تاجو بہن

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تاجو بہن
محمد کلیم اللہ
مراد اپنی بوڑھی ماں کی دعائیں لے کر گھرسے پردیس کو روانہ ہوتا ہے چند دن گزرتے ہیں کہ مراد”بامراد“ہوجاتاہے یعنی ڈھیر ساری دولت اکٹھی کرلیتا ہے اور اپنی بوڑھی ماں کو ایک چٹھی (خط)روانہ کرتا ہے :”ماں!میں نے کافی ساری دولت اکھٹی کرلی ہے اور تیرے لیے تین سوٹ کچھ زیورات وغیرہ لے کرگھرآرہاہوں۔ہاں! راستے میں تاجو بہن کے گھر رات گزاروںگا۔“
فقط....مراد
مراد نے پردیس جاکرجوتیوں کی دکان لگالی ،صبح وشام خوب محنت اور جاں کوشی سے پیسے اکھٹے کرنا شروع کیے۔دس پندرہ دن گزرے کہ مراد کی جیب میں اتنے پیسے آگئے جن سے وہ اپنی بوڑھی ماں کے ارمان پورے کرسکتاتھا۔ماں کو خط لکھ کر مراد” تاجو بہن“ کے گھر آجاتاہے۔
یہ دیکھ!تاجو!تیرے لیے سوٹ لایاہوں،یہ رہیں تیری چوڑیاں اور یہ ہیں تیرے لیے خالص سونے کی بالیاں....تاجو یہ سب کچھ دیکھ کر سکتے میں آجاتی ہے اس کو یقین نہیں آرہا ہوتاکہ مراد نے چند دنوں میں یہ سارامال وزر کیسے اکھٹاکرلیاہوگا۔وہ دل ہی دل میں سوچ رہی ہوتی ہے اس بریف کیس میں اوربھی کئی زیورات ہوں گے اور بھی کافی ساری دولت جو”مرادبھیا“ کما لایا ہے اس میں ہوگی۔تاجو کی آنکھوں میں پیسے کی لالچ چمک اٹھتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ کسی بہانے ماں جائے بھائی کو قتل کرکے ساراسامان اپنے پاس رکھ لے۔ مراد کو سلا کر وہ خود اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔
رات تین بجے کا وقت ہوگا کہ تاجو اپنے ساتھ ایک تیز دھار خنجر لیے اس جگہ آپہنچی جہاں اس کا بھائی مراد سویا تھا۔مراد کابدن سفرکی تھکاوٹ سے چُورچُورتھا اس لیے اس کو تاجو کے آنے کی خبر تک نہ ہوئی۔ تاجو، مراد کے سرہانے آپہنچی ایک نظر اپنے بھائی کے چہرے پر ڈالتی اور دوسری نظر تیز دھارخنجر پر۔تاجواپنے آپ کو حوصلہ دیتی ہوئی خنجرکو مراد کے سینے میں اتاردیتی ہے اور یکے بعد دیگرے کئی وارکرکے مراد کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔
ماں، بیٹے سے ملاقات کے لیے بے تاب تھی۔ اس کو سارا گھر کھانے کوآتاہے کبھی وہ اپنے لاڈلے کا خط اٹھاکرسینے سے لگاتی ہے اورکبھی حسرت بھری نگاہیں گھر کی دہلیز پر ٹکادیتی ہے، اس کے لیے ایک ایک لمحہ گزارنا دشوارہورہا ہوتاہے۔ جب مراد دوسرے دن بھی نہ پہنچا تو ماں نے گھرکوتالالگایا اورتاجوبیٹی کے گھر کی راہ لی۔شام ڈھلتے ہی وہ تاجوسے ملی تو پہلاسوال ہی یہ کیا:”تاجو!تیر ابھائی مراد کہاں ہے ؟ تاجو کا دل مارے خوف کے تھرااٹھالیکن جلدہی اس نے ماں کے سامنے جھوٹ بول دیا اور کہاکہ مجھے پتہ نہیں وہ میرے گھر نہیں آیا۔ “
ماں کے آنے سے پہلے ہی تاجو نے اپنے بھائی کی لاش کو گھسیٹااورگھر کے صحن میں گھڑا کھود کر اس میں دبادیا۔اوپر سے مٹی برابر کردی اور مراد کے بریف کیس سے زیورات نکال کر اپنے بدن پرسجانے میں مصروف ہوگئی تھی۔
تاجو نے اپنی ماں کی چارپائی گھر کے صحن میں ڈال دی جس جگہ چارپائی تھی بالکل اسی کے نیچے اس کابیٹا”مراد“ دفن تھا رات کے کئی پہر گزرتے ہیں کہ خواب میں بڑھیا کو مراد آ کر ملتا ہے اورکہتا ہے:” ماں!ماں!جس جگہ توسوئی ہوئی ہے اس کے بالکل نیچے میری لاش پڑی ہے۔“ بڑھیاکا کلیجہ نکلنے کوآتاہے۔ وہ دل تھامے نیند سے اٹھ بیٹھتی ہے اور چیخ مارکر”تاجو“ کوبلاتی ہے تاجو ! تاجو!
تاجو ننگے پاﺅں دوڑے دوڑے آتی ہے
”کیاہواماں؟“
ماں نہایت غصے میں کہتی ہے:”تاجو!تو نے اپنے بھائی کوقتل کردیا۔تاجو تونے پیسے کے لالچ میں میرے” مراد“ کو مارڈالا۔تاجو یہ سب تو نے کیوں کیا ؟ہائے میرا مراد“ پھر ماں بیٹی سے لپٹ کرزورزور سے رونے لگتی ہے۔
اچانک! وہیں ایک بزرگ نمودار ہوتاہوا دکھائی دیتا ہے اور بڑھیا سے کہتاہے: ”بڑھیا!کیا بات ہے ؟کیوں روتی ہو؟“ وہ اس بزرگ کو بتاتی ہے کہ یہ تاجومیری بیٹی ہے اس نے اپنے بھائی کو پیسے کے لالچ میںقتل کرڈالاہے۔
بزرگ نے کہاکہ” اے بڑھیا!تو بغداد والے پیرکوپکار!وہ تیری مشکل حل کردے گا۔ “ بڑھیانے دل میں پیرانِ پیرکوپکارا....بڑھیاکی حالت پر پیرصاحب کو ترس آیا۔چنانچہ بغداد والی سرکار نے آکر اس بڑھیا کی مشکل حل کردی اور مراد کے سینے میں جو زخم پڑ گئے تھے وہ فوراٹھیک ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے مراد موت کے بعد زندہ ہوکر اٹھ بیٹھا۔
بڑھیاکی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں وہ ”میرابیٹا!میرا مراد!“ کہہ کر اس سے چمٹ کر رونے لگی اور پیران پیر کا شکریہ ادا کرنے لگی جس نے اس کے بیٹے کو موت کے بعد زندگی عطا کی۔
قارئین ! یہ وہ ”توحید“ ہے جو آج کل بزرگوں کے مزارات پر جاکر اپنائی جارہی ہے یہ صرف ایک کہانی ہے اس طرح کی کئی کہانیاں سنا کر مسلمانوں کے ایمان کو ختم کیا جارہا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ جب فلاں بابا جی ناچے تو خدا بھی ناچنے لگا ،کبھی معراج کا قصہ سنا کر یہ بتلایا جاتا ہے کہ وہ میم کا پردہ ختم ہوگیا اور دونوں (اللہ تعالی اور حضرت محمد ﷺ)ایک ہوگئے، کبھی حاجت روائی کا اقتدار حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دیا جاتا ہے اور کبھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ہاتھ۔ کبھی خدائی اختیارات ولی اللہ کے سپردہوجاتے ہیں اور کبھی آڑے وقت میں اللہ تعالی کی بجائے پیران پیراور غوث اعظم دستگیر سے مشکل کشائی طلب کی جاتی ہے۔
کیاشرک کے سینگ ہوتے ہیں؟نہیں !اس کی یہی علامات ہوتی ہیں۔ ہائے افسوس! کہ امت کو بزرگوں کے ایسے بے سند واقعات سنا کر ....اب تو دکھلاکربھی....توحیدسے شرک کی طرف لایاجارہا ہے۔ ہم بزرگوں کا احترام اپنے دین کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ”بزرگ ،بزرگ ہوتے ہیں ربوبیت کے اقتدار کے مالک نہیں بن جاتے۔ “
آخرمیں پیرانِ پیرکا ایک قول سناکربات کو ختم کرتاہوں۔فرماتے ہیں:
”اللہ کے سوا درخت کا کوئی ایک پتا بھی نہیں ہلاسکتا۔“
جن بزرگان دین کی تعلیم یہ ہو،ان کانام لے کر عوام الناس کو دین ِمحمدی ﷺ سے شرک کی گھٹا ٹوپ وادیوں میں دھکیلنا۔کیایہی مزارات پرآنے والوں کو تعلیم دی جارہی ہے ؟
ایصال ثواب کرناہم اہل السنة کے ہاں بھی جائز ہے لیکن اس کی آڑمیں زائرین کے ایمان وعقائد کو لوٹنا مزاروں پر بیٹھے” قوّالوں“ کے لیے کیسے جائز ہوسکتاہے؟
اے کاش....میرے قوم سمجھ جائے!!!اور”تاجوبہن“جیسے من گھڑت واقعات سن کر اپنے ایمان سے ہاتھ نہ دھوبیٹھے....
اے کاش!!!