بھروسہ خدا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بھروسہ خدا
فوزیہ کڑنگی'مانسہرہ
ڈاکٹر صاحب تھوڑے بہت تو پیسے میں کرلوں گی لیکن ایک لاکھ روپے تو نہیں ہوسکتے میں تقریباًروتے ہوئے بولا۔اب یہ تمہارا مسئلہ ہے کہ تم نہیں کرسکتے یا کر سکتے ہو۔وہ اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے بولا۔
ڈاکٹر کورخصت کرنے کے بعدمیں پھرسوچ میں پڑگیاایک لاکھ روپے۔ وہ بھی کل تک۔ قریب تھا کہ میں چکراتا اورگر پڑتالیکن میں نے اپنے آپ کو سنبھالااورکمرے کی طرف چل دیا۔
میں اکلوتا بیٹاتھا جب چھٹی جماعت میںتھاتو ایک حادثے میں ابواللہ کوپیارے ہوگئے اب صرف میں اورامی ہی رہ چکے تھے۔ابوکی تھوڑی بہت پنشن تھی جس سے گھرکاخرچ چل جاتاتھا۔میری عمر بھی اتنی نہ تھی کہ کوئی کام کرتا۔ہمارے اس چھوٹے سے گھرانے میں پھر بھی ہمیشہ خوشی ہی ہوتی کبھی بھی امی نے مجھے ابوکی کمی نہ محسوس ہونے دی۔ امی کی اچھی تربیت کی وجہ سے میںبھی ان کی ہر بات مانتا کبھی بھی ان کی بات پر”نہیں“نہیں کہا۔
پچھلے دنوں میری امی کینسر کے مرض میں مبتلاہوگئی تھیں اوراب ڈاکٹر علاج کے لیے ایک لاکھ روپے مانگ رہا تھا میرے میٹرک کے امتحان بھی تھے اورساتھ میں امی کی بیماری۔ دودوپریشانیاںمیرے سر پر تھیں۔شاید میرے رب کی آزمائش تھی۔ میری تو نہ نوکری تھی اور نہ ہی علاج کے لیے پیسے تھے اورتواورسکول جاتے وقت پاکٹ منی بھی امی ہی دیتیں۔کہہ بھی کیا سکتا تھا امی کا دل رکھنے کے لیے روتا بھی نہ تھا۔ امی کوخوش رکھنے کے لیے اپنے آپ کو ہمیشہ خوش ہی ظاہر کرتا۔ماں نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا تو سکھایا ہی نہ تھا۔ بس! خداسے ہی مانگنے کی اجازت تھی اور مجھے بھی اپنے رب پر سو فیصد یقین تھا۔
عشاءکی نماز پڑھنے کے بعدامی کودوائی دی اور کمرے میں چلاگیا۔جائے نمازڈالی اوراپنے رب کے آگے عاجزی وانکساری سے دعائیں شروع کردیں۔روروکرمیرابراحال ہو رہا تھا۔جائے نمازآنسوﺅں سے تر ہوچکی تھی۔نیند تو مجھ سے کوسوں دور تھی۔ مساجد سے آذانوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔اپنے رب کو قریب پانے لگا تورات کا بھی پتہ نہ چلا۔ اچانک دروازے پردستک ہوئی۔اس وقت کون ہوسکتاہے؟میں اٹھااوردروازے کھولنے چلاگیا۔
بیٹا!یہ تمہارے ابوکی امانت کہہ کر مدین چچامیری طرف ایک لفافہ بڑھائے ہوئے بولے:”اوریہ میری طرف سے ایک خط بھی ہے۔“
وہ توکاغذدے کر چلے گئے۔لیکن میں حیرانگی سے ان کو دیکھتاہی رہا۔کاغذ کھولاتو لکھاتھا:”بیٹا!تمہارے ابو نے مجھے ایک لاکھ روپے امانت کے طورپردیے تھے جو مجھ سے خرچ ہوگئے میں نے ارادہ کیاکہ جب مجھے پنشن ملی تودوں گا۔کل مجھے رات کورقم مل گئی توآج سب سے پہلے تمہارے ابوکی امانت لوٹانے آیاہوں۔“
خط پڑھ کر بند کیا تومیری آنکھوں میں آنسو تھے۔ شاید میری التجائیں قبول ہوگئیں تھیں مجھے رب پربھروسہ تھاتوواقعی اس نے میری مدد کی۔اپنے رب کا شکراداکرنے کے لیے میں سربسجود ہوگیا۔