ہماری مائیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ہماری مائیں
بنت بشیر احمد
نام : حضرت حفصہ ؓبنت عمر بن خطاب ؓ
والدہ کا نام: زینب بنت مظعونؓ
پیدائش: قریش قوم بیت اللہ کی تعمیر کر رہی تھی بعثت نبوی کو ابھی پانچ سال کا عرصہ باقی تھا کہ عمر بن خطاب ؓکے گھر ایک حفصہ نامی بچی نے جنم لیا۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ یہی کل آقا دوجہان کی اہلیہ بنے گی اور قرآن کی زبان میں تمام مومنین کی ماں کہلائے گی۔
بچپن: آپ ؓ کا بچپن عرب کے دستور کے موافق نہایت سادہ گزرا چند سہیلیوں کی کل کائنات کے ساتھ صبح شام بسر ہو رہے تھے جب عمر مبارک بلوغ کی سرحد میں داخل ہوئی تو والدین کوآپ کو نکاح کی فکر ہوئی۔
نکاح اول: چنانچہ آپ ؓ کے لیےکفو(برابری کا رشتہ) ڈھونڈا گیا۔جس میں حضرت خنیس بن حذافہ ؓ کا نام سامنے آیا اورا ٓپ کا نکاح بنو سہم کے اس خوش قسمت شخص کے ساتھ ہوگیا۔
حضرت خنیس بن حذافہ ؓ نہایت جری نڈر اور شجاعت کے پیکر انسان تھے اور ان لوگوں میں تھے جو اسلام کی سر بلندی کے لئے جان کی بازی لگانا جانتے تھے حضرت قیس ؓبدر کے معرکے میں شریک ہوئے دو بدو جنگ میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھلائے تلوار نیزہ تیرتفنگ کے چلانے میں چونکہ مہارت رکھتے تھے اس لیے بڑی بے جگری سے دشمن سے لڑےا ور دشمن کی صفوں کو چیرتےان کے لاشے گراتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ۔۔۔۔۔آپ ؓ کو اسی اثنا ء میں شدید زخموں نے آپ کے جسم کو نڈھال کر دیا اس کے باوجود بھی آپ نے میدان دشمن کے ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
غزوہ سے واپسی کے بعدچونکہ زخم شدید گہرے ہوگئے جو بعد میں آپ کے انتقال کا باعث بنے۔ یہ زمانہ وہ تھا جب آپ ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہؓ کا انتقال پر ملال بھی ہو چکا تھا حضرت عمر ؓ نے اپنی صاحبزادی سیدہ حفصہ ؓ کے لئے سیدنا عثمان بن عفانؓ سے بات چیت کی اس کے بعد آ پؓ سیدنا صدیق اکبر ؓ کے پاس آئے اور اپنی خواہش کا اظہار کیا، جناب ابوبکر ؓ کے مکمل خاموشی اختیار کی۔ اس بات سے سیدنا عمر ؓ کو رنج تو بہت ہوا مگر ادباً زبان سے اس رنج کا اظہار نہ کرسکے۔
نکاح ثانی: کچھ دن گزرے ہوں گے کہ خدا کا لاڈلے پیغمبرﷺنے خو د حضرت عمر ؓ سے سیدہ حفصہ ؓ کے نکاح کی خواہش کا اظہارفرمایا۔حضرت عمر ؓ کےلئے اس سے بڑھ کر اور کیاخوشی ہو سکتی تھی ؟؟چنانچہ فوراً ضروری انتظامات کر کے سیدہؓ کا نکاح سرور کائنات ﷺسے کر دیا۔
جناب ابوبکرؓ حضرت عمر ؓسے ملے اور فرمایا عمر ! تم نے مجھ سے حفصہ ؓکے نکاح کا کہا تھا میں خاموش تھا تم کو ضرور ناگوار گزرا ہوگا لیکن اصل معاملہ یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ اس کاذکر کیا تھا اور اپنی خواہش کا اظہار فرمایا تھا اس لئے میں اس راز کو فاش نہیں کرنا چاہتا تھا۔ عمر! اگر رسول اللہ ﷺ کا ان سے نکاح کا ارادہ نہ فرماتے تو میں ضرور حفصہ ؓ سے نکاح کرلیتا۔
علم وفضل: خانوادہ عمر ؓسے خانوادہ نبوت ﷺکا سفر طے کرکے سیدہ اپنی زندگی کو قیمتی بنا چکی تھیں اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ ہے کہ آپ سے ۶۰ احادیث نبویہ منقول ہیں جوآپ نے آنحضرت ﷺ سے سنی تھیں۔
ایک دن آپﷺ فرمانے لگےمیں امید کرتا ہوں کہ بد راور حدیبیہ والے جہنم میں داخل نہ ہوں گے۔ سیدہ ؓنے تعجباً استفسار کیا :قرآن میں ہے۔
’’وان منکم الاوارد ھا‘‘
تم میں سے ہر شخص وارد جہنم ہوگا، آپ ﷺنے تبسم فرماکر جواب دیا:’’ ہاں! لیکن آگے
ثم ننجی الذین اتقوا ونذرالظالمین فیھا جثیا‘‘
بھی تو ہے۔(کہ ہم پرہیز گاروں کا نجات دیں گےا ور ظالموں کو اس میں دو زانوں گرائیں گے)
آنحضرت ﷺ نے کسی بات پر آپ ؓ کو ایک طلاق دے دی۔جبرائیل امین نازل ہوئے اور آکر عرض کیا:’’ یارسول اللہ ﷺ! حضرت حفصہ ؓ ’’صوامۃ قوامۃ‘‘بہت روزہ رکھنے والی ، نماز پڑھنے والی ہے اور جنت میں آپ ﷺکی زوجہ ہیں ،آپ رجوع کرلیں۔ چنانچہ آپ ﷺنے رجوع کر لیاآپ ﷺ کا ارشاد ہے :’’میری اس دنیا کی بیویاں میری جنت میں بھی بیویاں ہوں گی۔‘‘
صفحات کا دامن تنگی کا شکوہ زبان پر لا رہا ہے ورنہ آپ کے فضائل ومناقب،علم وفضل ،اخلاق ، تقوی وورع،اخلاص وللہیت کے نہ ختم ہونے والے واقعات میرے سامنے قطار باندھے کھڑے ہیں۔
وفات : سیدناامیر معاویہ ؓ کا زمانہ تھا جب سیدہ ؓنے’’ ازایں جہاں بسوئے آں جہا ں‘‘ روانگی کا سفر باندھا مروان بن حکم جو اس وقت مدینہ منورہ کے گورنر تھے ،نے جنازہ پڑھایا۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ جنت البقیع لے گئے اور مومنوں کی اس ماں نے کفن کی چادر لپیٹے خود کو خدا کے حضور پیش کردیا۔ رضی اللہ عنھا
بے پردہ عورتوں کا انجام رومان اللہ،لاہور
واقعہ : حضرت علی اور حضرت فاطمہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم اللہ کے رسول کے پاس تشریف لے گئے تو آپ بہت زیادہ رورہے تھےوہ فرماتے ہیں کہ آج تک ہم نے آپ کو اتنا روتے ہوئے نہیں دیکھا چنانچہ آپ کو اسی حالت میں دیکھ رہتے تھے ہمیں افسوس بھی ہورہا تھا اور تعجب بھی ہورہا تھا۔
حضرت علی فرماتے ہیں میں آپ کے پاس آگیا اور فرمایا کہ آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔
اے اللہ کے رسول : کیاوجہ ہے آپ اتنا رورہے ہیں آپ نے فرمایا کہ جب میں شب معراج کے دن جہنم دیکھنے کے لئے گیا تو میں سب سے زیادہ عورتوں کو پاتا ہوں اس میں۔ ایک عورت کے بارے میں فرمایا اس کا آدھا جسم گدھے جیسا تھا حضرت علی فرماتے ہیں میں نے وجہ پوچھی آپ نے فرمایا کہ یہ دنیا میں بےپردہ رہتی تھی اور چست تنگ لباس پہنتی تھی بے پردگی کی وجہ سے عذاب ہورہا ہے