ظہیرالدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ظہیرالدین محمد بابر
امان اللہ کاظم'لیہ
وہ دیکھ رہا تھا کہ آئے دن اس کا باپ اپنے بھائیوں سے نبرد آزما رہتا تھا کبھی تو وہ کامیابی سے ہم کنار ہوتا تھا اور کبھی اسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا۔ جب کبھی اسے فراغت کے لمحات میسر آتے توہ اندر جان کے پہلو میں واقع پہاڑی پر چلا جاتا تھا جہاںپر اس نے بہت سے کبوتر پال رکھے تھے۔ اسے غٹر غوں کرتے کبوتروں کے درمیان رہنا اچھا لگتا تھا اس نے سینکڑوں کی تعداد میں موجود ان کبوتروں کے لیے بڑے بڑے لکڑی کے ڈربے بنوا رکھے تھے اور ان کبوتروں کی نگہداشت اور ان کی خاطر تواضع کے لیے کئی کئی نوکر بھی متعین کر رکھے تھے وہ پہاڑی پر پہنچ کر ان کبوتروں کو ہو امیں اڑاتا رہتاتھا اور کبوتربازوں کی طرح” ہاﺅ ہو ہاﺅ ہو“کرتا رہتا تھا شاید اسے اس طرح سکون حاصل ہوتا تھا۔ کبوتر بازی کے پس پردہ عمر شیخ مرزا کا کونسا جذبہ کارفرماتھا سوائے دولت بیگم کے اور کوئی نہیں جانتا تھا کیونکہ دولت بیگم کو عمر شیخ مرزا سے اکثر یہ کہتے سنا گیا تھا
”دیکھ عمر شیخ مرزا! تجھے ان بے زبان کبوتروں سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔غم غلط کرنے کا یہ کونسا طریقہ ہے؟ بادشاہوں کو یہ بات زیب نہیں دیتی اپنے دادا کی طرح مرد میدا ن بننا سیکھ تیری تلوار ہی تیری رفیق ہونی چاہیے چہ جائے کہ توکبوتروں کی صحبت اختیار کرے۔”
عمر شخ مرزا برملا کہتا: ”مادر محترم اور اگر میں اپنے آباءکی طرح بہت سے قبائل کا سردار ہوتا، ایک بہت بڑی اور آزموہ کا رفوج میرے زیر کمان ہوتی اور میرے بھائی برادران یوسف کا سا کردار ادا نہ کرتے تو پھر آپ دیکھتیں کہ میں کیسے کیسے کارنامے انجام دیتا“۔
دولت بیگم جنربز ہوکر کہتی” کس قدر فضول سوچ ہے تمہاری تم یہ خوب جانتے ہوکہ تمہارے نانا اور دا دا اپنی ابتدائی زندگی میں بہت ہی معمولی اور بے سہارا لوگ تھے مگر انہوں نے اپنی قوت بازو پر انحصار کیا۔ ان کا قوی عزم ان کے لامتناہی کامیابیوں کا پیش خیمہ بنا، انہوں نے شجاعت ومردانگی کی ایسی ایسی داستانیں رقم کیں جن کی نظیر تاریخ عالم میں ملنا محال ہے۔
انہوں نے اپنے گھوڑوں کی ننگی پیٹھوں پر بیٹھ کر دنیا کو لرزہ براندام کردیا، انہیں دلوں کو مسخر کرنے کا ہنر آتا تھا یعنی وہ ملکوں کو فتح کرنے سے قبل اپنے لوگوں کے دلوں کو فتح کرتے تھے مگر تم سراسر نابلد ہو ،کم ہمت اور آرام کوش انسان ہو، رموز ہائے جہانبانی، جہانگیری وکشور کشائی کبوتروں کی صحبت سے حاصل نہیں ہوتے بلکہ یہ رزم گاہ زندگی کی جولانی سے از خود ازبر ہوتے ہیں۔ اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھوتم کیاتھے او رکیاہوگئے ہو؟ تمہیں اپنی قدر ومنزلت کا ذرہ بھر احسا س نہیں ہے ہمت مرداں مدد خدا کے مصداق تلوار اٹھاﺅ اور پھر دیکھوکہ پردہ غیب سے کیا رونما ہوتاہے۔“
اگرچہ اپنی نانی اماں کے پہلو میں بابر بھی برابر موجود ہوتا تھا مگر ان دونوں کی ادق اورثقیل گفتگو اس کے سرکے اوپر سے گزر جاتی تھی وہ بس ان دونوں بڑوں کے چہروں کے اتار چڑھاﺅ دیکھتا رہ جاتاتھا۔ ابھی تک ننھے بابر کی دنیا زنان خانے تک محدود تھی یعنی وہ اپنی نانی دولت بیگم ،اپنی ماں فتلق نگار خانم اور بڑی بہن خان زادہ خانم باہوں کے حصارمیں رہتا تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کے کم سنی اورشعوری کا زمانہ آہستہ آہستہ رخصت ہوتا چلا جارہا تھا وہ یہ زمانہ تھا جب اسے پڑھنے لکھنے کی طر ف راغب کیاجانے لگا تھا۔ بابرنے ذہن رسا پایا تھا اس لیے وہ اپنے ہم عمروں پر ہمیشہ بازی لے جاتاتھا۔دوسرے بچوں کی طرح اس کا بھی یہی خیال تھا کہ” زندگی بس جینے کادوسرا نام ہے۔“ ایک ڈگر ہے جس پر کہ زندگی بگٹٹ بھاگتی چلی جارہی ہے اورانسان کو اپنے ساتھ بھگاتی چلی جارہی ہے۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ زندگی کی ڈگر سپاٹ نہیں ہے بلکہ اس کے قدم قدم پر موڑ ہیں۔
بابر اب پانچ سا ل کا ہوچکا تھا کہ اچانک اس کی سپاٹ زندگی میں ایک عجیب وغریب موڑآگیا۔ ہواکچھ یوںکہ ایک دن بابرنے دیکھا کہ ....شاہی محل میں اس کے عزیزوں اور رشتہ داروں کی ریل پیل ہوگئی تھی ،دور دراز سے معزز مہمان کھنچے چلے آرہے تھے، شاہی محل میںچارسُو انسانوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے تھے۔ اندرجان کی اطراف واکناف سے گاڑیاں دوڑی چلی آرہی تھیں۔ لباس ہائے زرق وبرق میں ملبوس لوگ ان گاڑیوںپر سے اترتے آج یہاں جمع کیوں ہورہے ہیں؟ ایسا کبھی پہلے تو نہیں ہوا تھا مگر آج کیوں ہورہا ہے؟ اور سب سے بڑی عجیب بات یہ کہ سب لوگ اس کی بلائیں کیوں لے رہے تھے؟
ان مہمانوں میں بابر کو ایک لڑکی بھی دکھائی دی جو غالبا اس کی ہم عمر لگتی تھی وہ لڑکی خوب بنی ٹھنی ہوئی تھی بابر نے ٹوہ لی تو اسے معلوم ہواکہ یہ لڑکی اس کے تایا کی بیٹی تھی اور اس کانام عائشہ تھا۔ بابر نے اس چہل پہل اور رشتہ داروں کے اجتماع سے یہ تاثر لیا کہ شاید یہاںکوئی خوشی کی بہت بڑی تقریب منعقدہونے والی تھی عائشہ مہمانوں میں سے غائب ہوگئی تھی بابر اس کا چہرہ پوری طرح نہیں دیکھ سکا تھا کیونکہ محل کی کنیزیںاور لونڈیاں اسے اٹھائے اٹھائے محل کے کسی اندرونی گوشے میں لے گئی تھیں۔ کچھ ہی دیر بعد بابر کو بھی حمام میں لے جایا گیا اور اسے اچھی طرح نہلا دھلا کر اطلس وکمخواب کے قیمتی لباس میں ملبوس کیا گیا جب اس کے سر پر چھوٹا سا عمامہ رکھا گیا تو تب اس لباس میں وہ ایک چھوٹا سا” مرد“ لگ رہا تھا۔
بابر کی نانی اسے بازوں میں اٹھائے ایک تخت تک لے گئی اور اسے تخت کے دا ہنی گوشے میں بٹھا دیا کچھ دیر بعد سجی سجائی عائشہ کو بھی بابرکے بائیں پہلو میں بٹھادیا گیا شہزادی عائشہ کا نئی نویلی دلہنوں کی طرح گھونگھٹ نکالا گیا تھا۔ بابر سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیاہورہا ہے تخت کے چاروں بھانت بھانت کی عورتوں نے گھیرا ڈالا ہوا تھا عورتوں کے اس بے ہنگم اجتماع میں تیموری خانوادے کی چند بڑی بوڑھیاں آگے بڑھیں اور شہزادی عائشہ کا ہاتھ پکڑ کر بابر کے ہاتھ میں دیتی ہوئی کہنے لگیں:”شہزادے بابر! آج سے شہزادی عائشہ تیری ہوئی۔”
ایک دوسری معزز خاتون عائشہ کی طرف بڑھی اور اس کا گھونگھٹ اٹھاتی ہوئی کہنے لگی” شہزادی عائشہ!شہزادہ بابر جو تیر اعم زادہ بھی ہے آج سے تیرا شوہر ہے۔”
منگنی کی رسومات اختتام پذیر ہوئیںتو اس تقریب میں شریک مہمانوں کو کھانے پر بلایا گیا۔ بابر اور عائشہ کو ایک ساتھ دسترخوان پر بٹھایا گیا تو شہزادی عائشہ بابر کی طرف دھیان دئیے بغیر بلا تکلف کھانے پرٹوٹ پڑی وہ مزے لے لے کر خود تو کھانا کھاتی رہی مگر اس نے بابرکی طرف ایک بار بھی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا جب کہ بابر ٹکٹکی باندھے عائشہ کو کھاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
کھانے کے اختتام پر نانی اماں بابرکو ایک طرف لے گئی اور مشفقانہ اندازمیں سمجھاتے ہوئے بولی:” بیٹا میری بات کو پلے باندھ لے کیونکہ زندگی میںبارہا تجھے ایسی باتوںسے سابقہ پڑے گا، اگر تجھے کسی شخص کے خلوص، محبت، رواداری اور اس کے جذبہ ایثار کا پتہ لگانا ہوتو اسے متعدد بار اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھا لینا۔اگر وہ شخص کھانے کے دوران تیرے حصے کے کھانے سے کافی کچھ چٹ کرجائے تو سمجھ لینا کہ وہ شخص زندگی میں کبھی تجھ سے وفا نہیں کرے گا اور جوشخص اپنے کھانے سے کچھ حصہ تیرے لیے چھوڑ دے تو یاد رکھنا کہ وہ شخص زندگی بھر تیرے لیے قربانیاں دیتا رہے گا۔“
نانی اماں کے اس تجزیے نے ننھے بابرکے سامنے زندگی کی ایک سچائی دکھادی تھی اس سچائی نے اسے بہت متاثر کیا اس طرح اسے دسترخوان پر روا رکھے جانے والے عائشہ کے رویے کا خوب ادراک ہوگیا تھا س کے دل میں بات بیٹھ گئی تھی کہ عائشہ زندگی میںکبھی اس کی وفادار نہیں رہے گی اسی دن سے بابر کے دل میں عائشہ کے متعلق با ل پڑگیاتھا۔
تقریب اختتام پذیر ہوئی اور مہمانوں کے ساتھ ساتھ عائشہ بھی اندارجان سے رخصت ہوگئی زندگی کے اس پہلے موڑ پر ہی عائشہ کے متعلق نانی اماں کی کہی ہوئی پتے کی بات بابر کے ذہن پر ا س طرح نقش ہوگئی کہ وہ پھر کبھی بھی محو نہ ہوئی۔