بوڑھا درخت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بوڑھا درخت
عابد جمشید
پتہ نہیں.... کتنے زمانے بیتے.... کتنے؟؟؟.... نہیں.... اتنے زیادہ بھی نہیں.... پھر کتنے؟؟؟.... چلو اس بات کو چھوڑو.... جتنے بھی بیتے.... یہ سنو کہ ہوا کیا؟
کسی جگہ ایک بہت بڑا پھل دار درخت تھااور روزانہ ایک بچہ وہاں آکر اس درخت کے اردگرد کھیلا کرتا تھاوہ بچہ اس درخت کی ٹہنیوں سے چمٹ چمٹ کر اس کی چوٹی پر چڑھتااس کے پھل کھاتااور تھک کر اس کے سائے کے نیچے لیٹ کر مزے سے اونگھتا۔ وہ بچہ اس درخت سے محبت کرتا تھا اوروہ درخت بھی اس سے محبت کرتا تھا اوراس کے ساتھ کھیلنا پسند کرتا تھا۔ وقت گذرا اور بچہ بڑا ہو گیااب وہ ہر روز درخت کے اردگرد نہیں کھیلتا تھا، بلکہ کبھی کبھی آتا اور درخت کے پاس تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا جاتا۔
ایک دن بچہ آیا لیکن وہ دکھی تھادرخت نے کہا ”آومیرے ساتھ کھیلو“بچے نے جواب دیا ”میں اب اتنا چھوٹا نہیں رہا کہ درختوں کے اردگرد کھیلوں،مجھے کھلونے چاہیں ، اور کھلونے خریدنے کے لیے مجھے پیسے درکار ہیں۔“ درخت نے کہا ”میرے پاس تو پیسے نہیں ہیںلیکن یہ ہو سکتا ہے کہ تم میرے سارے کے سارے پھل لے لواور انہیں بیچ دوتا کہ تمہیں پیسے مل جائیں۔“بچہ بہت ہی خوش ہو گیاوہ درخت پر چڑھا، سارے پھل توڑ لیے اورخوشی خوشی وہاں سے چلا گیادرخت نے اپنے سارے پھل کھو دیے لیکن پھل کھونے کا غم اس خوشی سے بہت ہی کم تھاجو اسے بچے کو خوش دیکھ کر ہوئی تھی۔ درخت کی خوشی کچھ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی کیونکہ بچہ پھل لے جانے کے بعد واپس نہیں آیا تھا۔
پھر ایک دن اچانک وہ بچہ واپس آ گیا لیکن اب وہ ایک مرد بن چکا تھادرخت اس کے آنے پر بہت ہی زیادہ خوش ہوا اوراس سے کہا ”آومیرے ساتھ کھیلو“اس نے جواب دیا”میرے پاس کھیل کے لیے وقت نہیںکیونکہ مجھے اپنے بیوی بچوں کے لیے کام کرنا ہے ہمیں ایک گھر چاہیے جو ہمیں تحفظ دے سکے کیا تم میری مدد کر سکتے ہو؟“ درخت بولا: “مجھے افسوس ہے میرے پاس تو کوئی گھر نہیں لیکن تم اپنا گھر بنانے کے لیے میری ٹہنیاں اور شاخیں کاٹ سکتے ہو۔“ اس آدمی نے درخت کی ساری ٹہنیاں اور شاخیں لے لیں اورپھر اسی طرح خوشی خوشی چلا گیاجس طرح وہ پہلے اس کے پھل لے کر چلا گیا تھا۔درخت اس کو خوش دیکھ کر پھر سے بہت خوش ہوا اگرچہ وہ اپنی ساری شاخوں سے محروم ہو چکا تھا۔
وہ آدمی ایک دفعہ پھر غائب ہو گیا اور درخت کے پاس واپس نہ آیا درخت ایک دفعہ پھر اکیلا ہو گیا ، دکھی ہو گیا۔ پھر ایک لمبے عرصے کے بعد ، گرمیوں کے ایک گرم دن میں وہ آدمی واپس آیا اور درخت کی خوشی ایک دفعہ پھر انتہاءکو چھونے لگی کہ اب شاید یہ میرے ساتھ کھیلے۔
” آومیرے ساتھ کھیلو “ درخت نے کہا
آدمی نے درخت سے کہا
”میں اب تجارت کرنا چاہتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ کسی دریا میں کشتی رانی کرتے ہوئے کسی تجارتی شہر میں جا پہنچوں، کیا تم مجھے ایک کشتی دے سکتے ہو؟“
درخت نے کہا : ”تم میرا تنا لے کر اس کی کشتی بنا لو اس طرح تم اس کے ذریعے دور تک جا سکتے ہو اور خوش ہو سکتے ہو۔“
اس آدمی نے درخت کا تنا کاٹ لیا اور اس کی کشتی بنا لی اور پھر آدمی کشتی میں سوار ہو کر چلا گیا اور ایک لمبی مدت تک واپس نہ آیا آخر کار دیر تک غائب رہنے کے بعد وہ آدمی واپس آیا اسے دیکھ کر درخت نے دکھ سے کہا ”مجھے افسوس ہے میرے بیٹے کہ اب میرے پاس تمہیں دینے کے لیے اور کچھ نہیں اور تمہارے لیے اب اور پھل بھی نہیں ہیں۔“
”کوئی بات نہیں اب میرے دانت بھی نہیں جن سے میں پھل کو کاٹ سکتا۔“
”تمہارے کودنے پھاندنے کے لیے اب میرا تنا بھی نہیں۔“
”میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں ایسا کام نہیں کر سکتا۔“
”میرے بیٹے اب میرے پاس واقعتا کچھ بھی نہیں جو میں تمہیں دے سکوں، اب صرف میری مرتی ہوئی جڑیں ہی بچی ہیں۔“
”اب مجھے صرف کوئی ایسی جگہ چاہیے جہاں میں سکون سے آرام کر سکوں۔“
”بہت اچھی بات ہے بوڑھے درخت کی بوڑھی جڑیں تمہارے آرام کرنے کے لیے بہت اچھی جگہ ہیں آومیرے ساتھ بیٹھو تا کہ تم سکون پاوآجاو
آدمی درخت کے پاس آ بیٹھا، درخت پھر سے خوش ہو گیا، مسکرانے لگا اور اس کی آنکھیں آنسووں سے بھری ہوئی تھیں۔
کہانی تو .... زبردست ہے.... لیکن.... یہ درخت.... ہے کون ؟؟؟.... اور.... کتنے زمانے.... بیتے اس.... کہانی کو؟
درخت کون ہے.... یہ مجھ سے نہ پوچھو.... خود تلاش کرو.... البتہ سنو.... میںتمہیں.... یہ بتائے دیتا ہوں .... کہ اس کہانی کو.... اگرچہ بہت ....صدیاں بیتیں.... لیکن نہیں.... یہ کہانی.... اتنی بھی پرانی نہیں.... بلکہ.... پرانی ہی نہیں.... اور ....یہ بھی سنو.... اگر تم سن سکتے ہو کہ .... کہ وہ بچہ .... وہ بچہ.... تم خود ہو .... اور.... اور.... یہ تمہاری ہی.... کہانی ہے.... اگرچہ تم.... اس سے آنکھیں.... موندے ہوئے ہو۔ چلو اٹھو.... اب پہچانو....اپنے درخت کو.... اپنی اصل کو....اور ہاں.... یہ بھی سنو.... کہ تم اب.... وہ وقت نہ لانا.... کہ اس کی آنکھوں میں.... آنسو دیکھے جائیں.... اور اس کی وجہ.... تم ہو۔
رب ارحمہما کما ربیانی صغیراً