مرید پور کا پیر

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
مرید پور کا پیر
پطرس بخاری
کچھ عرصے بعد خون کی خرابی کی وجہ سے ملک میں جابجا جلسے نکل آئے جس کسی کو ایک میز ایک کرسی اور ایک گلدان میسر آیا،اسی نے جلسے کااعلان کردیا۔ جلسوں کے اس موسم میں ایک دن ”مرید پور“ کی انجمن نوجوانان ہند کی طرف سے میرے نام اس مضمون کا ایک خط موصول ہوا: ” آپ کے شہر کے لوگ آپ کے دیدا رکے منتظر ہیں ہر کہ دمہ آپ کے روئے انور کو دیکھنے اور آپ کے پاکیزہ خیالات سے مستفید ہونے کے لیے بے تاب ہیں مانا ملک بھر کو آپ کی ذات بابرکات کی از حد ضرورت ہے لیکن وطن کا حق سب سے زیادہ ہے کیونکہ
خار وطن از سنبل و ریحان خوشتر
اسی طرح کی تین چار براہین قاطعہ کے بعد مجھ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ آپ یہاں آکر لوگوں کو ہندو،مسلم اتحاد کی تلقین کریں۔
خط پڑھ کر میری حیرت کی کوئی انتہاءنہ رہی لیکن جب ٹھنڈے دل سے اس پر غور کیا تو رفتہ رفتہ باشندگان” مرید پور“ کی مردم شناسی کا قائل ہوگیا۔ میں ایک کمزور انسان ہوں اور پھر لیڈری کا نشہ ایک لمحے میں چڑھ جاتاہے اس ایک لمحے کے اندر مجھے اپنا وطن بہت ہی پیارا معلوم ہونے لگا،اہل وطن کی بے حسی پر بڑا ترس آیا۔ ایک آواز نے کہا :”ان بیچاروں کی بہبودی اور رہنمائی کا ذمہ دارتو ہی ہے تجھے خدانے تدبیر کی قوت بخشی ہے ہزارہا انسان تیرے منتظر ہیں۔اٹھ! کہ سینکڑوں لوگ تیرے لئے ما حضر لیے بیٹھے ہوں گے۔ “چنانچہ میں نے ”مرید پور“کی دعوت قبول کر لی اور لیڈرانہ انداز میں بذریعہ تار اطلاع دی کہ پندرہ دن کے بعد فلاں ٹرین سے مرید پور پہنچ جاﺅں گا سٹیشن پر کوئی شخص نہ آئے۔ ہر ایک شخص کو چاہیے کہ اپنے اپنے کام میں مصروف رہے۔ ہندوستان کو اس وقت عمل کی ضرورت ہے۔
اس کے بعد جلسے کے دن تک میں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنی ہونے والی تقریر کی تیاری میں صرف کر دیا طرح طرح کے فقرے دماغ میں صبح وشام پھرتے رہے۔”ہندو اور مسلم بھائی بھائی ہیں،ہنداور مسلم شیروشکر ہیں ،ہندوستان کی گاڑی کے دو پہیے اے میرے دوستو! ہندواور مسلمان ہی تو ہیں ،جن قوموں نے اتفاق کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا وہ اس وقت تہذیب کے نصف النہار پر ہیں جنہوں نے نفاق اور پھوٹ کی طرف رجوح کیا تاریخ نے ان کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں۔“وغیرہ وغیرہ۔
بچپن کے زمانے میں کسی درسی کتاب میں”سنا ہے کہ دو بیل رہتے تھے اک جا“والا واقعہ پڑھا تھا اسے نکال کر نئے سرے سے پڑھا اوراس کی تمام تفصیلات کو نوٹ کرلیا پھر یاد آیا کہ ایک اور کہانی بھی پڑھی تھی جس میں ایک شخص مرتے وقت اپنے تمام لڑکوں کوبلا کر لکڑیوں کا ایک گھٹا ان کے سامنے رکھ دیتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ اس گھٹے کو توڑو! وہ توڑ نہیں سکے پھر اس گھٹے کو کھول کر ایک ایک لکڑی ان سب کے ہاتھ میں دیتا جسے وہ آسانی سے توڑ لیتے ہیں اس طرح وہ اتفاق کا سبق اپنی اولاد کی ذہن نشین کراتا ہے ،اس کہانی کو بھی لکھ لیا۔ تقریر کا آغاز سوچا تو کچھ اس طرح کی تمہید مناسب معلوم ہوئی کہ
پیارے ہم وطنو!
گھٹا سر پہ ادبار کی چھارہی ہے
فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس وپیش منڈلا رہی ہے
یہ چاروں طرف سے ندا آرہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم
ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم
ہندوستان کے جس مایہ ناز شاعر یعنی مولانا الطاف حسین حالی نے آج سے کئی برس پیشتر یہ اشعار قلم بند کیے تھے اس کو کیا معلوم تھا کہ جوں جوںزمانہ گزرتا جائے گا اس کے لیے یہ الم ناک الفاظ روز بروز صحیح تر ہوتے جائیں گے آج ہندوستان کی یہ حالت ہے....وغیرہ وغیرہ۔
اس کے بعد سوچا کہ ہندوستان کی حالت کا ایک درد ناک نقشہ کھینچوں گا، افلاس غربت اور بغض وغیرہ کی طرف اشارہ کروں گا اور پھر پوچھوں گا کہ اس کی وجہ آخر کیا ہے ؟ان تمام وجوہ کو دہراﺅں گا جو لوگ اکثر بیان کرتے ہیں۔ مثلاً غیرملکی حکومت ،آب وہوا اور مغربی تہذیب لیکن ان سب کو باری باری غلط قراردوں گا اور پھر اصلی وجہ بتاﺅں گا کہ اصل وجہ ہندوﺅں اور مسلمانوں کا نفاق ہے آخر میں اتحاد کی نصیحت کروں گا اور تقریر کو اس شعر پرختم کروں گاکہ
آعند لیب مل کر کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاﺅں ہائے دل
دس بارہ دن اچھی طرح غور کرلینے کے بعد میں نے اس تقریر کا ایک خاکہ سابنا لیا اور اس کو ایک کاغذ پرنوٹ کرلیا۔تاکہ جلسے میں اسے اپنے سامنے رکھ کرتقریرکر سکوں۔وہ خاکہ کچھ یوں ہے:
1: تمہید۔اشعار حالی(بلنددردناک آوز سے پڑھو)
2: ہندوستان کی موجودہ حالت
(الف) افلاس
(ب) بغض
(ج) قومی رہنماﺅں کی خود غرضی
3: اس کی وجہ کیا غیرملکی حکومت ہے ؟نہیں
کیا آب وہوا ہے ؟ نہیں
کیا مغربی تہذیب ہے؟نہیں
تو پھر کیا ہے؟(وقفہ جس کے دوران میں مسکراتے ہوئے تمام حاضرین جلسہ پر ایک نظر ڈالوں)
4: بتاﺅں کہ کس وجہ سے ہندوﺅں اور مسلمانوں کا نفاق ہے۔(نعروں کے لیے وقفہ) اس کا نقشہ کھینچوں فسادات وغیرہ کا ذکر کے حیرت انگیز آواز میں کروں۔
(اس کے بعد شاید چند نعرے بلند ہوں ان کے لیے ذراٹھہرجاﺅں)
5: خاتمہ۔عام نصائح۔خصوصاً اتحاد کی تلقین(شعر)
(اس کے بعد انکسار ی کے انداز میں جاکر اپنی کرسی پر بیٹھ جاﺅں اور لوگوں کی داد کے جواب میں ایک ایک لمحے کے بعد حاضرین کو سلام کرتا رہوںگا۔)
اس خاکے کو تیار کرچکنے کے بعد جلسے کے دن تک ہر روز اس پر ایک نظر ڈالتا رہا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر بعض معرکةالآراءفقروں کی مشق کرتا رہا نمبر3کے بعد کی مسکراہٹ کی خاص مشق بہم پہنچائی، کھڑے ہوکر دائیں سے بائیں گھومنے کی عادت ڈالی تاکہ تقریر کے دوران میںآواز سب طرف پہنچ سکے اور سب لوگ اطمینان کے ساتھ ایک ایک لفظ سن لیں۔
”مرید پور“ کا سفر آٹھ گھنٹے کا تھا۔ راستے میں سانگا کے سٹیشن پر گاڑی بدلنی پڑتی تھی انجمن نوجوانان ہند کے بعض جوشیلے ارکان وہاں استقبال کوآئے ہوئے تھے انہوں نے ہار پہنائے اور کچھ پھل وغیرہ کھانے کو دیے۔سانگا سے” مرید پور “تک ان کے ساتھ اہم سیاسی مسائل پر بحث کرتا رہا جب گاڑی” مرید پور“ پہنچی تواسٹیشن کے باہر کم از کم تین ہزار آدمیوں کا ہجوم تھا جو متواتر نعرے لگا رہا تھا میرے ساتھ جو”و النٹیر“ تھے انہوںنے کہا سر باہر نکالئے !لوگ دیکھنا چاہتے ہیں میں نے حکم کی تعمیل کی ہار میرے گلے میں تھے ایک سنگترہ میرے ہاتھ میں تھا مجھے دیکھا تو لوگ اور بھی جوش کے ساتھ نعرہ زن ہوئے بمشکل تمام باہر نکلا ،موٹر پر بٹھاکر جلسہ گاہ کی طرف چلا۔
جلسہ گاہ میں داخل ہوئے تو ہجوم پانچ چھ ہزار تک پہنچ چکا تھا جو یک آواز ہو کر میرا نام لے لے کر نعرے لگاتا رہا، دائیں بائیں سرخ سرخ جھنڈوں پر مجھ خاکسار کی تعریف میں چند کلمات بھی درج تھے۔ مثلاً” ہندوستان کی نجات تمہی سے ہے “
”مرید پور کے فرزند خوش آمدید“
”ہندوستا ن کو اس وقت عمل کی ضرورت ہے“
مجھ کو اسٹیج پر بٹھایا گیا، صدر جلسہ نے لوگوں کے سامنے مجھ سے بغل گیر ہوکر میری پیشانی کو بوسہ دیا اور پھر اپنی تعریفی تقریریو ں شروع کی :
”حضرات! ہندوستان کے جس نامی گرامی اور بلند پایہ لیڈر کو آج کے جلسے میں تقریر کرنے کے لیے بلایا گیاہے....“
یہ لفظ سن کر میں نے تقریر کے تمہیدی فقروں کو یاد کرنے کی کوشش کی لیکن اس وقت ذہن اس قدر مختلف تاثرات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا کہ نوٹ دیکھنے کی ضرورت پڑی۔ جیب میں ہاتھ ڈالا توہاتھ پاﺅں میں یک لخت ایک خفیف سی خنکی محسوس ہوئی، دل کو سنبھالا کہ ٹھہرو ابھی اور کئی جیبیں ہیں ،گھبراﺅنہیں! رعشے کے عالم میں سب جیبیں دیکھ ڈالیں لیکن وہ کاغذ کہیں نہ ملا۔ تمام ہال آنکھوں کے سامنے چکرکھانے لگا، دل نے زور زور سے دھڑکنا شروع کیا۔ہونٹ خشک ہوتے محسوس ہوئے۔ دس بارہ دفعہ تمام جیبوں کو ٹٹولا لیکن کچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔ جی چاہا کہ زور زورسے رونا شروع کردوں بے بسی سے ہونٹ کاٹنے لگا۔ صدر جلسہ اپنی تقریربرابر کررہے تھے:
”مرید پور کا شہر ان پر جتنا بھی فخر کرے ،کم ہے۔ ہر صدی اور ہر ملک میں صرف چند ہی ایسے پیدا ہوتے ہیں جن کی ذات نوع انسانی کے لیے....“
خدایا !اب میں کیا کروں ؟ایک تو ہندوستا ن کی حالت کا نقشہ کھینچنا ہے، نہیں! اس سے پہلے یہ بتانا ہے کہ ہم کتنے نالائق ہیں۔ نالائق کا لفظ غیرموزوں ہوگاجاہل کہنا چاہیے یہ بھی ٹھیک نہیں غیر مہذب....
”ان کی اعلی سیاست دانی ان کا قومی جوش اور مخلصانہ ہمدردی سے کون واقف نہیں؟یہ سب باتیں تو خیر آپ جانتے ہیں لیکن تقریر کرنے میں جو ملکہ ان کو حاصل ہے....“صدرجلسہ برابر کہہ رہے تھے۔
ہاں وہ تقریر کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ہندومسلم اتحاد پر تقریر چند نصیحتیں ضرور کرنی ہیں لیکن وہ توآخر میں ہیں وہ بیچ میں مسکرانا کہاں تھا؟
”میں آپ کو یقین دلاتا ہوںکہ آپ کے دل ہلا دیں گے اور آپ کو خون کے آنسو رلائیں گے....“صدر جلسہ کی آواز نعروں میں ڈوب گئی۔
دنیا میری آنکھوں کے سامنے تاریک ہورہی تھی اتنے میں صدرجلسہ نے مجھ سے کہا مجھے الفاظ بالکل سنائی نہ دیے اتنا محسوس ہوا کہ تقریر کا وقت سر پرآن پہنچا ہے اور مجھے اپنی نشست پر سے اٹھنا ہے چنانچہ ایک نامعلوم طاقت کے زیر اثر اٹھا، کچھ لڑکھڑایالیکن پھر سنبھل گیا میرا ہاتھ کانپ رہا تھا ہال میں ایک شور تھا میں بیہوشی سے ذرا ہی دور تھا اور نعروں کی گونج ان لہروں کے شور کی طرح سنائی دے رہی تھیں جو ڈوبتے ہوئے انسان کے سر پر سے گزررہی ہوں۔
تقریر شروع کہاں سے ہوتی ہے؟لیڈرں کی خود غرضی بھی ضرور بیان کرنی ہے اور کیا کہنا ہے؟ایک کہانی بھی تھی بگلے اور لومڑی کی کہانی نہیں ٹھیک ہے دو بیل....“
اتنے میں ہال میں سناٹا چھا گیا لوگ سب میری طرف دیکھ رہے تھے میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور سہارے کے لیے میز کو پکڑ لیا میرا دوسرا ہاتھ بھی کانپ رہا تھاوہ بھی میں نے میز پر رکھ دیا اس وقت معلوم ہورہا تھا جیسے میز بھاگنے کو ہے ا ور میں اسے روکے کھڑا ہوں میں نے آنکھیں کھولیں اور مسکرانے کی کوشش کی گلا خشک تھا بصد مشکل میں نے کہا کہ :
”پیارے ہم وطنو!“
آوز خلاف توقع بہت ہی باریک اور منحنی سی نکلی۔ ایک دو شخص ہنس دیے میں نے گلے کو صاف کیا تو او رکچھ لوگ ہنس پڑے۔ میں نے جی کڑاکے زور سے بولنا شروع کیا پھیپھڑوں پر یک لخت جو یوں زور ڈالا تو آواز بہت ہی بلند نکل آئی، اس پر بہت سے لوگ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ہنسی تھمی تو میں نے کہا :
”پیارے ہم وطنو!“
اب کے لوگوں کی ہنسی سے میں بھنا گیا اپنی توہین پر بڑا غصہ آیا ،ارادہ کیا کہ اس دفعہ جو منہ میں آیا کہہ دوں گا ایک دفعہ تقریر شروع کردوں تو پھر کوئی مشکل نہ رہے گی۔
”پیارے ہم وطنو!بعض لوگ کہتے کہ ہندوستا ن کی آب وہوا خراب یعنی ایسی ہے کہ ہندوستان میں بہت سے نقص ہیں سمجھے آپ؟ (وقفہ....)نقص ہیں لیکن یہ بات یعنی امر جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے گویا چنداں صحیح نہیں....“
” گویا چنداں صحیح نہیں“(قہقہہ)
حواس معطل ہورہے تھے سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آخر تقریر کا سلسلہ کیا تھا؟یک لخت بیلوں کی کہانی یاد آئی اور راستہ کچھ صاف ہوتا دکھائی دیا۔
”ہاں تو بات ا صل یہ ہے کہ ایک جگہ دو بیل اکھٹے رہتے تھے جو باوجود آب وہوا اور غیرملکی حکومت کے.... “(زور کا قہقہہ)
یہاں تک پہنچ کر محسوس کیا کہ کلام کچھ بے ربط سا ہورہا ہے۔ میں نے کہا چلو وہ لکڑی کے گھٹے کی کہانی شروع کردیں۔مثلاً آپ لکڑیوں کے ایک گھٹے کو لیجیے لکڑیاںاکثر مہنگی ملتی ہیں وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں افلاس بہت ہے گویا چونکہ اکثر لوگ غریب ہیں اس لیے گویا لکڑیوں کا گھٹایعنی آپ دیکھئے ناکہ اگر....“(بلند اور طویل قہقہہ)
”حضرات ! اگر آپ نے عقل سے کام نہ لیا تو آپ کی قوم فنا ہوجائے گی نحوست منڈلارہی ہے“(قہقہے اور شورغوغا....اسے باہر نکالوہم نہیں سنتے)
شیخ سعدی نے کہا کہ : چوازقومے یکے بے دانشی کرد(آوز آئی: کیا بکتاہے؟)
”خیر! اس بات کو جانے دیجئے بہر حال اس بات میں تو کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا کہ:
آعندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاﺅں ہائے دل
اس شعر نے دوران خون کو تیز کردیا۔ساتھ ہی لوگوں کا شور بھی زیادہ ہوگیا چنانچہ میںبڑے جوش سے بولنے لگا: ”جوقومیں اس وقت بیداری کے آسمان پر چڑھی ہوئی ہیں ان کی زندگیاں لوگوں کے لیے شاہراہ ہیں اور ان کی حکومتیں چار دانگ عالم کی بنیادیں ہلا رہی ہیں....“(لوگوں کا شور اور ہنسی اور بھی بڑھتی گئی)
”آپ کے لیڈروں کے کانوں پرخود غرضی کی پٹی بندھی ہوئی ہے دنیا کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ زندگی کے وہ تمام شعبے....“
لوگوں کا غوغا اور قہقہے اتنے بلند ہوگئے کہ میں اپنی آواز بھی نہ سن سکتا تھا اکثر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے تھے.... میں سر سے پاﺅں تک کانپ رہا تھا ہجوم میں سے کسی شخص نے پہلے قطرے کی طرح ہمت کرکے سگریٹ کی ایک خالی ڈبیا مجھ پر پھینک دی اس کے بعد چار پانچ کاغذوں کی گولیاں میرے ارد گرد سٹیج پر آگریں لیکن میں نے اپنی تقریر کا سلسلہ جاری رکھا۔
”حضرات ! تم یاد رکھو تم تباہ ہوجاﺅگے....“
”تم دوبیل ہو....“
لیکن جب بوچھاڑ بڑھتی ہی گئی تو میں نے اس نامعقول مجمع سے کنارہ کشی ہی مناسب سمجھی اسٹیج سے پھلانگا اور زقند بھر کے دروازے سے باہر کا رخ کیا ہجوم بھی میرے پیچھے لپکا میں نے مڑکر پیچھے نہ دیکھا بلکہ سیدھا بھاگتا گیا۔
وقتاً فوقتاً بعض نامناسب کلمے میرے کانوں تک پہنچ رہے تھے ان کو سن کر میں نے اپنی رفتار اور بھی تیز کردی اور سیدھاا سٹیشن کا رخ کیا ایک ٹرین پلیٹ فارم پر کھڑی تھی میں بے تحاشا اس میں گھس گیا ایک لمحے کے بعد وہ ٹرین وہاں سے چل دی۔
اس دن کے بعد آج تک نہ ”مرید پور“ والوں نے مجھے مدعو کیا نہ مجھے خود وہاں جانے کی کبھی خواہش پیدا ہوئی ہے۔