ کہ اس نے اپنی تین بیٹیوں کی شادی ابوسعیدمرزا کے تین بیٹوں احمد مرزا،محمودمرزااور عمر شیخ مرزا سے کر دی ابوسعید مرزا کے چاروں بیٹے تھے جن میں سے عمر شیخ مرزا سب سے چھوٹا تھا یونس خان کو انہی سب سے چھوٹی قتلق نگار خانم سے بے پناہ محبت تھی یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے چھوٹے داماد عمر شیخ مرزا کو بہت چاہنے لگا تھا خدا کا کرنا کچھ یوں ہو اکہ ابوسعید مرزا کچھ ہی عرصہ بعد ایک معرکے میں مقتول ہوااور اس کی سلطنت کے حصے نجرے ہوگئے یعنی چاروں بیٹوں نےد ولت تیموریہ کو چار ٹکڑوں میں بانٹ دیا احمد مرزا کو سمر قند اور بخارا ملا ،حصار ،بدخشاں اور قندز پر محمود مرزا کا حق تسلیم کرلیا گیا جب کہ عمر شیخ مرزا کو وادی فرغانہ کی حکومت ملی۔بعد ازاں تا شقند بھی عمر شیخ مرزا نے ہتھیا لیا۔یونس خان کی چال بے حد کامیاب رہی سلا طین تیموریہ سے جوڑی گئی رشتہ داری اس کے بہت کام آئی کیونکہ خانوادہ تیموریہ کی بساط کے بڑے تین مہرے اس کی مٹھی میں آچکے تھے ایک وقت تھا کہ ابو سعید مرزا اسے جس طرح چاہتا تھا ،نچواتا تھا۔ مگر اب ابو سعید مرزا کے تینوں بیٹے اس کی جنبش ابرو کے اشارے پر ناچتے تھے بالفاظ دیگر وہ تینوں بھائی ہر وقت ایک دوسرے کے علاقے ہتھیانے کے لئے میدان جنگ سجائے رہتے تھے اور یہی کچھ یونس خان چاہتا تھا یونس خان بہت چالاک شخص تھا اب وہ ابوسعید مرزا کے بیٹوں کے ساتھ وہی کھیل کھیل رہا تھا جیساکہ ابوسعید مرزا چغتائیوں کے ساتھ کھیلتا آیا تھا پسند یدہ داماد ہونے کے ناتے یونس خان کا جھکائو عمر شیخ مرزا کی طرف زیادہ تھا اسےہر قت عمر شیخ مرزا کی بھلائی مطلوب رہتی تھی مگر اس بھلائی کے پس پردہ وہ اپنی بھلائی بھی کبھی نہیں بھولتا تھا یعنی وہ عمر شیخ مرزا کو کچھ علاقے دلا کر اس کے کچھ علاقوں کو ہتھیا لیتا تھا۔
یونس خان کی نظر میں تاشقند جیسے سر سبز وشاداب علاقے پر لگی ہوئی تھی بنا برس اس نے تاشقندرپر یلغار کردی مگر تاشقند کے حاکم جمال خان نے بڑی چالاکی سے یونس خان اور اس کی چہیتی بیوی دولت بیگم کو گرفتار کرلیا یونس خان کو رسوا وذلیل کرنے کےلیے ا س نے دولت بیگم کو اپنے ایک مغل سردار کے حوالے کر دیا مگر موقع پاتے ہی دولت بیگم نے مغل سردار کا کام تمام کردیا۔
وادی فرغانہ تین اطراف سے بلند وبالا پہاڑوں سے گھری ہوئی تھی جب کہ صرف مغرب کی طرف سے اس وادی میں داخل ہونے کا راستہ تھا اس راستے کے دہانے پر فرغانی کا پہلا سربز وشاداب شہر" آخشی "تھا جو اس کے دارالخلافے انداجان سے چند کو س کے فاصلے پر تھا والی فرغانہ عمر شیخ مرزا کی زندگی میں ۱۴ فروری ۱۴۸۳ ء بمطابق ۶محرم الحرام ۸۸۸ء کا دن جوکہ جمعہ المبارک کا دن تھا بہت ہی سعید دن تھا کیونکہ اس روز صبح صادق کے وقت اس کا پہلوٹی کا بچہ پیدا ہوااس بچے کی ماں قتلق نگار بیگم دختر خاقان اعظم یونس خان تھی انداجان کا شاہی محل نفیریوں ،دفوں، ڈھولوں اور نقاروں کی آوازوں سے گونج رہا تھا وادی فرغانہ کے ولی عہد کی پیدائش پر اس کے گوشے گوشے میں خوشیوں کے شادیانے بج رہےتھے
نومولود کے نام خاقان اعظم یونس کو بھی مغلستان میں نواسے کی پیدائش کی خوشخبری پہنچا دی گئی تھی خاقان اعظم نے ہزاروں مغلوں کے لاَو لشکر کے ساتھ فرغانہ کا رخ کیا لشکر کے جلوس نفیریوں دفوں ڈھولوں والے بڑی فراخدلی سے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے تھے اور ہزاروں وحشی اپنے روائتی وحشیانہ رقص میں مشغول تھے خاقان اعظم کا قافلہ فرغانہ کی حدود میں داخل ہو اتو عمر شیخ مرزا اس کے استقبا ل کے لئے وہاں پہلے ہی سے موجود تھا یونس خان نے اپنے داماد کو بچے کی پیدائش پر مبارک باد دی۔ اس نے نواسے کی پیدائش کی خوشی میں بے انداز مال نچھاور کیا۔ نانا اپنے نواسے کے لئے بھی گراں قدرتحائف ساتھ لایا تھاشاہی محل پہنچ کر خاقان نے اس سے پہلے نواسے کو دیکھنے کی خواہش کی اور پھر جب وہ نواسے کی خواب گاہ میں پہنچا تو اس نے بچے کو پالنے سے اٹھایا اور اپنے سینے سےلگایا لیاا س کی پیشانی پر اپنے بوسے ثبت کئے اور دامادسے پوچھا :
عمر شیخ مرزا بچے کا کوئی نام بھی رکھا ہے ؟
عمر شیخ مرزا نے جواب دیا: بچے کا نام ظہیر الدین رکھا ہے۔
یونس خان نے نام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا :کیا یہ نام کچھ زیادہ بڑا نہیں ہوگیا ہے ؟
نہیں حضور یہ نام اتنا بڑا بھی نہیں کہ اسے آسانی سے لیا نہ جاسکے عمر شیخ نے برملا کہا
یونس خان نےکچھ توقف کیا ور پھرکچھ یوں گویا ہوا۔
تم چاہتے اسے کسی نام سے بھی بلاتے رہو میں تو اسے "بابر" ہی کہوں گا۔
جانتے ہو "بابر" کا معنی کیا ہے؟
مگرجواب کاانتظار کئے بغیر اس نے کہا" بابر" کا معنی ہے "شیر "یہ بچہ بڑا ہوکر شیر کی طرح نڈر ہوگا
عمر شیخ نے بھی سسر کی ہاں میں ہاںملاتے ہوئے کہا۔
اللہ تعالی یہ نام مبارک کرے انشاءاللہ میرا بیٹا شیر ہی کہ طرح زندگی بسر کرے گا
اس کے بعد پھر عورتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا کہ(ا لامان والحفیظ )عمر شیخ مرزا کی خوشیوں میں شریک ہونے کے لئے اس کے بھابیاں بھی دور دراز کے سفر کر کے اندا جان تک آئیں اور دعوتوں میں بھر پور حصے دار بنے عمر شیخ مرزا کی بھابیوں کے بچے کے دودو رشتے تھے یعنی جہاں وہ اس کی چچیاں بھی وہاں وہ اس کی خالائیں بھی تھیں۔ کہا جاتاہے کہ خالہ کا اپنے بھانجے کے ساتھ رشتہ بہت گہرا ہوتا ہے کیوں کہ ماں کےبعد بچوں کی خالہ ماں کے برابر ہوتی ہے اسلئے ماسی کو ’’مان سی ‘‘کہا جاتاہے۔
ابوسعید مرزا کی وفا ت ے بعد خانوادہ تیموریہ میں یہ پہلی خوشی تھی عمر شیخ مرزا کے بھائی اور ان کے اہل خانہ اپنے تمام اختلافات پس پشت ڈال کر عمر شیخ مرزا کی خوشیوں میں شریک ہونے کے لئے فرغانہ آئے تھے ہر شخص کا چہر ہ خوشیوں سے دمک رہا تھا وقت وقت کی بات ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایک وقت تھا کہ جب یہی اپنے چھوٹے چھوٹے قطعات زمین کے حصول کے لئے ایک دوسرے کے سامنے شمشیر بکف تھے اورا ٓج ہنس ہنس کر ایک دوسرے کے گلے بھی مل رہے تھے اور مبارک بادیاں بھی دے رہے تھے اور وصول کررہےتھے خداجانے کل کیا ہوگا کون کس کے ساتھ ہوگا اور کون کس کے سامنے صف آراء ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
(اس داستان کی دوسری قسط اگلے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں )
علم اورعلماء
جس نے علم کاراستہ اختیار کیاہ اسنے جنت کا ر استہ اختیار کیاجس نے طلب علم میں وفات پائی وہ شہیدمرا(فرمان رسول ﷺ)
علماء انبیاء کے وارث ہیں (فرمان رسولﷺ)
جوبغیرعلم کے ہواسے بیمار جانواورجوعلم بغیرعمل کے ہواسے بیکارجانو(حضرت ابوبکرؓصدیق)
عالم وہی ہے جس کا اپنے علم پر عمل ہو۔(حضرت علی ؓ)
اس شخص کوکبھی موت نہیں آتی جو علم کو زندگی بخشتاہے اورعلم وہ خزانہ نے جس کاذخیرہ بڑھتاہی رہتاہے(حضرت علیؓ)
جوعلم کو دنیا کمانے کے لیے حاصل کرتاہے علم اس کے قلب میں جگہ نہیں پاتاہے(امام ابوحنیفہؒ)
عالم جہل کو جہالت سمجھتا ہے اورجاہل علم کو(امام شافعیؓ)
اگراھل کوعلم نہ سکھایاجائے تو یہ ظلم ہے اورنااہل کوتعلیم دی جائے تو علم کاحق ضائع کرناہے(امام شافعیَ)
ایک عالم کی طاقت ایک لاکھ جاہلوں سے زیادہ ہوتی ہے(بایزید بسطامیؓ)
انسان کو چارچیزیں بلند کرتی ہیں علم،حلم،کرم اورخوش کلامی(بایزید بسطامیؒ)
اصل کمال علم اورعمل دونوں کوجمع کرنے میں ہے(امام غزالیَ)