نقصان دہ محبت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
نقصان دہ محبت
نتاشہ خان
فرحان بیگ عامر کوپیٹتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے کیوں ماررہے ہیں اسے آپ چھوٹی سی بات پرمارنا تو آپ کی عادت ہے بیگم فرحان غصے سے عامر کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے بولیں۔
فرحان بیگ سکول ٹیچر تھے۔ بیگم فرحان بہت سخت طبعیت کی مالک تھیں اسی لئے شادی کو دوسرے سال ہی سسرال سے علیحدگی اختیار کرلی عامراس کی اکلوتی اولاد تھا ان کا گھرانہ صرف تین افراد پر مشتمل تھا عامر کی وجہ سے ان کی آپس میں روزانہ لڑائی ہوتی کیونکہ عامر انتہائی درجے کا بد تمیز تھا دوسروں کی گھنٹی بجانا لڑائی جھگڑے کرنا،بلاوجہ بچوں کو مارکربھاگنا تو اس کے لئے معمولی کام تھے اسی لئے اسے سکول میں نمبرون شرارتی کہا جاتاہے۔ قریب تھا کہ فرحان مار،پیٹ کر عامر سے توبہ کروائے۔لیکن بیگم فرحان نے اسے بچا لیا شرارت کرنے کے بعد فرحان کا عامر کو مارنا اور بیگم فرحان کا بچانا روزانہ کامعمول بن چکا تھا۔
چار بجے گئے ہیں، لیکن ابھی تک عامر نہیں آیا حالانکہ اسے اسکول سےتو دو بجے چھٹی ہوتی ہے فرحان نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ دروازے پر گھنٹی بجی دروازہ کھلاتو سامنے عامر تھا۔
اتنی دیر سے کیوں آئے ہو ؟ابھی تک کہاں تھے سوال شروع ہونے سے پہلے ہی بیگم فرحان آگئیں اورعامر سے بیگ لینے لگیں اگرتم نے آج نہ بتایا کہ کہاں تھے تو میں تمہارا وہ حال کروں گا کہ تجھے ساری زندگی یہ دن یاد آئے گا فرحان بیگ چلا چلا کراسے ڈانٹ رہاتھا۔
کرلیں جو کچھ آپ نے کرناہے اب تو میں روزانہ اسی ٹائم ہی آؤں گا۔فرحان بیگ اسے مارنے کے لئے اٹھے ہی تھے کہ بیگم فرحان عامر کو کمرے میں لے گئیں۔
میرا بیٹامجھے ایسا جواب دے گا میں تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا فرحان سوچنے لگ گیا۔
ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ رات کو دروازے کی گھنٹی بجی کو ن ہے بھائی رات کے دس بجے بھی دوسروں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے شرم نہیں آتی بیگم فرحان بولیں۔
پولیس۔۔۔ باہر سے آواز آئی۔
لیکن۔۔۔ یہاں کیا کام ہے پولیس کا۔
عامر کو باہر بھیجو پتا چل جائے گا کیا کام ہے۔
اتنے میں فرحان بیگ نے دروازہ کھولا۔
پولیس نے جھٹ عامر کو پکڑااور ہتھکڑی پہنادی۔
کیا قصور ہے میرے بیٹے کا؟بیگم فرحان نے کہا۔
پولیس والے نے طنزیہ لہجے میں کہا،آپ کا شہزادہ قتل کرکے آیا ہے وہ بھی چوہدری کے بیٹے انسپکٹرکا۔بیگم فرحان بولیں نہیں میرا بیٹا ایسے نہیں کرسکتا جوکچھ بھی ہو جائے یہ ایسا نہیں کرسکتا۔
انسپکٹر بولا یہ کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کرسکتا یہ تو تھانے جاکر ہیں پتا چلے گا۔
پولیس عامر کو لے کر چلی گئی فرحان اور اس کی بیوی چلاتے رہ گئے۔
مشہور کہاوت کہ طوطی کی کون سنتاہے نقارخانے میں
لیکن پورا مہینہ عامر کی رہائی کے لئے بھاگ دوڑ میں گزر گیا۔
فرحان بیگ کبھی عدالت میں ہوتے کبھی فیض چوہدری کے گھر جب کہ بیگم فرحان صدمے سے بیمارہوچکی تھیں ایک دن کسی نے عامر کا خط لاکر دیا بیگم فرحان بے قراری میں اسے کھول کر پڑھنے لگیں۔
پیاری امی جان:
مجھے معلوم ہے کہ آپ مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں آپ میری خاطر چھوٹی چھوٹی بات پر ابو سے لڑتی تھیں اور ہمیشہ میری طرف داری کرتی تھیں اسی وجہ سے میں دن بہ دن لاپرواہ ہوتاگیااوربڑے سے بڑے جرم کو چھوٹاسمجھنے لگا آپ کو یہ سن کر یقین تونہیں آئے گا، لیکن یہ سچ ہے کہ میں نے قتل کیا ہے ،کیونکہ چوہدری کے بیٹے کے ساتھ میرا میچ تھا مجھے معلوم تھا کہ وہی جیتے گا چونکہ وہ سینئر اور میں جونئیر کھلاڑی تھا اورواقعی وہ یہ میچ جیت گیا میں نے غصے میں آکر دوستوں کے کہنے پر اسے چائے میں زہر ملا کرماردیا۔
بعد میں انہوں نے ہی پولیس کو اطلاع دے دی حالانکہ یہ مشورہ بھی انہوں نے دیا تھا، اب مجھے یہ احساس ہو رہا ہے، کہ کاش میں گندے دوستوں کی محبت میں نہ بیٹھتا تو آج یہ سب کچھ نہ ہوتا اور اس جرم میں آپ بھی برابر کی حق دار ہیں۔کیونکہ اگر آپ مجھے اس وقت روکتیں تو میں اس جگہ پر کبھی نہ ہوتا امی چوہدری صاحب کو اگرکوئی گالی دے تو وہ اسے قتل کردیتا ہے میں نے تو اس کے بیٹے کو قتل کیا ہے میں اب کبھی نہیں بچ سکتا۔امی جان ،ابوجان کو میرا سلام کہیے گا۔
والسلام
آپ کا بیٹا عامر
خط پڑھ کر وہ زور زورسے دھاڑیں مارکررونے لگیں عامر قاتل نہیں ہے ،بلکہ میں قاتل ہوں، میں قاتل ہوں،فرحان بھی حوصلہ دینے کے سوا کیاکرسکتے تھے اب صرف پچھتاوارہ گیا تھا۔
مشہور کہاوت کہ

اب پچھتائے کیاہوت جب چگ گئیں چڑیاں کھیت۔