دھوکےباز سانپ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
دھوکےباز سانپ
عابد جمشید رانا
دور دور تک کسی ذی روح کا نام نہیں تھا، رستہ بہت طویل اور پرخطر تھا لیکن وہ اس ویرانی سے بھلاکیوںکر خوف زدہ ہوتے؟ ان کے دل میں تو صرف اسی ایک ذات کا خوف تھا جس کی رضا کی تلاش میں وہ طلب علم کے لیے بستی بستی پھر رہے تھے۔ اپنے اللہ کو یاد کرتے وہ اس سنسان جنگل سے گذررہے تھے۔ اپنی کتابوں کو وہ اپنا اصل سرمایہ تصور کرتے تھے اور یہ سرمایہ ایک تھیلے میں ان کے کندھے سے لٹک رہا تھا چلتے چلتے انہیں اچانک رک جانا پڑا۔ درمیانی جسامت کا ایک سانپ ان کارستہ روکے کھڑا تھا۔
ایک لمحے کو وہ چونکے پھر راستہ بدلنے کی خاطر اپنارخ موڑ نے ہی والے ہی تھے کہ حیرت نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا، سانپ منہ کھول کر انسانی آواز میں کلام کر رہا تھا۔
”اے اللہ کے بندے!مجھے پناہ درکار ہے۔“
”کیوں؟ کس سے؟کس لیے؟ “ وہ حیرت سے گویا ہوئے
”مجھے ایک دشمن سے اپنی جان کا خطرہ ہے اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلاآرہاہے خدا کے لیے مجھے پناہ دے دو۔“ سانپ بڑی لجاجت سے بولا
انہوں نے ایک لمحے کے لیے توقف کیا پھر بولے:” ٹھیک ہے آجا ﺅیہاں میری چادر کے نیچے آجاﺅ میں تمہیں یہاں چھپا لیتا ہوں اس طرح تم اپنے دشمن سے محفوظ رہو گے۔”
”نہیں نہیں وہ بڑا ظالم ہے وہ مجھے یہاں سے ڈھونڈ نکالے گا پھر تم مجھے اس سے نہیں بچاﺅ پاﺅ گے۔“ سانپ گڑگڑایا
”اور کہاں چھپاﺅں تمہیں؟“وہ بولے
”تم اپنا منہ کھولو میں تمہارے پیٹ میں اتر جاتاہوں۔“
”یہ کیسے ہوسکتاہے؟“وہ الجھ گئے
”خدا کے لیے ،میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاﺅں گا۔“سانپ بُری طرح گڑگڑارہاتھا
”اچھا یہ بتاﺅ کہ تمہارا تعلق کس امت سے ہے؟ “انہوںنے ایک خیال کے تحت پوچھا
”میں محمد ﷺ کو ماننے والا ہوں۔“ سانپ فوراً بولا
”تب ٹھیک ہے، آجاﺅ۔“ انہوں نے منہ کھولا اورسانپ ان کے پیٹ میں داخل ہوگیا۔ یہ عمل کرتے وقت وہ ذرا بھی نہ ہچکچائے تھے آخر ان کے محبوب نبی ﷺ کا نام نامی درمیان میں آگیا تھا۔ ایک مظلوم کی امداد ہورہی تھی اور وہ مظلوم اگرچہ ایک خطرناک اور ناقابل اعتبار برادری سے تعلق رکھتا تھا لیکن بقول خود وہ ان کے پیارے حبیب جناب محمد ﷺ کو مانتا تھا۔
وہ حدیث کے طالب علم تھے اور یہ حدیث مبارک انہوں نے پڑھ رکھی تھی جس میں آقا علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے کہ تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ جب بھلائی اور احسان والا یہ عمل حضور ﷺ کی بارگاہ میں پیش ہوگا تووہ بہت خوش ہوںگے۔
پیٹ کے اندر سانپ کو بٹھائے وہ اپنے راستے پرہولیے۔کچھ آگے گئے تو ایک نیزہ برادر گھڑ سوار سے ملاقات ہوئی اس نے انہیںدیکھا تو رک کر بولا:
”بزرگوار!آپ نے اس رستے میں کوئی سانپ تو نہیںدیکھا؟“
”نہیں” یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئے۔ اگرچہ کسی کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے پھر بھی انہوںنے اپنے اس جھوٹ پر اللہ تعالی سے خوب استغفار کیا۔
جب گھڑ سوار نظروں سے اوجل ہوگیا تو وہ سانپ سے مخاطب ہوکر بآواز بلند بولے
”باہر نکل آﺅ تمہار ادشمن جا چکا ہے۔”
سانپ نے اپنا سر باہر نکال کر ادھر ادھر جھانکا پھر کہنے لگا
”وہ تو چلا گیا، اب تم دو باتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلو یاتو میں تمہارے جگر کے ٹکڑے کیے دیتاہوں یا تمہارے دل کو ڈس لیتا ہوں۔“
”یہ کیا؟....وہ تمہار اوعدہ اور جناب نبی کریمﷺ کا پیروکار ہونے کا دعوی؟“انہیں جھٹکا لگا
”ھاھا....وہ تو سب جھوٹ تھا....جان بچانے کا ایک بہانہ“ سانپ نے شیطانی قہقہہ لگایا”تم نے نااہل پر احسان کیا اور فریبی پر اعتماد کی غلطی کی، اب اس کی سزا بھی بھگتو۔“
”اچھا پھر تم مجھے اتنی مہلت تو دو کہ میں سامنے والے پہا ڑکے دامن میں بہتے چشمے پر جاکر وضو کروں اور دور رکعت نماز ادا کرلوں۔ “
”ٹھیک ہے تمہیں اتنی مہلت دے دیتاہوں۔“
وہ دل ہی دل میں
اَمَّن یُّجِیبُ المُضطَرَّ اِذَا دَعَاہُ
پڑھتے ہوئے پہاڑ کی طرف چل دیے۔ چند قدم ہی چلے تھے کہ ایک سبز پوش سامنے آکھڑا ہوااور یوں گویا ہوا۔
”اےا بو محمد1 آپ کا رنگ کیوں اڑا ہواہے؟ “
انہوں نے ساری کہانی سنائی تو اس سبز پوش نے ایک پتہ نکال کر دیا اور کہنے لگا اس پتے کو چبا کر کھا لیجئے۔ شیخ ابو محمد نے ایسا ہی کیا۔چند لمحے گذرے ہوں گے کہ ان کے پیٹ میں سخت مروڑ اٹھا اور سانپ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر اجابت کے رستے باہر نکل گیا۔شیخ ابومحمد نے تشکر آمیز نگاہوں سے اپنے محسن کی طرف دیکھا اور بولے” آپ کون ہیں؟اللہ آپ کو جزائے خیر دیں آپ نے اس موذی سے مجھے نجات دلائی ہے۔”
سبز پوش مسکرایا:” میں ساتویں آسمان کا فرشتہ ہوں،جب تم نے اَمَّن یُّجِیبُ المُضطَرَّ اِذَا دَعَاہُ پڑھا تو میں ساتویں آسمان پر تھا مجھے حکم ہو اکہ تمہیں اس مصیبت سے نجات دلاﺅں، یادرکھو ابو محمد!کبھی بھی احسان اور بھلائی کو نہ چھوڑنا بھلائی خواہ کسی سے کی جائے رائیگاں نہیں جاتی۔”
شیخ ابومحمد تاریخ میں” نمیری“کی نسبت سے معروف ہیں اللہ ان پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل فرمائیں۔ یہ ایمان افروز واقعہ شیخ ابو محمد نے خود بیان کیاہے۔