بچوں کی تعلیم وتربیت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بچوں کی تعلیم وتربیت
مولانا عاشق الہی بلند شہری
بچوں کی تعلیم وتربیت یعنی دین کا علم سکھانے اور دین پرعمل کرکے دکھانے اور عمل کا شوق پیدا کرنے کا سب سے پہلا گھرمدرسہ اوران کے ماں باپ کی گود ہے ماں باپ عزیز واقربا بچوں کو جس سانچے میں چاہیں ڈھال سکتے ہیں اور جس رنگ میں چاہیں رنگ سکتے ہیں بچہ کو سنوارنااور بگاڑنا دونوں گھر سے چلے ہیں بچوں کی تعلیم وتربیت کی اصلی ذمہ دار ماں باپ ہی ہیں، بچپن میں ماں باپ ان کو جس راستہ پر ڈال دیں گےا ور جو طریقہ بھلایابُراسکھادیں گے وہی ان کی ساری زندگی کی بنیاد بن جائے گا۔
آج کل ماں باپ اولاد کو دنیا سے حاصل ہونے والا علم سینکڑو ں اور ہزاروں روپے خرچ کرکے سکھاتے ہیں اور بعضے لوگ کوئی دوسرا ہنر سیکھنے کے لئے کسی کارخانہ میں بچہ کو پہنچا دیتے ہیں مگر دینی باتوں اور دینی عقیدوں اور دینی طریقوں کے سکھانے کو ضروری نہیں سمجھتے کسی نے بہت ہی دینداری کا خیال کیا تو ذراسی کوئی بات سکھا کریا چھوٹے سے مکتب میں ایک دوبرس پڑھواکرآگے دنیا کمانے میں لگا دیا اور دین کی بہت سی ضروری باتوں سےمحروم کردیا۔
بچہ کے دل میں خداکا خوف خدا کی یاد خدا کی محبت اور آخرت کی فکر اور اسلام کے حکموں کے سیکھنے اور اسی کو زندگی کا مقصد بنا لینے کاجذبہ پیدا ہوجانے کی پوری پوری کوشش کرنی چاہیے اس کو نیک عالموں اور حافظوں کی صحبت میں دین کی تعلیم دلاؤ۔
قرآن شریف حفظ کراؤ قرآن وحدیث کے معنی اور مطلب سمجھنے کے لئے عربی پڑھاؤ۔اولاد کو نماز کی پابندی ،حلال وحرام،عبادات الہی، خدا کی یاد ،قرآن مجید کی تلاوت،امانت داری ،حیاوشرم ،سخاوت،صبر شکر،حلم،بندوں کے حقوق کی ادائیگی اور وعدہ پورا کرنا اور اسی طرح دوسرے اچھے اخلاق سکھاؤ۔اگر تمہارا لڑکا دین کے طریقے پر چل کر دوزخ سے بچ گیا اور دنیا میں بھوکا رہا تو یہ بڑی کامیابی ہے اور اگر اس نے لاکھوں روپیہ کمایا اور بڑی بلڈنگیں بنائیں مگر خدا سے دور،رہ کر اور گناہوں میں پڑ کر دوزخ مُول لےلی تو دولت اور جائیداد بیکار بلکہ اس کے لئے وبا ل ہی وبال ہے۔
عورتوں کی بڑی ذمہ داری ہےکہ اپنی اولاد کو دین دار بنائیں اور دوزخ سے بچادیں ہر بچہ ۹،۱۰ سال تو اپنی ماں کے پاس ہی رہتا اس عمر میں اسے دین کی باتیں سکھادو،دین داربنادو،ا گراولاد دیندارہوگی تو تمہارے لئے دعا کرے گی اور جو علم تم نےسکھایا تھا اس پر عمل کرے گی تو تم کو بھی اجرو ثواب ملے گا۔
حضرت رسول مقبول نے فرمایا ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے سب کام ختم ہوجاتے ہیں اور ان کا ثواب بھی کم ہوجاتاہےسوائے تین کاموں کے کہ ان کا ثواب ملتا رہتا۔ وہ تین کام یہ ہیں۔

1.

صدقات جاریہ(جیسے دینی تعلیم کا مدرسہ قائم کیا یا مسجد بنوادی یا کوئی مسافر خانہ بنا دیا )

2.

وہ علم جس سے دینی نفع حاصل کیا جاتاہو۔

3.

وہ نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی ہواور ظاہر ہے کہ ماں با پ کے لئے دعا خیروہی لوگ کرتے ہیں جو دیندار اور آخرت کے فکر مند ہوتےہیں۔
دین کے پھیلانےمیں حضرت رسول مقبول کے زمانہ کی عورتوں کا بڑا حصہ ہے خود بھی اسلام پر عمل کرتی تھیں اپنی اولاد کو بھی دین پر چلاتی تھیں اور اپنے لڑکوں کو دین جان دینے اور دین پر قربان ہونے کے لئے پرورش کرتی تھیں۔
ایک صحابی حضرت انس تھے ان کی والدہ نے ان کو سمجھا بجھا کر حضرت رسول مقبول کی خدمت میں لایاگیااس وقت ان کی عمر دس برس تھی انہوں نے حضرت رسول مقبول کی خدمت کی اور بہت بڑے عالم ہوئے۔
صحابی عورتوں میں دین سکھانے کی بڑے جذبے تھے اور ان کے بعد والی عورتوں میں بھی اسلام کی تعلیم کو رواج دینے اور اپنے عزیز بچوں کو دین کا علم پڑھنے کے لئے سفر کو جانے لگتے توا ن کی جدائی پر ذرا غم نہ کرتی تھیں اور ان کے خرچ کے لئے اپنا زیور تک دے دیتی تھیں۔
امام بخاری کو تو سب جانتے ہیں حدیث کے بہت بڑے عالم تھے جب انہوں نے علم حاصل کرنے کے لئے سفر کرنے کا ارادہ کیا تو ان کی والدہ اور بہن نے خرچ کی ذمہ داری لی اور ایک بہت بڑےعالم قاضی زادہ رومی گزرے ہیں جب انہوں نے علم حاصل کرنے کےلئے سفر کا ارادہ کیا تو ان کی بہن نے اپنا بہت سارازیور ان کے سامان میں چھپا کررکھ دیااور ایک بڑے عالم امام ربیعہ گزرے ہیں ان کے باپ ایک اسلامی حکومت کی فوج میں ملازم تھے اس زمانے میں مسلمانوں کی فوجیں اسلام کو بلند کرنے کرنے کے لئے دشمنوں سے لڑاکرتی تھیں۔
امام ربیعہ کے والد بادشاہی حکم سے بہت سی لڑائیوں پربھیج دئیے گئے اس وقت امام ربیعہ ماں کے پیٹ میں تھے چلتے وقت ان کے والد نے اپنی بیوی کو تیس ہزار سونے کی اشرفیاں خرچ میں لانے کے لئے دی تھیں خدا کا کرناایسا ہوا کہ ان کو لڑائیوں میں ستائیس برس لگ گئے اور پیچھے ایک ہی بچہ پیدا ہوااوراس نے احادیث کا علم حاصل کیا اور پھر احادیث پڑھانے کا استاد بن گیا اور تیس ہزار اشرفیاں ماں نےاپنے بچہ کو دین تعلیم دلانے پر خرچ کردیں اب جو ستائیں برس کے بعد امام ربیعہ کے والد گھر لوٹے تو بیوی سے پوچھا ان اشرفیوں کا کیا ہوا؟
بیوی نےکہا حفاظت سے رکھی ہیں پھر وہ جب مسجد میں نماز پڑھنے گئے تو دیکھا کہ میرا بیٹامسجد میں حدیثیں پڑھا رہا ہےاور دنیا اس کی شاگر د بنی ہوئی ہے یہ ماجرادیکھ کر پھولے نہ سمائے۔
جب گھر میں آئے تو بیوی سے پوچھاکہ تیس ہزار اشرفیاں اچھی ہیں یایہ نعمت بہتر ہے ؟ کہنے لگے حدیثوں کے علم کے سامنے ان اشرفیوں کی کوئی حقیقت نہیں شوہر کا جواب سن کر بیوی کہنےلگیں کہ وہ اشرفیاں میں نے اسی نعمت کے حاصل کرنے میں خرچ کرڈالیں شوہر نے نہایت خوش ہوکر کہا خدا کی قسم تو نے وہ اشرفیاں ضائع نہیں کی ہیں۔
حضرت پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی کو اکثر مسلمان جانتے ہیں انہوں نے جب کم عمری میں علم کے لئے سفر کرنے کا ارادہ کیا تو ان کے والدہ صاحبہ نے چالیس اشرفیاں ان کی اچکن کی آستین میں بغل کی پاس اس طرح سی دیں کہ وہ بغل میں چھپ گئیں ان کے پاس صرف یہی اشرفیاں تھیں اور کچھ بھی نہ تھااور شوہر بھی زندہ نہ تھے ان کے دل میں دین کی بڑی قدر تھی کم عمر بچہ کودین سیکھنے کےلئے دور بھیجنے پر بھی دل کو راضی کرلیا اور جوکچھ پاس تھا یعنی چالیس اشرفیاں وہ بھی بچہ کو دے دیں اور اپنے لئے سوائے خداکے نام کے کچھ بھی نہ رکھا۔
چلتے وقت بچہ کو خدا کے سپردکیا اور یہ نصیحت کی کہ بیٹاجب بولو سچ بولو حضرت پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی اپنی والدہ کی نصیحت کو گرہ کی طرح باندھ کرگھر سے نکلے اور ایک قافلہ کے ساتھ شہر بغداد کا رخ کیا راستے میں ڈاکو مل گئے۔
جنہوں نے قافلہ کو لُوٹ لیا اور سامان چھین لیاایک ڈاکو نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کا سامان چھین لیا اور پھر پوچھا کہ تمہارے پاس اور کیا ہے انہوں نے جواب دیا کہ چالیس اشرفیاں اور ہیں۔
یہ جواب ڈاکو نے سنا تو سمجھا کہ لڑکا مذاق کر رہا ہے۔ کہنے لگاکیا مذاق کرتے ہو؟
حضرت شیخ نے فرمایا :"میں مذاق نہیں کرتا سچ کہتا ہوں۔ "اس کے بعد دوسرے ڈاکو سے سوال وجواب ہوااس نے بھی اول توا ن کی بات کو مذاق سمجھا پھر کچھ خیال آیا تو حضرت شیخ کو اپنی سردارکے پاس لے گیا سردار سے گفتگو ہوئی باتوں باتوں میں اس نے پوچھا کہ آپ کے پاس اشرفیاں کہاں ہیں حضرت شیخ نے فرمایا یہ آستین میں سلی ہوئی ہیں۔
ڈاکوؤں کے سردار نے کہا تم عجیب آدمی ہو ایسی قیمتی چھپی ہوئی چیز کو یوں بتاتے ہوں ،حضرت شیخ نے فرمایا:" مسلمان کو ہمیشہ سچ بولنا چاہیےوہ مسلمان نہیں جو جھوٹ بولے۔حضرت شیخ کا یہ فرمانا تھاکہ اس سردار پر بہت اثر ہواشرمندگی سے سر جھکا لیا اورپھر اپنے تما م آدمیوں کے ساتھ جو ڈاکہ ڈالنے میں اس کے ساتھی تھے حضرت شیخ کے ہاتھ پربیعت ہوگئے اورگناہوں سے توبہ کی اور سارے قافلہ کو جو جوسامان لوٹا تھاواپس کردیا۔
دیکھا ایک بوڑھی ماں کی نصیحت کا اثراور بچے کودین پر ڈالنے کا نتیجہ کہ سب ڈاکوؤں نے لوٹ سے توبہ کر لی اور سارے قافلہ کا سامان مل گیا آگے چل کر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی بہت بڑے عالم اور ولی اوربزرگ ہوئے تمام امت ان کی بزرگی کی قائل ہے۔