فلسطینیوں کی مدد کیجئیے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
فلسطینیوں کی مدد کیجئیے
عبدالمنعم فائز'کراچی
فلسطین میں گرتی لاشوں کا نو حہ لکھوں یا آزادی کے بیڑے پہ اسرائیلی گِدھوں کے حملے کا ذکر کروں ....اندیشے لاکھ ہیںاور بے چین دل ایک....آج 62سال کی آبلہ پائی کے بعد بھی تاحد نگاہ منزل نظر نہیں پڑتی۔1945سے31مئی 2010تک امت مسلمہ اپنی روح کے زخموں کو اشکوں سے دھورہی ہے۔برسوں پر محیط فریادوں اور نالوں کا یہ سفر آج بھی جاری ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر حتمی حل کیا ہے؟آئےے تاریخ کے تناظرمیں اس کا جواب تلاشتے ہیں:
31مئی کو اسرائیلی درندگی پر ساری دنیا لاوابن کر پھٹ پڑی۔ غم و غصے سے بپھرے لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔نہتے امدادی قافلے پر مسلح اسرائیلی غنڈوں کی دہشت گردی نے تمام عالمی تنظیموں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اقوام متحدہ ، عرب لیگ اور یورپی یونین تک نے اس کھلی جارحیت کی مذمت کی۔ اقوام متحدہ میں مذمتی قرارداد پیش ہوئی تو امریکا آڑے آگیا۔ 20 بے گناہ لاشوں کو فراموش کرکے ترکی سے مذمتی الفاظ نرم کرنے کا مطالبہ کرنے لگا۔ بات مان لی گئی مگر دنیا پر ایک بار پھر واضح ہوگیا کہ یہودی عیسائی گٹھ جوڑ کس قدر مضبوط ہے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو بھی قابل غور ہے۔ اسرائیل ، امریکا تعلقات میں جتنی دراڑیں آج پڑ چکی ہیں اتنی کشیدگی پہلے کبھی نہ تھی۔
قارئین کویاد ہوگا کہ کچھ ہی عر صہ قبل اسرائیل نے امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے منہ پرطمانچہ رسید کیا تھا۔ وہ اوباما کی ہدایت پر اسرائیل فلسطین مذاکرات کرانے پہنچے ہی تھے کہ اسرائیل نے 1600نئے مکانا ت کی تعمیر کا اعلان کردیا۔بائیڈن کی توہین پر اوبامانے بھی نیتن یاہو کو وائٹ ہاوس بلاکر جھڑکی پلائی۔ اسرائیل کہاں نچلا بیٹھنے والاتھا اس نے بھی اوباما کو اشاروں کنایوں سے باور کرادیا کہ مختصر مدت کے لےے حاکم بننے والے کبھی ملکوں کے تعلقات خراب نہیں کیا کرتے۔ شنید ہے کہ اس کے بعد سے ہیلری کلنٹن او راوباما اندر ہی اندر کھول رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف مائیک مولن بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے پر سٹپٹائے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف امریکا کے قریب ترین حلیف اور دوست عرب ممالک میں بھی اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے۔ سعودی عرب سے شام و متحدہ عرب امارات تک کی بے چینی امریکا سے مخفی نہیں۔ اسی طرح اسرائیلی کارروائی کے بعد پوری دنیا سراپا احتجاج بن گئی۔سویڈن کے مشہور مصنف ہیننگ مینکل کا کہنا ہے کہ دنیا میں اسرائیل پر کبھی بھی اتنی زیادہ تنقید نہیں ہوئی جتنی آج ہو رہی ہے۔ امریکا تک میں زبردست مظاہرے کےے گئے۔ان مظاہروں میں بہت سے یہودی بھی نعر ہ بازی کرتے دیکھے گئے۔مظاہروںمیں جس پڑے پیمانے پر دنیا بھرمیں اسرائیل اور امریکا دوستی کو ہدف تنقید بنایا گیا، اس نے بھی اوباما کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔
اوباما کے لےے تو یہ احساس ہی سوہان روح بنا ہوا ہے کہ وہ ابھی دنیا بھر کو رام کرنے کے لےے امن کا نیا پیغام دے کر خاموش نہیں ہوتے کہ اسرائیل سارے کےے کرائے پر پانی پھیر دیتاہے۔پچھلی مرتبہ مصر کی تقریر کے فوری بعد اسرائیل نے نئی تعمیرات شروع کردیں اور اس بار عالم اسلام کے لےے پیغام مکمل ہوا تھا کہ نئی” کھکھیڑ“ ڈال دی گئی۔اس مرحلے پر اگر عالم عر ب ذراسی ہمت دکھائے تو با آسانی غزہ کا محاصرہ ختم کرایا جاسکتاہے۔عالم عر ب کو ترکی کی تقلید کرنی چاہےے۔ اسرائیلی کمانڈوز نے اس جہاز کو نشانہ بنایا تھا جس پر ترک باشندے سوار تھے۔ مرنے والوں میں بھی اکثریت انہی ترکمان سخت کوشوں کی تھی۔طیب اردگان اور ان کے دوستوں نے اسرائیلی حملے کا مطلب سمجھ لیا اور اس کا جواب بھی اسی شدت کے ساتھ دے رہے ہیں۔ ترکی نے اقتصادی اور دفاعی تعلقات میں کمی کا اعلان کردیا ہے۔اس مہم میںعالم عر ب بھی ترکی کے شانہ بہ شانہ چلے تواسرائیلی غرور خاک میں ملانا بہت آسان ہوگا۔
پھر یہ بات بھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ امریکا دنیا بھر سے ٹکراسکتا ہے مگر اپنے عوام کا مطالبہ کبھی مسترد نہیں کرسکتا۔ اس مرحلے پر لو ہا پہلے سے ہی گرم ہے اگر امریکی عوام کو ذراسا جھنجھوڑا جائے تو امریکا اسرائیل دوستی کی نیّا ہمیشہ کے لےے ڈبوئی جاسکتی ہے۔امریکی عوام کو سڑکوں پر لانے کے لےے میڈیا سے وابستہ لوگوں کو میدان میں آنا ہوگا۔یوٹیوب ، ٹویٹر اور دیگر مشہور ویب سائٹس پر اسرائیلی درندگی کے مناظر کی تصاویر ، ویڈیواور دیگر ناقابل تردید ثبوت زیادہ سے زیادہ پھیلائے جائیں۔ اگرچہ اسرائیلی کمانڈوز نے کیمرے جام کردیے تھے اورواقعے کے بعد ویڈیو سے تمام وحشت ناک مناظر نکال دےے لیکن چند تصاویر پھر بھی منظر عام پر آگئی ہیں۔
آخر میں ایک اچھی خبر بھی کہ ایک بار پھر غزہ کے باسیوں کے لےے امدادی بحری جہازوں کا قافلہ تیار کیا جارہا ہے۔اس مرتبہ کچھ عیسائی تنظیمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں اورقافلے میں چھ سات جہاز وں کے بجائے سینکڑوں کشتیاں شامل ہوں گی۔ جب یہ کارواں سوئے فلسطین گامزن ہوگا تو اسرائیلی بے بسی کا منظر دیدنی ہوگا۔ عالم اسلام کو بھی ہمت ہار کر بیٹھنے کے بجائے ایسے نئے قافلے کی تیاری شروع کردینی چاہےے۔یہ بھی سنتے جائےے کہ بڑھتے عالمی دباﺅ کے سامنے اسرائیل بہت جلد گھٹنے ٹیکنے والا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب غزہ کا محاصرہ ختم کردیا جائے گا۔ان شاءاللہ