جسے اللہ رکھے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
جسے اللہ رکھے
بنت محمد سلیم
جج صاحب نے سزائے موت لکھنے کے لئے قلم اٹھایا ہی تھا کہ نب ٹوٹ گئی ،انہوں نے دوسرا قلم اٹھایا اس کی بھی نب ٹوٹ گئی اسی طرح جب تیسرا قلم اٹھایا تو اس کی بھی نب ٹوٹ گئی جج صاحب کو بہت حیرت ہوئی !!!انہوں نے کیس کی تفتیش نئے سرے سے کرنے کا فیصلہ کیا۔
معاملہ ایک کسان کے قتل کا تھا اس کے قتل کے الزام میں اس کی بیوی کو گرفتار کیاگیا تھا۔ واقعہ کچھ اس طرح ہوا تھا کہ نذیر اپنے کھیت میں ہل چلا رہا تھا دوپہر کے وقت اس کی بیوی بشیراں اس کا کھانا لے کر آئی۔ نذیر کا کام ابھی کافی باقی تھا چنانچہ اس نے بشیراں سے کہا:”کھانا درخت کی شاخ سے باندھ دو، میں کام سے فارغ ہوکر کھالوں گا۔ “بشیراں نے کھانا باندھا اور گھر چل دی۔
اپنے کام سے فارغ ہوکر نذیر کھانے کی طرف گیا اس نے رومال کھولا اور وہیں بیٹھ کر کھانا کھانے لگا ابھی اس نے دو چار لقمے ہی کھائے ہو ںگے کہ اچانک اس کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوگئی اور بری طرح تڑپنے لگا ،دیکھتے ہی دیکھتے نذیر بالکل ساکت ہوگیا آس پاس کچھ دوسرے کسان بھی کام کررہے تھے وہ دوڑ کر حکیم صاحب کو بلا کر لائے۔
حکیم نے نبض دیکھی جو رک چکی تھی اور نذیر کی زبان کو دیکھنا شروع کیا بعد میں یوں گویا ہوا :” اس کو کھانے میں زہردیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ بیچارہ جان کی بازی ہار گیا۔“ پھر حکیم صاحب نے اسی کھانے کاایک لقمہ بلی کو کھلایا تاکہ تصدیق ہوجائے کہ واقعتا کھانے میں زہر دیا گیا ہے بلی بیچارے بھی لقمے نگلتے ہی وہیں ڈھیر ہوگئی لوگوں کو یقین آگیاکہ کھانے میں زہر دے کر نذیر کو مارا گیا ہے لیکن سوال یہ تھا کہ کھانے میں زہردیا کس نے ہے ؟
نذیر کے ساتھ والے کسان پر شک کیا گیالیکن وہ تو اس کا شریک تھا اور سیدھا سادہ آدمی تھا پھر جس درخت پر کھانا باندھا گیا وہ اس کے قریب آتا ،مگر وہ اس کے قریب تک نہیں آیا۔اب گھوم گھما کر خیال بشیراں پر جاتا ہے وہی کھانا تیار کرکے لائی تھی۔ لیکن وہ تو تیس سال سے نذیر سے ہر موڑ پر وفا کرتی آرہی تھی ....
پھر کون ہوسکتاہے بستی میں اور کس پر شک کیا جاسکتا تھا ؟کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کی نذیر سے کوئی دشمنی ہو پھر ....کیا کیا جائے ؟اتنی دیر میں پولیس بھی وہاں آگئی اور S.H.Oصاحب نے اس جگہ کا خود معائنہ کرنے لگے۔ بات کسی طرف بھی نہیں لگ رہی تھی صرف ایک ہی راستہ تھا کہ نذیرا ور بشیراں کی گھریلو لڑائی ہوئی ہوگی اور بشیراں نے اس کو کھانے میں زہر ملادیا ہوگا اس شک کی بنیاد پر بشیراں کو لیڈی پولیس نے ہتھکڑی لگا ئی اور سنٹرل جیل میں بھیج دیا۔
خیر! بشیراں پر مقدمہ چلایا گیا کہ اس نے اپنے شوہر نذیرکوکھانے میں زہر ملاکر کھلایا جس کی وجہ سے نذیر موت کے گھاٹ اتر گیا،لیکن جب جج صاحب کا قلم بار بار کیوں ٹوٹ رہا تھا؟؟ جج اس بات سے بہت پریشان تھا اس لیے اس نے اس جگہ کا معائنہ کرنے کا حکم دیا جس جگہ کھانا باندھا گیا تھا۔
درخت کا معائنہ کرکے اس کو اکھاڑ دیا گیا جب درخت کو اکھاڑا گیا تو اس کے نیچے سے ایک مردہ سانپ ملا اس پر ان گنت چیونٹیاں چمٹی ہوئی تھیں نذیر کے کھانے سے بھی چند چیونٹیاں ملی تھیں لیکن اس وقت چیونٹیوں کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا کہ یہ زہرچیونٹیوں کے ذریعے کھانے میں منتقل ہوا تھا۔
اسی طرح بشیراں بے گناہ ثابت ہوئی اسے کہتے ہیں :” جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے؟“