ختم نبوت کا پاسبان

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ختم نبوت کا پاسبان
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
بقا صرف اللہ کی ذات کو ہے باقی سب کو موت کے دروازے، برزخ جانا ہے۔ خوش نصیب تو وہ ہے جس کا موت بھی استقبال کرے ....ہاں! یہ خوش نصیبی اولیاءاللہ کی صحبت سے بہت جلد مل جاتی ہے۔ ....قافلہ راہ روان وفاکے سر خیل شیخ الاسلام مولاناسید حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ کے تلمیذ خاص مولانا خواجہ خان محمد رحمة اللہ علیہ بھی انہی خوش نصیب ہستیوں میں سے تھے۔سچ کہوں!لکھنا کوئی دشوار کام نہیں....لیکن....ایسی بر گزیدہ شخصیات کی زندگی پر خالی صفحات کا سامنا میرے لیے بہت مشکل ہوتاہے ....مجھے احساس ہوتا ہے کہ پاکیزہ سیرت پر میرے قلم کی طبع آزمائی مخمل پر ٹاٹ کے پیوند کا نقشہ لائے گی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے ذکر کے بغیر دل کو چین نہیں آتا اس لیے چند سطور لکھنے بیٹھ گیاہوں۔
آج سے ۸۹ سال قبل خواجہ عمررحمة اللہ علیہ کے گھرانے میں ایک بچے (خواجہ خان محمدرحمة اللہ علیہ)نے آنکھ کھولی....جو5 مئی کی شام ہمیشہ کے لیے بند ہوگئی....کسے خبر تھی کہ کل کو یہ عوام وخواص کا مرجع بن جائے گا اور رشد وہدایت کی ایسی نہریں بہائے گا کہ ایک خلقت اس سے سیراب ہوگی۔ بچپنے سے جوانی تک کی مسافت طے کی تومرکز علم و عرفان دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا جہاں آپ کی زندگی میں انقلابی تبدیلیوں نے جگہ لی۔آپ نے جہاں علم وآگہی کے موتی چنے وہاں طریقت کے چشمہ سے بھی خوب پیاس بجھائی۔
جب سینہ مبارک علم کے نور اور معرفت وطریقت سے معمور ہواتوآپ نے اپنے آبائی وطن میانوالی کا رخ کیااورخانقاہ سراجیہ کندیاں کی مسند ارشاد کو رونق بخشی اورسالکین کو معرفت حق کی مے بھر بھر پلانے لگے ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق فیض یاب ہوتا رہا۔
حضرت کے چہرہ کو جب کبھی تصور میں لانے کی کوشش کرتا ہوں تو ہلکی سی نمی آنکھوں میں پھیل جاتی ہے اور اسی نمی میںان کا چمکتا چہرہ نظر آنے لگتاہے کافی دیر تک آنکھوں میں بنے حلقے اس چہرے کا طواف کرتے ہیں اور پھر........
کبھی سوچتا ہوں کہ لوگ”ایسے“کیسے بن جاتے ہیں ؟تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی کہہ رہا ہے :”دیکھتے نہیں ہوکہ انہوں نے کس مشقت سے زندگی کے دن کاٹے تھے،عقیدہ ختم نبوت پر قربانیوں کی داستان جب پس دیوار زنداں رقم کررہے تھے تم نے ان کے اس حال کوکیوں نہیں دیکھا۔تزکیہ نفس کے کٹھن مراحل کس طرح عبور کیے یہ تمہاری نظروں سے اوجھل کیوں ہے ؟
وہ دیکھو65 سال بلاناغہ حرمین شریفین کا سفر بیت اللہ پر حاضری کے بعد اپنے آقا ﷺکے حضور درود وسلام کے زمزمے ،تم کو کیوں نہیں سنائی دیتے؟ایک شخص کی نہیں ہزاروں، لاکھوں افراد کی اصلاح، بھولے بھٹکے لوگوں کوجادہ مستقیم پر لانا،عبادت وریاضت، سلوک واحسان کے زینے چڑھتے چڑھتے کیا وہ اس مقام پر نہیں پہنچیں گے ؟
آج تو محبت کے پیمانے بدلتے جارہے ہیں،خوشامد کی وبانے عقیدت کے گلوں کو یوں مسل دیا ہے کہ عقیدت مندوں کے ہجوم میں بہت کم کسی کی پیشانی روشن دکھائی دیتی ہے حقیقت یہ ہے کہ حضرت کی زندگی کو اپنایا جائے اور اپنا دل ودماغ پاک صاف رکھا جائے ،رہن سہن،بودوباش کو اسلامی تعلیمات پرڈھالاجائے۔عقیدے اور مسلک کی محنت پر زندگی کھپائی جائے ورنہ محض الفاظ کی جمع پونچی سے عمل کے پھول نہیں کھل سکتے۔یہ بات ممکن عجیب محسوس ہو!!لیکن کیا کروں ؟حقیقت یہی ہے۔ جب تک ان کی تعلیم اپنائی نہ جائے آدمی اللہ کے ہاں ان کے محبین کی فہرست میں شامل نہیں ہوسکتا۔
بے ربط اور بے کیف سی تحریر میری اس بات کی دلیل بنے جا رہی ہے جسے شروع میں عرض کر چکا ہوں۔ میں اپنے قلم میں وہ زباں کہاں سے لاﺅں جس سے الفاظ جنم لے کر ان کی مدح سرائی کر سکیں۔ اللہ رب العزت آپ کی قبرکو روشن فرمائے اور ہم سب کو اپنے پیاروں کافرمانبردار بنائے۔