پیار کی مار

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پیار کی مار
محمد کلیم اللہ
بچہ محبت کی زبان جلد سمجھتا ہے۔ آپ کی محبت بچے سے مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے مثلا کبھی آپ اس کو سوتے ہوئے بھی جاگنے کے انتظار کیے بغیر اس کا بوسہ لیتی ہیں کبھی ذرا سابچہ رودیا تو فوراً چوم چاٹ کر سہلایا اورلوریاں دے کر نیند کی آغوش میں سلا دیا۔
ہاں!یہ الگ بات ہے کہ جب آپ کام میں مصروف ہوتی ہیں تو پھر فوراً ”منے کے ابا منے کو ذرا دیکھنا“ کے الفاظ آپ بڑی بے ساختگی میں کہہ جاتی ہیں۔ اب ”منے کا ابا“ بیچارہ اسے چپ کرانے کے لیے کئی پاپڑ بیلتا ہے، کبھی اس کے سامنے اوووے اوووے اوئے.... کہہ کر خاموش کرانے کی کوشش کرتا ہے، کبھی چٹکی بجاکر، کبھی تالیاں بجا کر، کبھی سامنے بڑی عجیب وغریب انداز میں بلی ،بکرے اور طوطے کی آوازیں نکال کر ،کبھی بیچارے ”منے کے ابا“ اس کو چپ کرانے کے لئے گھٹنوں کے بل چل کر گائے بھینس کی نقل اتار کراور کبھی بے معنی اوٹ پٹانگ فضول اور مہمل الفاظ بول کر۔ وغیرہ وغیرہ
اس کے بعد تعلیم وتربیت کی باری آتی ہے تو اچھے مکتب کی تلاش جاری ہوجاتی ہے تاکہ برخوردار بڑے ہوکر انجنیئر، ڈاکٹریاپروفیسر بن سکیں۔مکتب اور مدرسہ کی تعلیم کا عرصہ یہ بچے کی زندگی کا اہم ترین زمانہ ہوتاہے اب آپ کے لیے وہ نازک ترین مرحلہ آتا ہے کہ: ”پیاریا مار؟مار نہیں پیار،مار ہی مار، پیار ہی پیار یا پھر پیار کی مار؟“ مذکورہ صورتوں میں آپ کا صحیح انتخاب اس کے فرخندہ فرجام کا ضامن ہوتا ہے۔
لیکن !سوال یہ ہے کہ صحیح انتخاب کون سا ہوگا؟کبھی غلبہ محبت میں آپ ”پیار ہی پیار“ کو صحیح قراردیں گی اور کبھی بگڑتی صورتحال کے ہاتھوں تنگ آکر ”مار ہی مار“ کو درست قرارد ے بیٹھیں گی۔ ہاں! یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت آپ سوچ وبچار کی وادی میں ”پیار یامار؟“ کا ہی فیصلہ نہ کرپائیں اور وقت آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے۔باقی اس بات کو آپ بھی بخوبی سمجھ سکتی ہیں کہ ”مار نہیں پیار“ کا سلوگن آپ کے بچے کے مستقبل کو روشن کے بجائے تاریک بھی کرسکتا ہے۔
میری مانیں !لاکھ بات کی ایک بات !
ایک ہی طریقہ موثر سمجھیں ”پیار کی مار“یعنی جہاں پیار کی ضرورت ہوتو تعلیمات نبوی ﷺ پر عمل کریں اور بچوں میں مساوات قائم کریںورنہ آپ کا یہ ننھا سابچہ احساس کمتری میں مبتلا ہوکر اسلام اور ملک وقوم کی خدمت نہ کرپائے گا اور آپ پر بھی وہ وعید یں صادق ہونا شروع ہوجائیں گی جن کا ذکر اس باب میں بکثرت ملتا ہے اور جہاں تربیت پیش نظر ہو وہاں وہ فرامین رسول اللہ ﷺ بھی ملحوظ رکھیں جس میں تادیبی کارروائی کا ایک گونہ حکم ہے۔مثلاً:اپنے بچے کو نماز کی عادت ڈالو جب وہ سات سال کا ہو،جب دس سال کی عمر میں پہنچے اگر نماز نہ پڑھے تو تھپڑمار کر نماز پڑھواﺅ۔
”پیار کی مار“ کا فارمولہ آپ کے بچے کی زندگی کو صحیح نہج پر گامزن کرے گا اور یہ جوان ہوکر جہاں دیندار ہوگا وہاں دنیاوی کامیابیاں بھی اس کے قدم چومیں گی۔
میرے خیال میں ہروالدین کی تمنا یہی ہوتی ہے اور یقینا یہی ہوتی ہے کہ ان کا بچہ دنیا میں بھی عزت کمائے اورآخرت میں بھی کامیاب ہو۔سواس کے لیے یہ طریقہ مجرب ہے۔