ہماری مائیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ہماری مائیں
ام محمد رانا
سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا
نام و نسب:
زینب نام، ام الحکیم کنیت، تعلق قبیلہ قریش کے خاندان اسد بن خزیمہ سے ہے۔
سلسلہ نسب:
زینب بنت جحش بن رباب بن یعمر بن صبرہ بن مرہ بن کثیربن غنم بن دودان بن سعد بن خزیمہ۔
والدہ کا نام امیمہ تھا جو عبدالمطلب جد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر تھیں اس بنا پر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پھوپھی زاد بہن تھیں۔
اسلام:
نبوت کے ابتدائی دور میں اسلام لائیں اسدالغابہ ج5 ص 463 میں ہے کانت قدیمة الاسلام کہ وہ قدیم الاسلام تھیں۔
نکاح:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو آپ کے آزاد کردہ غلام اور متبنیٰ تھے، ان کا نکاح کردیا۔اسلام نے دنیا میں مساوات کی جو تعلیم رائج کی ہے اور پست وبلندکو جس طرح ایک جگہ پر لاکر کھڑاکردیا ہے،اگرچہ تاریخ میں اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں لیکن یہ واقعہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ان سب پر فوقیت رکھتاہے۔ قریش اور خصوصاً خاندان ہاشم کوتولیت کعبہ کی وجہ سے عرب میں جو درجہ حاصل تھا اس کے لحاظ سے شاہان یمن بھی ان کی ہمسری کا دعوی نہیں کرسکتے تھے لیکن اسلام نے محض تقوی کو بزرگی کا معیارقراردیااور فخر وادعاءکوجاہلیت کا شعار ٹھہرایاہے،اس بناپراگرچہ حضرت زید رضی اللہ عنہ بظاہرغلام تھے تاہم چونکہ وہ مسلمان اور مردصالح تھے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ حضرت رضی اللہ عنہا کا عقد کردینے میں کوئی مضائقہ نہ ہوا۔
تقریبا ایک سال تک دونوں کا ساتھ رہالیکن پھر تعلقات قائم نہ رہ سکے اور نوبت طلاق تک جاپہنچی چنانچہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے طلاق دے دی۔
حرم نبوت میں آنا:
عرب میں ایک جاہلیت کی رسم تھی کہ جسے متبنّیٰ(منہ بولا بیٹا)بنایاجاتاتھااسے حقیقی بیٹا ہی تصور کیا جاتاتھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متبنی کی مطلقہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کرکے اس جاہلانہ رسم کا قلع قمع کیا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی اس میں حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔
روایت حدیث:
روایتیں کم کرتی تھیں کتب حدیث میں ان سے صرف گیارہ روایتیں منقول ہیں۔ راویوں میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا،زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا، محمد بن عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ اور کلثوم بنت طلق شامل ہیں۔
اخلاق:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضرت زینب نیک خو،روزہ دار،ونماز گذار تھیں۔
(زرقانی )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کوئی عورت زینب رضی اللہ عنہا سے زیادہ دیندار،پرہیزگار،زیادہ راست گفتار،زیادہ فیاض،مخیر اور خداکی رضاجوئی میں زیادہ سرگرم نہیں دیکھی۔
زہد و تقویٰ:
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا زہدوتقوی اور تورع میں یہ حال تھا کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی گئی اور اس تہمت میں خود حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی بہن حمنہ شریک تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اخلاقی حالت دریافت کی تو انھوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا”ماعلمت الاخیرا“ مجھ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھلائی کے سوا کسی چیز کا علم نہیں۔
عبادت میں نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ مصروف رہتی تھیں۔ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین میں مال تقسیم کررہے تھے، حضرت زینب رضی اللہ عنہا اس معاملے میں کچھ بول اٹھیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ڈانٹا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان سے درگذرکرو یہ ”اواہ“ ہیں ( یعنی خشوع خضوع اورتواضع واتقوی والی ہیں)
(اصابہ ج ۸ص ۹۳)
وفات:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے فرمایاتھا کہ تم میں مجھ سے جلدوہ ملے گی جس کا ہاتھ لمباہوگا۔یہ استعارہ فیاضی کی طرف اشارہ تھالیکن ازواج مطہرات اس کو حقیقت سمجھیں چنانچہ باہم اپنے ہاتھوں کو ناپاکرتی تھیں۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا فیاضی وسخاوت کی بنا پر اس پیشین گوئی کا مصداق ثابت ہوئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت جونو بیویاں چھوڑیں تھیں ان میں سب سے پہلے ان ہی کی وفات ہوئی۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے۵۳ سال کی عمرعزیزپائی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اللہ ان سے راضی ہوں اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائیں۔