صدیق وعتیق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
صدیق وعتیق
مولانا محمد الیاس گھمن
چند لوگ اٹھ کر مکہ کے تاجر کے پاس بھی آپہنچے ”سنا تم نے !اب ایک رات میں بیت المقدس کا سفر بھی طے ہونے لگا ہے“۔ ”کیاہوا؟“ ”ہونا کیاتھا تیرا دوست کہتا ہے کہ میں نے ایک رات میں بیت المقدس اور آسمانوں کا سفر کیاہے تو بتلا بھلا یہ بات عقل کو لگتی ہے؟“ ”اگر وہ کہتا ہے تو بالکل سچ کہتا ہے۔“ایک طرف مادہ پرست تھے جن کو اپنی عقل نارساابھی تک معجزہ کی حقانیت نہیں سمجھنے دے رہی تھی دوسری طرف ابوبکر تھے جنہوں نے بلا تردد کہا کہ اگر محمد ﷺ کہتے ہیں تو بالکل سچ کہتے ہیں۔
ابوبکر سرداران قریش کے ہمراہ آپ کے دربار میں حاضر ہوئے قریش مکہ بیت المقدس کے بارے سوال کرتے آپ جواب دیتے دوسرا اعتراض کرتے آپ جواب دیتے ادھر آپ جواب عنایت فرماتے ادھر ابوبکر کی زبان سے یہ الفاظ جاری ہوتے :”واللہ آپ سچ فرماتے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ خدا کے رسول ہیں۔“ جب رسول ا قدس ﷺ جوابات سے فارغ ہوئے تو فرمایا ”اے ابوبکر!تم صدیق ہو۔“ چنانچہ اسی روز سے آپ کا لقب صدیق پڑگیا۔
جناب صدیق اکبر ؓ نے آپ ﷺ سے وفا کی وہ تاریخ رقم کی جورہتی دنیا تک یادر رہے گی۔ سفر حضر،امن،جنگ،خوشی،غمی غرضیکہ زندگی کے تمام حصوں میں آپ ؓ نے آقا کادامن نہ چھوڑا۔دور نبوت کے لمحے گزرتے رہے فرحت اور رنج کے نشیب وفراز کٹتے رہے ہجرت کے مدو جزر طے ہوتے رہے شمع رسالت کا پروانہ ساتھ ساتھ چلتا رہاآپ ﷺ کی زبان اقدس سے صادر ہونے والے جناب صدیق کے بارے مناقب کی ایک فہرست بنتی چلی گئی۔
کبھی ارشاد فرماتے ”اگر میں اپنے آپ کے علاوہ کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا۔“ کبھی فرماتے: ”اے صدیق! تو جہنم کی آگ سے آزاد ہے۔“ کبھی فرماتے ہیں ”ابوبکر تو جنت میں ہوگا۔“ کبھی فرماتے:”اے ابوبکر! تو پوری امت میں پہلا وہ شخص ہوگا جو جنت میں داخل ہوگا“ کبھی فرماتے :”اے ابوبکر تو حوض (کوثر) پر بھی میرا ساتھی ہے تو غار میں بھی میرا ساتھی ہے۔“ کبھی فرماتے :”کسی قوم کے لیے مناسب نہیں کہ جس میں ابوبکر ہواور وہ کسی اور امام بنائے۔“ کبھی فرماتے: ”میرے بعد لوگوں میں سے سب سے بہتر اور اچھا ابوبکرہے۔“ کبھی فرماتے :”مجھے جبرائیل ملے اور میںنے کہا کہ میری قوم نے میر ی تصدیق نہیںکی جبرائیل نے مجھے جواب دیا کہ تیری تصدیق ابوبکر نے کی اور وہ صدیق ہے۔“
کبھی فرماتے :”جن پر سورج طلوع اور غروب ہوتاہے ابوبکر ان سب سے بہتر ہیں۔“ کبھی فرماتے: ”ایک آدمی جنت میں داخل ہوگا سب اس کو مرحبا مرحباکہیں گے اور اے ابوبکر وہ جنتی تو ہوگا۔“ کبھی فرماتے: ”تمام لوگوں کا حساب کیاجائے گا سوائے ابوبکر کے۔“ کبھی فرماتے:”میں جنت میں داخل ہوا، اسریٰ والی رات ،تو میں نے حور عینا کو دیکھا جو بہت حسین وجمیل تھی میںنے اس سے پوچھا تو کس کے لیے ہے اس نے مجھے جواب دیا کہ جو آپ کے بعد خلیفہ ہوگا۔(صدیق اکبر کے لیے)“
کبھی حاضرین مجلس کو فرماتے:”تم پر ابھی جنتی آدمی ظاہر ہوگا اس کے بعد ابوبکر ظاہر ہوئے اور سلام کرکے بیٹھ گئے۔“ کبھی فرماتے:”ابوبکر سے کہوکہ لوگوں کو نما زپڑھائے۔ “ کبھی فرماتے: ”میں اسلام کی تلوار ہوں اور مرتدین کو ختم کرنے والی تلوار ابوبکرہے۔“
اس طرح کے اقوال آپ علیہ السلام جناب صدیق اکبر ؓکے بارے میں ارشاد فرماتے رہتے ،وقت چلتا رہا،چلتا رہا، دنیائے اسلام اپنی تابانیوں سے مزید نکھرتی رہی۔ خدا کے پیغامبر اپنا فریضہ مکمل کر چکے تو وعدہ پورا ہونے کا وقت آن پہنچا” کل نفس ذائقة الموت“ آپ اپنے مقام پر جا پہنچے اور آج بھی اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں۔ حاضرین اور زائرین کا سلام سنتے ہیں.... اللہ ہمیں بھی اس در کی باربار حاضری کی توفیق بخشے.... خدا کی امانت کو خدا کے حضور سپرد کرکے امت مرحومہ غم میں نڈھال تھی عمرؓ جیسا جری جوان بھی کہہ رہاتھا کہ” جس نے کہا کہ نبی فوت ہوگئے میں اس کا سر قلم کردوں گا۔“ اس نازک وقت میںجناب صدیق اکبرنے امت کو سنبھالا اور فرمایا: ”اللہ آپ ﷺ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔“ ایک موت تو آپ پرآگئی اور اس کے فوراً بعد حیات مل گئی اب یہ حیات قبر میں ختم نہ ہوگی یعنی دوسری موت نہیں آئے گی۔
اس کے بعد جب آپ خلیفہ بنے تو سب سے پہلے آپ نے ایک خطبہ دیا جس میںمعاشرے میں انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی۔چنانچہ فرمایا:”اے لوگو!میں تم پر ولی بنایا گیا ہوں۔ حالانکہ میں تم میں بہتر نہیں ہوں،لہذا اگر میں نیکی کرو ںتو تم میری مددکرواور اگر میں برائی کروں تومجھے سیدھے رستے کی تلقین کرو۔سچی بات امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے جو تم میں کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے میں ان شاءاللہ اس کو اس کا حق دلواﺅں گا اور جو تم میں قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے میں اس سے حق دلواﺅں گا۔
اے لوگو!جس قوم نے خدا کی راہ میں جہاد کرنا ترک کیا اللہ نے اس قوم کوذلیل وخوار کیا جس قوم میں گندے افعال رواج پاجائیں اللہ ان پر بلائیں نازل کرتا ہے۔ اے لوگو! جب تک خدا اور رسول کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو اور جب میں خدا اور رسول کی نافرمانی کرو ں تو تم میری اطاعت نہ کرو۔“یہ وہ خطبہ تھا جس کو اگر آج بھی لائحہ عمل بنالیا جائے تو امن وعافیت کی بہاریں چل پڑیں اس ایک خطبے میں عوام اور حکمران دونوں کے لیے ایسے اصول اور ضوابط ہیں جن کو اپناکر خوشحالی اور امن وسکون کی زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔