شکایت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
شکایت
ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی
ایک روز ایک صاحب جو شاہ جی کے ملنے والوں میں سےتھے اور کچھ لوگوں کی زیادتیوں کا شکوہ کرنے لگے شاہ جی نے کہا کہ میاں اسلام نے اس ضمن میں ایک دستور دیا ہے جو بہت ہی حقیقت پسندانہ ہے کہ اگر کوئی زیادتی کرے تو جوابا تمہیں حق ہے کہ اس کے برابر بدلہ لو، لیکن اگر معاف کردو تو اس کا اجر اللہ دیتا ہے اور اگر زیادتی کا جواب حسن سلوک سے دو تو دشمنی کو اللہ پاک اپنے کرم سے دوستی میں بدل دیتے ہیں لیکن ایسا صرف صاحب نصیب ہی کرتے ہیں بدلہ لینے کی ہمت وطاقت ہو پھر در گزر سے کام لیا جائے تو صاحب ہمت ہونے کی علامت ہے اور حسن سلوک سے جواب دیا جائے تو صاحب نصیب ہونے کی نشانی ہے۔
ہمارے مرشد نے زندگی گزارنے کا یہ اسلو ب بتایا تھا کہ دوسروں کی خامیوں سے در گزر کر واپنا احتساب کرواور خود کو کبھی معاف نہ کرو دوسروں میں جو برائی دیکھو اسے اپنے اندرتلاش کرو اگر اسے اپنے اندر پاؤ تو اسے دور کردو جو نعمت حق مل جائے اس پر فخر نہ کرو، شکر کرو ،جو چیز نہیں ملی، اس پر ملال نہ کرو مطالعہ کتاب ضرور کیا کرو اور مطالعہ کتب نہ صرف ذہن کو جلا بخشتا ہے بلکہ انسان کو بہت سی فضول باتوں اور فضول خیالات سے بچاتا ہے۔
میر صاحب نے کہا:" شاہ جی آپ تو کتابیں کم ہی پڑھتے ہیں۔" شاہ جی نےکہا میاں ہم تو زندہ کتابیں پڑھتے ہیں ہماری کتابیں چلتے پھرتے انسان ہیں لوگوں کی پیشانی کے خطوط اور چہروں کے صفحات ہمیں زندگی کا وہ سبق دیتے ہیں جو کتابو ں کے مردہ اوراق میں نہیں پائے جا تے۔
اس پر میر صاحب نے طنز ا کہا : "اپنا شاہ جی گفتار کاغازی ہے۔"
شاہ جی نے کہا میاں یوں کہیے کہ :"اپنا شاہ جی جس سے راضی ورنہ بھائی بازی بازی باریش باباہم بازی۔"میر صاحب نے کہا شاہ جی ہم مانتے ہیں کہ آپ باتوں کے استاد ہیں ملک الموت آئے گا تو اس کوبھی باتوں میں لگا لیں گے اس سے کہیں گے کہ یار اس جہاں سےچلنے سے پہلے ذرا موت کے عنوان پر گفتگو
ہوجائے قسم سے بڑا خوبصورت نکتہ ذہن میں آیاہے شاہ جی نے کہا بھائی یہ بات بھی تو کوئی معمولی نہیں کہ ہم ہر بات میں نکتہ چینی پیدا کردیتے ہیں۔
خان صاحب نے کہا شاہ جی آج کچھ شکایت کے موضوع پر گفتگو ہوجائے شاہ جی نے کہا کچھ اہل دانش کہتے ہیں کہ شکایت کرنانسوانی خصوصیت ہے اور کچھ علماءکا خیال ہے کہ شکایت کرنا بنی اسرائیل کی عادت ہے اور کچھ اہل ادب کہتے ہیں کہ شکایت محبت کا آئینہ ہوتی ہے۔ بیوی شکایت کرتی ہے تو غصہ آتا ہے۔بچے شکایت کرتے ہیں تو مزہ آتا ہے۔
بوڑھے شکایت کرتے ہیں تو ہنسی آتی ہے شکایت کمزوری بزدلی اور کم حوصلہ ہونے کی دلیل بھی ہے اور ساتھ ہی اعتراف شکست بھی تو ہے جو شخص دوسروں کا شکوہ کرتا ہے وہ پہلے ہی قدم پر دوسروں کی برتری تسلیم کرلیتا ہے جو شخص دوسروں کی برائی کرتاہے غیبت کے گناہ کے ساتھ اپنی برائی اور دوسروں کی بڑائی ثابت کردیتا ہے لیکن ہم سب ایسا کرتےہیں جانتے بوجھتے ہوئے بھی۔
زبر دست آدمی کسی شخص کی زیادتی پر اس سے شکایت نہیں کرتا صاحب ہمت ہو تو در گزرکرتاہے کمینہ ہوتو زیادتی کرنے والے کو کچل دیتا ہے زیر دست یعنی ماتحت یا کمزورآدمی زبردست سے شکایت کر ے تو اپنی کمبختی ہی کو دعوت دے گا ہم دست یعنی دوست یا عزیز شکایت کرے تو ہمیں چاہیے کہ اسے جانچیں اگر درست ہوتو معذرت کرلیں اور اگر غلط فہمی پر مبنی ہوتو اسے دور کردیں بیوقوف،متکبر اور کمینہ انسان شکایت پر اور کمینگی دکھاتا ہے ورنہ کوئی دوست یا عزیز شکایت کرے تو یہ اس کی محبت کی نشانی ہے اس پر سیخ پانہیں ہونا چاہیے۔بلکہ سوچنا چاہیے کہ اس کا سبب کیاہے ؟اس کا تدارک کرناچاہیے۔
کسی شخص کی زیادتی پرکم حوصلہ آدمی شکایت کرتا ہے باحوصلہ آدمی اسے خاطر میں نہیں لاپاتا عام آدمی انتقام پر اتر آتاہےاور اہل دل خداپر چھوڑ دیتا ہے کہ خدا ظلم کرنے والوں کو نہیں چھوڑتا۔ اس کی پکڑ سب سے سخت ہے "ان بطش ربک لشدید" اور صوفی استغفار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ زیادتی پچھلی کس لغزش کی پاداش میں ہوئی۔