ظہیرالدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ظہیرالدین محمد بابر
امان اللہ کاظم'لیہ
اس بات سے قطع نظرکہ خدا جانے کل کیا رونما ہونے والا تھا اور کون کس کا ساتھی اور کون کس کے مد مقابل آنے والا تھا ہر شخص ایک ہی رومیں بہتا چلا جارہا تھا اندرجان کی فضا نفیریوں دفوں ڈھولوں اورنقاروں کی بے ہنگم آوزوں گونج رہی تھی دعوتوں اور ضیافتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلا تھا جو تھمنے کانام ہی نہیں لیتا تھا۔
چالیس روز تک یہ محافل ناﺅ نو ش اور ہاﺅنہ اپنے عروج پر رہیں ہر شخص اپنی بساط بھر پوری طرح لطف اندوز ہوا۔نومولود کی پیدائش سے متعلق مروجہ رسوم نبھائی گئیں محمدبابر کی نانی دولت بیگم نواسے کی بلائیں لیتی نہیں تھکتی تھی وہ ہر آن اسے اپنی باہوں کے حصار میں لیے رکھتی تھی اور اس کے گال پر کاجل کاکالا ٹکہ لگانا نہیں بھولتی تھی تاکہ اس کے گمان کے مطابق ننھا بابر بد نظروں کی نظر بد سے محفوظ رہے پھر وہ دن بھی آپہنچا جب مہمان اپنے اپنے گھروں کی طرف جانے لیے کمربستہ ہوئے۔ قافلوں پہ قافلے جدھر سے آئے تھے ادھر کو سدھارنے لگے دیکھتے اندرجان خالی ہوگیا اور اس کی فضاﺅں پر اک سکوت طاری ہوگیا۔
یونس خان مغلستان کی طرف جانے کی بجائے تاشقند کی طرف چلا گیا مگر کچھ ہی عرصہ بعد اس کا انتقال بھی ہوگیا یونس خان کو عمر شیخ مرزا سے بہت محبت تھی بجاطور پر وہ عمر شیخ کا محافظ بھی تھا اس کے انتقال کے بعد عمر شیخ مرزا ایک بہت بڑے سہارے سے محروم ہوگیا یوں لگتاتھا جیسے یونس خان مرنے کے لئے بس تیار ہی بیٹھا تھااسے فقط محمد بابر کی پیدائش کا انتظار تھا گویا انتظارپورا ہوا اور اس نے ملک عدم کی راہ ناپی۔
محمد بابر کی رگوں میں باپ کی طرح سے تیموری اور ماں کی طرف سے چنگیزی خون دوڑرہا تھا گویاجہاں اسے تیموری شجاعت، بے باکی اور حالات سے نبردآزما ہونے جیسی خوبیاں نصیب ہوئیں وہاں اسے خطرات سے کھیلنے جیسی خوبیاں، منگولوں جیسی چالاکی اور موقع شناسی ورثے میں ملیں۔
یونس خان کے مرتے ہی مغلستان مسائلستان بن گیا اس نے خانودہ تیموریہ سے وقتاً فوقتاً جو علاقے ہتھیائے تھے ان کی ملکیت کا تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا چونکہ قبل ازیں وہ علاقے عمر شیخ مرزاہی کے دائرہ اختیار میں تھے اس لیے ان علاقوں پر اخلاقاً و قانوناً عمر شیخ مرزا کا حق دوسرے دعویداروں پر فائق تھا مگر یونس خان کے حقیقی وارث، عمر شیخ مرزا کا یہ حق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ بنا بریں اس تنازعے نے ایک ایسے جنگ وجدل کی صورت اختیار کر لی جس کے اختتام اور نتیجے سے متعلق کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی تھی۔
اسی جنگ وجدل اور مخاصمت ومقاومت کی پر آشوب فضا میںبابر نے پروان چڑھنا شروع کیا۔بابر کی نانی نے اپنے نواسے کی اتا لیقی کے فرائض سنبھال رکھے تھے کیونکہ یونس خان کی وفات کے بعدوہ اندر جان میں اپنی چہیتی بیٹی کے لیے ٹک گئی تھی وہ اس ننھے سے تاتاری پلس PLUSچغتائی کو منگولوں کے رسوم ورواج، ان کی شجاعت اور ان کے طریق ہائے کشور کشائی وجہانبانی کی داستانیں سنایا کرتی تھی تاکہ ننھے شہزادے کے ذہن میں یہ بات جاگزیں ہوجائے کہ ایک شجاع اور متوکل انسان کو ظاہری وسائل اور دوسروں کی مدد پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اس عالم رنگ وبو میں صرف وہی لوگ کامیاب وکامران اور عظیم کہلاتے ہیںجنہوں نے عدم وسائل کے باوجود اپنی قوت بازو پر انحصارکیا ہے اور اپنے لیے وسائل خود پیدا کیے ہیں۔دولت بیگم ننھے بابر کے ناپختہ ذہن میں ہمیشہ یہ بات ٹھونسنے کی کوشش کرتی رہتی تھی کہ :
”تیرے بڑے ناناچنگیز خان نے منگولیا کے ایک چھوٹے سے قبیلے کا فرد ہونے کے باوجود اپنی خفتہ صلاحتوں کو بروئے کار لا کر منگولیاکے خانہ بدوش قبائل کو ایک مرکز پر جمع کیا، ان کی دشمنی کی حد تک بڑھی ہوئی بیگانیگی کو یگانگت میں بدل دیا، وحشی منگولوں کو ”یاسا“جیسایکتائے روزگار آئین دیا اور پھر اس آئین کا من وعن نفاذ بھی کیا۔یہی وہ آئین تھا جس کے بل بوتے پر اجڈ منگول دیکھتے ہی دیکھتے مہذب دنیا پر چھا گئے خاقان اعظم چنگیز خان کے جانشینوں نے بھی فتوحات کے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا۔ خان اعظم کے ان جانشینوں میں تولائی خان، جوچی خان باتوخان،قبلائی خان اور ہلاکو خان جیسے ناقابل شکست لوگ شامل تھے جنہوں نے دنیا سے اپنی قوت وحشمت کا لوہا منوایا۔آج تک دنیا ان کے نام سے کانپتی ہے تمہیں بھی اپنے ننھیالی اجداد کے نقوش پا پر چلتے ہوئے ایک عالم کو لرزہ براندام کرنا ہے۔ “
ننھا بابر جس کاننھاذہن ایسی ثقیل باتیں ہضم کرنے کے قابل نہیں تھا اپنی نانی اماں کاصرف منہ تکتا ہی رہ جاتا تھا دولت بیگم کے برعکس اس کے داماد عمر شیخ مرزا کو اپنی خوش دامن کی باتوں سے سراسر اختلاف تھا۔ اس کے نزدیک اس کا دادا امیر تیمور چنگیز خان سے بڑا فاتح تھا اپنی جسمانی معذوری کے باوجود اس نے ایسے کارہائے نمایا ںانجام دیے تھے جنہیں تاریخ کبھی بھلا نہیں سکے گی۔
بعد ازاں ظہیر الدین بابر نے ا پنے کردار وعمل سے یہ بات ثابت کردی کہ اس کی رگوںمیں ایشاءکے دو عظیم فاتحین کا لہو گردش کررہا تھا یہی وجہ تھی کہ اس میں بیک وقت منگولوں جیسی سنگدلی اور شقاوت اور ترکوں جیسی جرات واستقامت موجود تھی جب کہ موروثی صفات کے علاوہ اس کا کردار اہل فارس کی شائستگی اور ثقافتی لطافت سے بھی مزین تھا۔
ظہیر الدین محمد بابر جوں جوںپروان چڑھ رہا تھا اس کا ذہن رسا اپنے خاندانی حالات سے آگاہ ہوتا چلا جارہا تھا اس ننھی عمر میں جس وقت بھی اسے تخلیہ میسر آتا وہ اس سوچ میں ڈوبتا چلا جاتاکہ آخر وہ کونسی وجہ ہے کہ اس کے تایاابااور چاچا اس کے والد محترم سے لڑتے جھگڑتے رہتے تھے اور بعض اوقات تو یہ لڑائی جھگڑے خوفناک جنگ کی صورت بھی اختیار کرلیتے تھے۔
یہ کیسے بھائی تھے؟ایک بھائی دوسرے بھائی کے خلاف ہر وقت صف آرا دکھائی دیتا تھا ایک ہی خاندان کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے جا رہتے تھے حدتویہ ہے کہ اس کے ماموں صاحبان بھی اس باہمی جنگ وجدل کا حصہ بنے ہوئے تھے۔ننھابابر جب اپنی نانی اماں سے اپنے ناپختہ ذہن میں کلبلاتے ہوئے سوالوں کے جوابات جاننے کی کوشش کرتا تو وہ ان تمام سوالوں کا فقط یہی ایک جواب دیتی کہ:
”میرے ننھے منھے بیٹے!بادشاہوں کے کوئی رشتہ دار نہیں ہوتے ،جب تم بڑے ہوکر بادشاہ بنو گے تو تمہیں ان سوالوں کے جوابات از خود معلوم ہوجائیں گے۔ “ یہ ناقبل فہم جواب سن کر ننھے بابرکامنہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ جاتا اور اس کی نظریں نانی اماں کے خشک اور سپاٹ چہرے کا طواف کرتی رہ جاتیں بہت زور دینے کے باوجود اس کا ذہن یہ بات سمجھنے سے قاصر رہ جاتا کہ :
”بادشاہ کا کوئی رشتہ دا رنہیں ہوتا“
وہ خود سے سوال کرتا کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟ کیا بادشاہ انسان نہیںہوتا؟ کیا اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا ؟ اگر دل ہوتاہے تو پھر اس دل میں خون رشتوں کے لیے محبت معدوم کیوں ہوجاتی ہے ؟ ایسے ان گنت سوالات کے جوابات ڈھونڈھتے ڈھونڈتے اس کا ذہن ماﺅف ہوجاتا اور پھر وہ اپنا سر گھٹنوں میں پیوست کرکے گھٹنوں عالم محویت میں ڈوب جاتا۔ نانی اماں ننھے بابر کو جب اس طرح عالم محویت میں ڈوبا ہوا پاتی تو اس کے قریب آکر اس کا سر اس کے گھٹنوں سے نکال کراپنے زانووں پر رکھ لیتی اور پیار سے سمجھاتے ہوئے کہتی:۔
”میرے ننھے شہزادے تیرے چھوٹے سے ذہن میں ابھی باتیں سمانے والی نہیں ایسے سوالا ت مت سوچو جن کے جوابات تیرے پاس نہیں جب تو بادشاہ بنے گا تو پھر تجھے ان تمام سوالوں کے جواب از خود مل جائیں گے۔“
آہستہ آہستہ زندگی کی شاہر ہ پر آگے بڑھتے ہوئے بابرکے لیے ہر نیادن ایک نئی کہانی اورایک نیا پیغام لے کر آتا تھا اس کے باپ کے پاس وسائل کمی اس کی تعلیم وتربیت کے آڑے آرہی تھی لیکن ظہیر الدین بابرپوری لگن سے اپنے تربیتی مراحل کوطے کر رہا تھا۔