یہ فلمیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
یہ فلمیں
مولانا محمد اسلم شیخوپوری
ہالی وڈ میں ایک فلم انڈی تھری بنائی گئی جس پر ایک خطیر رقم صرف ہوئی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا ایک دس منٹ کا سین جس میں ایک اداکارکو ایک ٹینک پر سوا ر دکھایا گیا ہے تقریبا دوہفتوں میں مکمل ہوا جبکہ اس منظر کو فلما نے پر دو لاکھ ڈالر روزانہ کا خرچ آیا ہے یعنی کل خرچ ۲۸ لاکھ ڈالر۔
اس فلم کی عکس بندی تین براعظموں کے چھ ممالک اور امریکہ کی چھ ریاستوں میں ہوئی اس فلم کے لئے تقریبا چھ ہزار چوہے اور ایک ہزار مشینی روبوٹس استعمال کئے گئے ہیں دوسرے اداکاروں میں ایک ہزار سانپ ایک عدد شیر پانچ مگر مچھ دو کچھوے جن کا وزن تین سو پونڈ ہے پچپن گھوڑے اور پانچ اونٹ شامل ہیں جبکہ ا س فلم میں دو ہزار ایکٹرز نے کام کیا ہے ان اخراجات کے علاوہ ان فلموں میں کام کرنے والے فنکاروں کو بعض اوقات دس لاکھ ملین امریکی ڈالر بطور معاوضہ کے دیے جاتے ہیں۔
جس فلم کے صرف ایک دس منٹ کے سین فلمانے ۲۸ لاکھ ڈالر اٹھا ہے اس پوری فلم کے اخراجات کیا کچھ نہیں ہوں گے۔
وہ لوگ جو حج قربانی اور مساجد ومدارس کے سلسلہ میں ہونے والے اخراجات پرناک بھوں چڑھاتے ہیں اور جذبات کو برانگیختہ کرنےکے لئے کہتے ہیں اگر یہ سماجی اداروں اور فلاحی ہسپتالوں کی تعمیر پر خرچ ہو جاتا تو ہزاروں گھرانوں کا بھلا ہوجاتا ہے ایسے لوگ سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ آپ کو اس سرمائے کی تو فکر ہے محض اللہ کی رضا کی خاطر نفوس اور اخلاق کے تزکیہ کے لئے خرچ ہوتاہے لیکن اس خطیر رقم کا آپ کبھی بھولے سے نام بھی نہیں لیتے جو فحاشی اور عریانیت کی ترویج اور انسانی اخلاق اور کردار کو تباہ کرنے کے لئے خرچ ہورہی ہے۔فلم سازی کے لئے اپنے خزانوں کا منہ کھول دینے والے انسانیت کے کوئی ایسے غم خوار اور ہمدرد نہیں ہیں کہ انہیں اپنے سرمائے کی کوئی فکر ہی نہ ہو بلکہ وہ اپنے خرچ کئے ہوئے پیسے سے کئی گنازیادہ عوام کو فلموں کے ٹکٹ اور ویڈیوکیسٹس بیچ کروصول کرتے ہیں۔
فلموں میں جو قباحتیں اور خرابیاں ہیں ایک سرسری سی نظر ان پر بھی ڈال لیں۔
فلم سازی اور فلم بینی شرعی اعتبار سے ناجائز اور حرام ہے خواہ موضوع کتنا ہی پاکیزہ اورمقصد کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو۔
عام طور پر فلمیں عشق ومحبت ،حسد ورقابت سماج اور خاندان سرکشی اور بغاوت چوری اور ڈکیتی، جنگ وجدل اور مار دھاڑ جیسے موضوعات پر بنتی ہیں تو کچے ذہن کے فلم بین جو کچھ ان فلموں میں ڈرامائی طور پر دیکھتے ہیں اپنی عملی زندگی میں اس کی ریہر سل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں ڈاکہ زنی ابروریزی والدین سے بغاوت نوجوان لڑکیوں کے گھروں سے فرار اوربات بات پر آتشین اسلحہ کے استعمال کے واقعات روزانہ پیش آتے ہیں۔
فلموں اور ڈراموں میں پرتعیش زندگی کا ایک عجیب نقشہ پیش کیا جاتاہے خوبصور ت اور عالی شان بنگلے قیمتی قالین بہترین فرنیچر لمبی لمبی گاڑیاں نایاب قسم کی کراکری زیوارات اور جواہرات کی بہتات زرق برق لباس نوکروں اور خادمائوں کی فو ج ظفر موج یہ سب کچھ دیکھ کر یا تو انسان احساس کمتری کا شکار ہوجاتاہے اور یا پھر وہ ان چیزوں کےحصول کے لئے ہر جائز اور ناجائز حربہ اختیارکرتاہے اور صرف اس چیز نے ہزاروں خاندانوں کی زندگی کو جس تلخی اور ذہنی عذاب سے دو چار کیا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔
ان فلموں کے دیکھنے والوں کے دلوں سے بالعموم گناہ کا احساس ختم ہوجاتاہے ان کےلئے خون بہانا ڈاکہ ڈالنا اور عشق کے پیچ لڑاناگویا ایک کلچر اور رسم دنیا بن جاتاہے نماز روز ے کی پابندی تو دور کی بات ہے ان سے ایک قسم کا انقباض دل میں پیدا ہوجاتاہے۔