نور آیا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
نور آیا
فوزیہ کڑنگی'مانسہرہ
دروازے پر دستک ہوئی،” آجاﺅ“ کہہ کر میں پھر اپنے کام میں مشغول ہوگئی۔ نور آپا چائے لے کر آئی تھی اس نے چائے میز پر رکھ دی ا ور کہا”’ کیسی ہو بیٹا؟“
”بس کرم ہے خدا کا“ میں نور آپا کی طرف دیکھے بغیر بولی۔
میں کالج میں پرنسپل تھی نورآپا اس کالج میں ملازمہ تھی نام تو اس کا بیگم نور تھا پر کالج میں سب اسے نور آپاکہتے تھے ٹیچرز اور مہمانوں کے لیے چائے بنانا اس کی ذمہ داری تھی لیکن وہ اس ذمہ داری سے زیادہ دوسروں کی غیبت کرنا، ایک کی بات دوسرے اور دوسرے کی بات تیسرے تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتی تھی اسی وجہ سے میں اس کے آنے پر ذرا ناخوش سی ہوتی۔ اکثر اوقات اسے سمجھا بھی دیتی لیکن کیا مجال کہ اس کے کان پر جوں بھی رینگتی۔ میرے سمجھانے پر ا س وقت تو تھوڑا منہ بناتی لیکن تھوڑی دیر بعد پھر ویسی ہی ہوجاتی کوئی بات بھی دل میںنہ رکھتی تھی بس اس کی یہی عادت مجھے اچھی لگتی تھی اور اسی عادت کی بدولت مجھے اس سے تھوڑا لگاﺅتھا دیگر ٹیچرز تو اس سے دور بھاگتی تھیں۔
آج بھی وہ چائے لے کر آئی اور کرسی پر بیٹھے سے پہلے ہی اپنی باتوں کا آغاز کردیا
”آپ مس فرحت کو تو جانتی ہوناں؟ کل کالج آتے وقت اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔”
”کیا؟کیسے؟“ میں نے دوتین سوال ایک ساتھ کرڈالے
”کیسے ہونا تھا ایکسیڈنٹ؟ ارے جب دیکھو بازارمیں گھوم رہی ہوتی ہے ، جب دیکھو....“ ابھی اس کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی، میں نے ریسیور اٹھاکر کان سے لگایا تو دوسری طرف سے آواز سنائی دی جلدی کیجئے ایمرجنسی ہے، نوربیگم سے بات کروائیے۔میں نے ریسیور نورآپا کے ہاتھ میں دے دیا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے خیر مانگنے لگی۔ اتنے میں ریسیور نور آپا کے ہاتھ سے گر بھی چکا تھا اور وہ پسینے سے شرابور ہوچکی تھی، اسی وقت اٹھی اور بھاگتے ہوئے چلی گئی مجھے اس سے پوچھنے کا موقع ہی نہ ملا کہ کیا ہوا ہے؟ بعد میں پتہ چلا کہ بازار جاتے وقت اس کی بیٹی کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے ا ور وہ ہسپتال میں ہے۔ اب نورآپا کے سامنے غیبت کا انجام تھا اسے باربار اپنی باتیں یاد آرہی تھیں اسی وقت اس نے ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے کہ خدایا میری بیٹی کوبچالے میں وعدہ کرتی ہوں کہ اب کبھی غیبت نہ کروں گی خدا نے کرم کیا اور اس کی بیٹی کو بچالیااب نور آپا کی غیبت والی عادت چھوٹ چکی ہے۔
اور خبردار! جوآپ نے مجھے غیبت خور سمجھا! میں نے یہ کہانی لکھ کر پہلے نورآپا کو سنائی ہے اور انہوں نے ناراضی کا اظہار کیے بغیر خوشی سے مجھے اجازت دی اور کہا کہ شاید اس سے کسی اور کوبھی سبق حاصل ہوجائے۔