ایک ماں کا انتظار

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ایک ماں کا انتظار
بنت بشیر احمد؛لاہور
”اے اللہ! میرے بیٹے کو اپنے حفظ وایمان میں رکھنا۔ اے اللہ !اسے بُرے دوستوں کی صحبت نے برا کردیا۔ اے میرے مولا! اسے صراط ِمستقیم دکھا،اے بادشاہوں کے بادشاہ! تجھے تیری بادشاہت کا واسطہ؛ مجھے میرے بیٹے سے صرف ایک بار ملوادے ،اے میرے مولا !میرے لعل کو واپسی کا راستہ دکھا دے۔ اے خالق کائنات! اک ماں تیرے سامنے جھولی پھیلائے بیٹھی ہے اپنے بیٹے کی خیر وعافیت کی دعا مانگتی ہے۔“ اور پھر اس کی آواز سسکیوں میں بدل گئی ،وہ رات کے اس پہر جس میں تمام لوگ محو خواب ہوتے ہیں اپنے بیٹے کی خیر وعافیت کی دعا مانگ رہی تھی۔
وہ رات کے آخری پہر اپنے بیٹے کا انتظارکررہی تھی، اس کی نگاہیں دروازے پرٹکی ہوئی تھیں۔ اس کا شوہر اورا س کے بچے اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے مگر ماں کا دل تو شاید اللہ نے اولادہی کی محبت کے لیے بنایاہے، وہ آج بھی ہر روز کی طرح اپنے بیٹے عمران کا انتظار کررہی تھی جسے وہ اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی تھی جس کے لیے وہ ہر ایک سے لڑنے کو تیار ہوجاتی تھی، جس کے آنسو اسے تڑپا دیتے تھے۔
وہ ہر وقت اپنے عمران کے مستقبل کے بارے میں سوچتی رہتی اس کی ساری کی ساری امیدیں اپنے بیٹے سے وابستہ تھیں۔اللہ نے اسے تین بیٹوںاور ایک بیٹی سے نوازا تھا ان میں سب سے بڑا عمران تھا،لائق اور فرماںبردار، ہر ایک کی آنکھوں کا تارا! مگر پھر قسمت نے عجیب کھیل کھیلا۔ بُرے دوستوں نے اسے نشے کا عادی بنا دیا۔ برے لوگوں کی بری صحبت نے اسے آوارہ، بے پروا،نالائق ،نافرمان اور نجانے کیاکیا بنادیا! پھر ایک دن ایک طوفانی رات میں اس نے اپنی ماں کے زیورات پکڑ ے ،گھر کا قیمتی سامان لیااور گھروالوں کو خیر باد کہتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا۔آج اسے چار سال بیت گئے مگر اس کی خیرخبر اس کے ماں باپ تک نہ پہنچی اسے ہر جگہ تلاش کیا گیامگر وہ کہیں نہ ملا۔
اس کے بہن بھائیوں نے اس کو بھلادیا مگراس کی ماں ہر پل اسے یاد کرتی۔ راتوں کو اٹھ کر اپنا آنچل پھیلا کر اپنے رب سے اپنے بیٹے کی واپسی کی دعائیں مانگا کرتی تھی، اس کے آنسو اس کے آنچل کو بھگو دیتے مگر وہ اس بات سے بے خبر اپنے بیٹے کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی ہوتی اسے ہر پل اپنے بیٹے کا انتظار رہتا ،وہ ہر گھڑی اپنے بیٹے کے قدموں کی آہٹ کو ترستی۔
بادل کی گرج، بجلی کی چمک، موسلادھار بارش اوراندھیری رات میں دروازے پر دستک ہوتی ہے اندر سے آوازآتی ہے ”کون؟“ دستک دینے والا خاموش رہتا ہے۔دستک ایک مرتبہ پھر ہوتی ہے۔ دوسری مرتبہ آواز آتی ہے ”ارے بھئی کون ہے ؟کوئی بولے گا بھی یا نہیں؟“ باہر سے آواز آتی ہے” آپ کا بیٹا“ دروازہ فوراً کھلتا ہے اور ایک ماں اپنے برسوں کے بچھڑے بیٹے سے ملتی ہے سارے شکوے بھلا کر اسے گلے سے لگالیتی ہے اس کی پیشانی پر بوسوں کی برسات کردیتی ہے حالانکہ اس ماں کو بیٹے سے ہزاروں شکوے کرنے چاہیے تھے اس کے لیے دروازہ بھی نہیں کھولنا چاہیے مگر” ماں تو ماں ہوتی ہے۔ “
یہ ایک ماں کا ردِ عمل تھا جو اپنے بچھڑے ہوئے بیٹے سے اس قدر خوشی سے ملی ذرا سوچئے ایک نہیں،دونہیں،ستر ماﺅں سے بھی زیادہ کاپیار جس ذات کے اندر موجود ہے وہ ہم سے کتنا پیار کرتا ہے۔آئیے! اپنے رب کاپکاریں؛ ہزارہا برس بھی گناہ کرکے اس کے دروازے پر جائیں تو وہ ہم سے کوئی شکوہ نہیں کرے گا بلکہ اپنی رحمت سے گناہوں پر بھی پردہ ڈال دے گا۔ اس لیے اس کا اعلان ہے :”یاایھاالانسان ما غرک بربک الکریم۔“ اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے رب کریم سے دھوکے میں ڈالا۔آئیے !اپنے رب کومنالیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے اور زندگی والی مہلت بھی ختم ہوجائے !!!