ظہیرالدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ظہیرالدین محمد بابر
امان اللہ کاظم؛لیہ
بابراورعائشہ کی منگنی کی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد دوردرا زسے آئے ہوئے مہمان اپنے اپنے علاقوں کی طرف سدھارگئے۔اندرجان کا شاہی محل دیکھتے دیکھتے خالی ہوگیا اوراس طرح محل کی تمام رونقیں ماند پڑگئیں۔ عائشہ کے ناشائستہ اورمتکبرانہ رویے سے بابر کے ننھے سے دل میں بال پڑچکا تھا اسے اپنے بڑے بزرگوں پر افسوس ہورہاتھاکہ انہوں نے عائشہ جیسی غیرمہذب اورنک چڑھی لڑکی کو اس کے پلے باندھ دیاتھا۔
بابرکی نانی دولت بیگم نے بابرکوایک نہایت ہی پتے کی بات بتائی تھی اورحقیقت بھی یہی ہے کہ تجربہ کاراورسیانے بزرگ اپنے بچوںکوچھوٹی چھوٹی باتوں کے ذریعے زندگی کے بڑے بڑے گُرسکھادیاکرتے ہیں۔ بابر ابھی تک زنان خانے کی حدود ہی تک محدودتھااوراپنی نانی اماں کے زیر تربیت تھازنان خانے سے باہر کی دنیا سے متعلق با برکے پاس صرف اتنی ہی معلومات تھیں جتنی کہ اسے اس کی نانی اماں نے بہم پہنچائی تھیں۔
زنان خانے میں بابر کی نانی اماں ،ماں فتلق نگار بیگم اور بڑی بہن خان زادہ خانم کے علاوہ اس کی سوتیلی مائیںفاطمہ سلطان آغا خانم اور قراقوز بیگم اور اس کی اولادیں جن میں اس کے دو چھوٹے بھائی جہانگیرمرزا(جوکہ فاطمہ سلطان آغا کا بیٹا تھا ) اورناصرمرزا(جوکہ قراقوز بیگم کابیٹاتھا)شامل تھے اس کے ساتھ رہتے تھے اندرجان کے شاہی محل کے زنان خانے سے باہر کی دنیا سے بے نیاز بابر اپنی پڑھائی کی طرف دھیان دے رہاتھا۔
اگرگرمیوں کے دن ہوتے تو اسے پڑھنے کی غرض سے شاہی محل کے ملحقہ باغ میں لے جایاجاتاتھااوراگر سردیوں کے دن ہوتے اورپڑھائی رات کے وقت کرنا ہوتی توزنان خانے کے کسی کمرے میں انگیٹھی کے برابر بیٹھ کروہ اپنا سبق یاد کرلیا کرتا تھا۔
بابر پڑھائی کے معاملے میں اپنے ہم سبقوں سے ہمیشہ بازی لے جاتاتھااوربعض اوقات تووہ اپنے اساتذہ کوبھی ورطہ ِ حیرت میں ڈال دیاکرتاتھا۔وہ عموماً اسے پڑھائے جانے والے رسم الخط کے حروف تہجی پرغورکرتارہتاتھااوراپنے استاتذہ سے سوالات پوچھ پوچھ کر انہیں پریشان کرتا رہتا کہ” الف“ سیدھااورعمودی کیوں ہوتاہے؟ب،پ وغیرہ چپٹے اور لیٹے ہوئے کیوں ہوتے ہیں۔ ج،ل،ن وغیرہ مدّور کس لیے ہوتے ہیں؟ اگرچہ یہ تمام حروف بظاہر دائرے کی شکل میں ہوتے ہیں مگر ایک دوسرے سے بہت الگ ہوتے ہیں۔ ص،ض کے دائرے کو اگر مٹادیا جائے اور بقیہ کے اوپر الف لگادیا جائے تو ط اور ظ کیوں بن جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اساتذہ کے پاس بابر کے سوالات کے لیے کوئی جوابات نہیں ہوا کرتے تھے مگر اس کی تسلی کے لیے اس کے سوالوں کے جواب دے دیا کرتے تھے لیکن وہ اسے مطمئن نہیں کرپاتے تھے۔
بابر کاباپ عمر شیخ مرزا نہایت فربہ جسم کامالک تھااوراس پر مستزاد اس کی توند بھی بڑھی ہوئی تھی اورلباس کے معاملے میں وہ زیادہ خوش پوش بھی نہیں تھااورعموما تنگ اورکساہوالباس پہننے کاعادی تھا۔گویااس کالباس اس کے جسم پرمنڈھاہوادکھائی دیتا تھاجب اسے کسی بات پر ہنسی آتی اوروہ کھلکھلاکرہنس دیتا یاگہراسانس لیتاتواس کے بٹن ایک ہی جھٹکے سے ٹوٹ کرفرش پرآرہتے تھے اورایسا اکثرہوجایاکرتاتھا۔ بابراپنے باپ کوایسے تنگ لباس میں دیکھتاتو اسے بہت کوفت ہوتی تھی۔
اس بات کے علی الرغم عمرشیخ مرزابابرسے بے حدمحبت کرتاتھا۔ پہلوٹھی کابیٹاہونے کے ناطے وہ اسے اپناولی عہد سمجھتا تھااکثر وہ اسے گھوڑے پراپنے آگے بٹھاکرزنان خانے سے باہرلے جاتاتھااوراسے خوب سیرکراتاتھابابرکواس طرح گھوڑے پراپنے باپ کے آگے بیٹھ کرگھومنا بہت اچھالگتاتھا۔
عمر شیخ مرزا اپنے ولی عہد سلطنت کو اپنے آگے بٹھائے کھیتوں کی طرف نکل جاتاتوکھتوں میں کام کرنے والے کاشتکاراپنے سلطان اورولی عہد شہزادے کواپنے قریب پاتے تواحتراما کھڑے ہوجاتے اورجھک جھک کر کورنش بجالاتے اس عمل سے بابر بہت محظوظ ہوتاتھا۔ایک روز عمر شیخ مرزا بابرکوگھماتے گھماتے شہر سے آگے شمال کی طرف واقع پہاڑیوں پرلے گیا بابرنے دیکھاکہ شمال کی طرف بہت دور تک پہاڑیوں کاسلسلہ چلاگیاتھا۔ جن پر عموما ساراسال برف جمی رہتی تھی۔ پہاڑوںکی طرف جانے سے پہلے عمر شیخ مرزا نے اپنے چند معتمد ملازموں کو بلا کر بابر کو گرم لباس پہنوایا۔کیونکہ وہ جانتا تھاکہ ان پہاڑیوں کی فضاءعموماًنہایت ہی خُنک ہوتی تھی کہیں ایسا نہ ہوکہ ننھے ولی عہد کوسردی لگ جائے اوروہ بیمارپڑجائے۔
عمرشیخ مرزا بابر کوایک ایسی پہاڑی پرلے گیاجوقدرے دوسری پہاڑیوں کے نسبتاًکم بلند تھی اس پہاڑی پرسے نیچے کی طرف دور تک میدانی علاقہ دکھائی دیتا تھا۔عمرشیخ نے بیٹے کوبتایا کہ یہاں سے اس کے نانا”یونس خان“ کی سلطنت کاآغاز ہوتاتھا جسے مغلوں کی زبان میں ”مغلستان“ کہاجاتاہے۔ اس کے نانا کی وفات کے بعد یہ وسیع وعریض سلطنت اس کے دو بیٹوں سلطان اورمحمود خان میں منقسم ہوچکی ہے۔سلطان خان بڑا ہے جب کہ محمود خان چھوٹا۔چھوٹا بیٹا محمود خان بڑاخاقان ہے جب کہ بڑا بیٹا سلطان چھوٹا خاقان۔
عمرشیخ مرزا نے دوردور تک پھیلے ہوئے میدان کی اشارہ کرتے ہوئے بابرکوبتایاکہ یہ سرسبز وشاداب میدان مغلوں کی چراگاہ ہے اگر اس میدان سے اورشمال مشرق کی سمت بڑھاجائے تویہ چراگاہ بتدریج ختم ہوتی چلی جاتی ہے اس سے آگے جو سرزمین کے وہ سراسر بے آب وگیاہ ہے۔ حد نظر تک صرف ریت ہی ریت کاٹھاٹھیں مارتا ہواسمندر ہے ریت کے اس سمندرکو”صحرائے گوبی“ کہاجاتاہے۔ یہ لق ودق صحراکم وبیش تین ماہ کی مسافت میں پھیلا ہوا ہے بابر کے ننھے سے ذہن میں یہ پیچیدہ معلومات اس طرح گڈ مڈ ہورہی تھیں کہ وہ ششدرہوئے بغیرنہ رہ سکااس نے لامحالہ اپنے باپ سے پوچھ ہی لیاکہ
”باباجانی! یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی کہ بڑابھائی چھوٹاخاقان ہے اورچھوٹابھائی بڑاخاقان ہے۔ یہ کہاں کاانصاف ہے؟ ہوناتویہ چاہیے تھاکہ چھوٹابھائی چھوٹاخاقان ہوتااوربڑا بھائی بڑاخاقان مگریہاں توالٹی گنگابہہ رہی ہے۔ “
عمر شیخ نے بیٹے کو جواب دیا :”بیٹا! بعض اوقات بڑے بڑے بادشاہوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے یہ سب تو ابھی نہیں سمجھے گاجب توبڑا ہوجائے تو اس پیچیدہ معاملے کی گتھیاں خودبخود تیرے سامنے کھلتی چلی جائیں گی۔“ عمر شیخ نے اپنی گذشتہ بات کوآگے بڑھاتے ہوئے کہا: ”مغلستان کے مغل ہماری طرح محلوں اورپختہ مکانوں میں نہیں رہتے بلکہ وہ چمڑے اورنمدے سے بنے خیموں میں رہتے ہیں اوریہ خیمے بھی کسی ایک جگہ پر مستقلا نہیں رہتے بلکہ خانہ بدوشوں کوہرآن نئی نئی چراگاہوں کی تلاش رہتی ہے اس لیے جہاں بھی انہیںکوئی چراگاہ میسر آجاتی ہے وہ وہاں پر اپنے خیمے گاڑ دیتے ہیں۔ان کی خوراک کادارومدار صرف اورصرف مویشیوں پرہے یہ لوگ اناج کی لذت سے ناآشنا ہیں۔ ان کی خوراک میں چوہے سے لیکرریچھ تک کاگوشت شامل ہے جسے وہ اپنے زوربازوکے ذریعے شکارسے حاصل کرتے ہیں۔ان کی خوراک کادوسرابڑاجز گھوڑی کادودھ اورگھوڑی کے دودھ سے بنی ہوئی شراب نے جسے وہ ”خمیر“کہتے ہیں۔
گھوڑا ان کے نزدیک نہایت اہم جانور ہے وہ اس پر سواری بھی کرتے ہیں اوراس کادودھ بھی پیتے ہیں جب کہ بوقت ضرورت اس کی پچھلی رانوں میں چھید کراس کاخون بھی پیتے ہیں اوراس کاگوشت بھی کھاتے ہیں۔یہ لوگ سراسر جاہل اوراجڈ ہیں ان کے ہاں ہماری طرح نہ تو کوئی مدرسہ اورمکتب ہے اورنہ ہی کوئی پڑھانے والامعلم یاعالم۔ ان کے چمڑے کے خیموں کی سردہواﺅں کے سامنے ایک نہیں چلتی وہ انہیں اکھاڑکراپنے ساتھ اڑائے لیے چلی جاتی ہے۔ خانہ بدوشانہ زندگی گزارتے گزارتے اورسرد طوفانی ہواﺅں سے لڑتے لڑتے یہ لوگ بڑے سخت جان ہوچکے ہیں۔ان کاخاقان بھی ان ہی کی طرح چمڑے کے بڑے سے خیمے میں رہتا ہے جو ایک بہت ہی بڑی سی گاڑی پرنصب ہے۔وہ انہی کی طرح اجڈ، ان پڑھ اورجاہل ہوتاہے تبھی تو وہ ان کے ساتھ رہتاہے۔