ایک کہانی بڑی پرانی

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
ایک کہانی بڑی پرانی
ام محمد رانا
آسیہ بیگم روز روز کے بلی چوہے کے کھیل سے تنگ آچکی تھی ایک دن وہ خود ہی ایک رشتہ دیکھنے گئی اور ہاں کر آئی اور اپنی بات پر ڈٹ گئی کہ بس میں نے وہیں نمرہ کا رشتہ کرنا ہے۔ ویسے تو بھابیاں نہ مانتیں پر جب انھوں نے دیکھا کہ نمرہ کا ہونے والا سسرال بالکل متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا ہے گھر بار بھی گزارہ میں ہے لہذا ہر لحاظ سے نمرہ ان سے نیچے ہی رہے گی توحامی بھر دی۔ مہینے کے اندر اندر نمرہ کی شادی کردی گئی اور یہ کہ کر نمرہ کو جہیز کے نام پر کوئی چیز نہ دی گئی کہ وہ ابھی وہ گھر اس قابل نہیں کہ ہمارے سٹینڈرڈ کا دیا ہوا جہیز وہاں رکھا جاسکے۔
ادھر نمرہ کاشوہر انتہائی نفیس طبیعت کا مالک تھا وہ ایک معمولی دکاندار کا بیٹا تھا جس نے خود اپنی محنت سے پڑھ کر اپنا مقام بنایا تھا اب وہ ایک فرم میں مینجر تھا اور لوگوں میں ایک شریف اور ذمہ دار نوجوان سمجھا جاتاتھا۔ نمرہ دل میں بہت خوش تھی کہ اللہ تعالی نے اس کی ساری مشقتوں کا بدلہ ایک انتہائی مخلص اور محبت کرنے والے شوہر کے روپ میں دیا ہے یہاں اسے اس طرح رکھا گیا جیسے کسی بادشاہ کی بیٹی اپنے کسی خادم کے گھر کو عزت بخشنے آجائے۔ نندوں نے اپنے اخراجات کم کردئیے تھے اور دیوروں نے بھی اپنی اضافی خرچی لینا چھوڑ دی تھی تاکہ وہ اپنی بھابھی کو وہی ماحول دے سکیں جو انہوں نے ا س کے بھائیوں کے گھر دیکھا تھا۔
نمرہ جب بھی میکے جاتی تو سسرال والے اسے اپنی حیثیت سے بڑھ کر کپڑے بنا کر دیتے اور اپنی طر ف سے کسی قسم کی کوئی کسر نہ چھوڑتے پر جب نمرہ اپنی بھابھیوں کے پاس جاتی تووہ اس کے کپڑوں کااور اس کے زیور وغیرہ کا مذاق اڑاتیں۔
نمرہ اپنے سسرال سے خوش خوش آتی لیکن واپسی پر اس کا دل ملال زدہ ہوتا۔ اسے نہ خاوند کی دل لگی اچھی لگتی نہ نندوں کی چھیڑ چھاڑ اور نہ دیوروں سے نو ک جھونک لیکن تھوڑے دن گزرنے کے بعد وہ اپنے خودساختہ خول سے باہر آنا شروع ہوجاتی اور پھر پہلے والی نمرہ بھابھی بن جاتی۔ نمرہ کا شوہر بہت سمجھ دار تھا اس لیے اس نے اس بات کاحل یہی نکالا کہ نمرہ کو اس کے میکے کم از کم جانے دیا جائے۔
نمرہ کی شادی کوایک سال ہوا تھاکہ اللہ نے نمرہ کی گود میں چاند جیسا بیٹادیا۔ گھر میں پہلا پہلا بچہ تھا باہمی مشورے سے بچے کانام احمد رکھا گیا۔ احمد کے داد نے احمد کے باپ کی پیدائش اور شادی پر اتنی خوشی نہ کی ہوگی جتنی احمد کی پیدائش پہ کی۔ ساس تو نمرہ کے واری صدقے جاتی نہ تھکتی تھی اور نندوں کے تو کہنے ہی کیا۔
نمرہ کے میکے میں کوئی خاص خوشی کا اظہارنہیں کیاگیا۔ نمرہ کی بہنیں آئیں تو احمد کو دیکھ کر جہاں انہوںنے خوشی کا اظہارکیا اس کے ساتھ انہوں نے نمر ہ اور اس کے سسرال والوں کے رہن سہن میں سینکڑوں کیڑے نکالے۔بجائے اس کے کہ نمرہ کو ان کے آنے کی خوشی ہوتی وہ نمرہ کو احساس کمتری میں مبتلا کر گئیں۔ جب نمرہ کی بھابھیوں نے دیکھا کہ لوہا گرم ہے انہوںنے نمرہ کو روز روز فون کرنے شروع کردیے۔ کبھی کہاجاتا کہ تمہارے شوہر کو چاہے تمہیں علیحدہ خرچہ دیا کرے کبھی کہا جاتا کہ وہ تمہیں سیر کروانے کیوں نہیں لے کر جاتا شاپنگ کیوں نہیں کرواتا؟ نمرہ پھر اپنے شوہر سے بدگمان رہنے لگی اور بات بات پر بگڑ جاتی۔ نندوں کویقین نہ آتا کہ یہ وہی بھابھی ہے جو ماں کے کچھ کہنے پر ان سے ناراض ہوجاتی تھی کہ انہیں کچھ نہ کہیں اور نندوں کی طرفداری میں خاوند سے کھٹی میٹھی سنتی تھی لیکن اب نمرہ میں وہ بات نہیں رہی تھی۔
نمرہ کی کزن کی شادی جہاں سب خاندان والے جمع ہوئے اوروں کی طرح نمرہ کوبھی دعوت نامہ آیاتھا۔ نمرہ نے شادی میںجانے کی بات کی تو اس کے شوہر نے کہا کہ میرے حالات مجھے اجازت نہیں دے رہے اس لیے تم اپنا پروگرام گول کردو لیکن نمرہ جب کسی طرح راضی نہ ہوئی تو اس کے شوہر نے اپنی بائیک بیچ کر نمرہ کو مطلوبہ شاپنگ کروائی اور احمد کے کپڑے وغیرہ دلوائے اور جاتے جاتے ساس نے بھی اپنے کانوں سے بندے نکال کر نمرہ کے ہاتھ پر رکھ دیے کہ اگر پیسوں کی مزید ضرورت ہوئی تو ان کو بھی کام میں لے آنا۔ شادی میں صرف ایک دن باقی تھا جب نمرہ کا شوہر اپنے دوست کی گاڑی میں نمرہ کو چھوڑ آیا نمرہ دل میں بہت خوش تھی کہ اب کی دفعہ کوئی بھی مجھے میرے کپڑے کے بارے میںمذاق نہیں کرسکے گا۔
شادی والے دن جب ساری بہنیں اور بھابھیاں اور دیگر کزنیںاکھٹی ہوئیں تو سب ایک دوسرے کے کپڑے اور زیورات وغیرہ کی تعریف کر رہی تھیں جب رخ نمرہ کی طرف ہوا تو کوئی اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ لیکن وہاں موجود بڑی بھابھی کو کسی ذریعے سے پتہ چل گیا کہ نمرہ کے خاوند نے اس کی تیاری کے لیے بائیک بیچ دی ہے۔ اس سے نمرہ کی ہونے والی تعریف ہضم نہ ہوسکی۔ اس نے بڑے ہمدردانہ لہجے میں کہا کہ بے چاری نمرہ کے ساتھ کیا مقابلہ کرتی ہو اس کے میاں نے اپنی بائیک بیچ کر اس کو دوسوٹ لے کر دیے ہیںاور جو یہ سیٹ پہنا ہوا ہے وہ بھی تو مصنوعی لگ رہاہے۔
نمرہ کا منہ غصے سے سرخ ہوگیا” بھابھی آپ کو میرے ذاتی معاملات میں دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔“ یہ کہنا ہی تھا کہ دوسری بہنیں اور بھابھیاں بول اٹھیں” ہائے ہائے نمرہ باﺅلی ہوئی ہو؟ وہ تو تمہارے فائدے کی بات کررہی ہے اور تم الٹا اس پر بگڑ رہی ہو دیکھو تو اپنی چین جیسے دھاگہ پہنا ہوا ہو۔بے قوف! تیرے سسرال والوںکو ایسا رشتہ کہاں سے مل سکتاتھا؟ تو کیوں نیچے لگی ہوئی ہے؟اپن رعب رکھا کرو، دیکھو تو تمہارا خاوند چھوڑ کر چلا گیا ہے اس نے کیابرات میں شریک نہیں ہونا تھا؟ وہ اپنی اکڑ میں رہتا ہے اسے فون کرو کہ ابھی آئے۔”
نمرہ نے ان کی باتوں میں آکر فون کیا تو ندیم اس وقت بہن کو کالج چھوڑنے جا رہا تھا جس کا پرچہ تھا اس لیے آنے سے معذرت کی تو نمرہ کا پارہ ہائی ہو گیا، فون میںہی ندیم کو برا بھلا کہنے لگی اور یہاں تک کہ کہہ دیا کہ خبردار جو مجھے لینے آئے۔
ندیم اپنی جگہ پریشان تھا کہ ہواکیا ہے؟ نمرہ توایسی نہیں ہے۔ بہرحال اس نے سوچا لینے جائے گا تو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کرلے گا۔ نمرہ کو گئے دو دن ہوئے تھے کہ سارے گھر والے احمد کے بغیر اداس ہوگئے۔ گھر سونا سونا ہوگیا تھا نمرہ ایک ہفتے کا کہہ کر گئی تھی مگر نمرہ کا سسر احمد کی وجہ سے تیسرے دن ہی نمرہ کولینے چلا گیا۔ نمرہ کی بھابھی نے اس کی اتنی عزت کی کہ پانی تک نہ پوچھا اور کہا کہ وہ فیصلہ چاہتے ہیں۔ نمرہ کا سسر حیران تھاکہ کیا بات ہوئی ہے جس کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچی ہے۔ نمرہ بھی بپھری ہوئی گرج رہی تھی، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس نے بھی سسر کے خوب لتے لیے۔
نمرہ کا سسر اپنا سا منہ لے کر گھر آگیا اور سارا ماجرا گھر والوں کو سنا یا۔ ندیم نے بھی فیصلہ کر لیا کہ اب نمرہ کو لینے نہیںجاﺅں گا اگر چاہتی ہے تو خود ہی آئے ورنہ وہیں رہے۔ نمرہ کو میکے میں بڑی بھابھی کے ساتھ رہتے ہوئے پونے دومہینے ہوگئے تھے ندیم نے بھی دل پر پتھر رکھ لیااور سارے گھر والوں کو نمرہ سے رابطہ کرنے سے سختی سے منع کردیاتھا۔ شروع شروع میں نمرہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی کہ اس نے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے لیکن نمرہ نہیں جانتی تھی کہ بڑی بھابھی نے اس کی ہمدردی کے بہانے کیا گیم کھیلی ہے۔
نمرہ سارادن گھرکاکام کرتی تھی احمد چاپائی پر لیٹا روتا رہتا اگر وہ ادھورا کام چھوڑ کر اسے اٹھانے لگتی تو بھابھی برابھلا کہنا شروع ہوجاتی اور احمد کو دھپ لگانے سے بھی گریز نہ کرتی۔ نمرہ کی بہنیں جو روز فون کرتی تھیں انہوںنے بھی پینترا بدل لیا تھا۔انہی دنوں وبا پھیلی تو احمد سخت بیمار ہوگیا، نمرہ نے جب اس کی دوائی لینے کے لیے جانے کا ارادہ کیاتو بھابھی نے گھریلو ٹوٹکے سے علاج کرکے ٹال مٹول کردی۔ احمد دن بدن کمزور ہوتا چلا گیا۔ ایک دن اچانک حالت بگڑنے پر نمرہ اکیلے ہی احمد کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی تو وہاں اسے اپنے سسرال کے محلے کی عورت ملی جس نے نمرہ کو بے کسی کی حالت میںدیکھا تو فوراً اس کی ساس کو فون کردیا۔ نمرہ کی ساس نے جب احمد کی بیماری کا سنا تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ ندیم اور اپنے خاوند کے ساتھ دوڑی چلی آئی۔
جب وہ ہسپتال پہنچے تو دیکھا کہ نمرہ نے ہاتھ میں وہی بُندے پکڑے ہوئے تھے جو جاتے وقت ساس نے دیے تھے اور روروکر ڈاکٹر سے کہہ رہی تھی کہ اس کے بیٹے کوبچالے۔ندیم آتے ہی احمد کو ہاتھوں پر اٹھالیا جواس وقت زندگی اور موت کی کش مکش میں تھا اور ندیم کے ابا نے نمرہ کو گلے لگالیا” بیٹا! دعا کرو اللہ ہمارے بیٹے کو زندگی بخش دے۔“ جب کہ نمرہ کی نند ہاتھ پھیلائے اللہ سے ہم کلام تھی” اللہ! ہمارے احمد کی زندگی لوٹا دے۔” ادھر ساس سجدے میں گری تھی۔ ندیم اتنی دیر میں ڈاکٹر سے رابطہ کرکے احمد کو ایڈمٹ کروا چکاتھا۔
ابھی آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھاکہ ندیم نے بھیگی مگر مسکراتی آنکھوں سے سب کو دیکھا اور احمدکی نئی زندگی کی نوید دی۔ نمرہ کی ساس جوابھی تک سجدے میں تھیں نمرہ نے جاکر ان کے کندھے پرہاتھ رکھ دیا” امی جی! احمد کی نئی زندگی کے ساتھ ساتھ یہ بھی دعامانگیں کہ اللہ ہمیں مزید آزمائشوں سے بچالے اور اللہ مجھے بھی معاف کردیں میں ....میں....بہت ....“
نمرہ کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہتے جارہے تھے۔اتنی دیر میں اس نے اپنے کندھے پر ایک آشنا ہاتھ کا لمس محسوس کر کے پلٹ کر دیکھا تو ندیم مسکراتے ہوئے اسے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کر رہاتھا۔ نمرہ کو یوں لگا جیسے پوری دنیا ہی مسکرا رہی ہو۔