نشئہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
نشئہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
خبیب احمد گھمن'سرگودھا
یہ شکار گاہ عام نہیں تھی، سلطنت کا شہزادہ ہی یہاں شکار کھیل سکتا تھا۔ اس وقت وہ اپنے پورے دستے کے ساتھ شکار کے لیے نکلا ہوا تھا۔ جانوروں کو جھاڑیوں اور کھائیوں سے نکالنے کے لیے سپاہی دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔اچانک ایک سپاہی کی نظر ایک اجنبی پر پڑی سپاہی بڑا حیران ہوا کہ یہ کون گستاخ ہے ؟اور یہاں کیا کر رہا ہے؟ اس نے گھوڑے کا رخ اس کی طرف موڑا۔ کچھ ہی دیر کے بعد وہ اس کا راستہ روکے کھڑا تھا۔
”منحوس شخص! یہاں کیا کر رہا ہے؟ تجھے نہیں معلوم یہ شاہی شکار گاہ ہے“
اجنبی کوئی عام شخص نہیں تھا۔ ان کا نام شیخ جمال الدین ایرانی تھا۔ ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ ایک پرہیزگار اور نیک انسان ہیں۔ مگر تاتاری سپاہی تو اسے ایک شکست خوردہ قوم کا؛ فرد سمجھتا تھا اور اسے بھلا ایک عالم دین سے کیا دل چسپی ہو سکتی تھی۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو آواز دے کر بلایا اور شیخ کو گرفتار کر لیا۔ تاتاری سپاہی اپنے قیدی کو شہزادے کے سامنے لے گئے اس شہزادے کا نام” تغلق تیمور “تھا اور وہ تاتاریوں کے ایک بڑے قبیلے چغتائی کا ولی عہد تھا۔ ایران پر اب اسی قبیلے کی حکومت تھی۔وہ شیخ جمال الدین کو دیکھ کر بڑا برہم ہوااور اس کی زبان سے نکلا:”تم اچھے ہو یا میرا یہ کتا؟“
شیخ جمال الدین شہزادے کی نفرت انگیز بات کے جواب میں بولے:”اگر میں اپنے خدا کی پیروی کروں تو میں اچھا ہوں ورنہ یہ کتا مجھ سے اچھا ہے۔“شیخ کے اس جملے نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس نے حکم دیا:”اس ایرانی کو شکار کے بعد پیش کیا جائے“
شکار کے دوران تغلق شہزادہ، شیخ کی بات پر غور کرتا رہا،شکار سے فارغ ہوتے ہی اس نے شیخ کو طلب کیا شیخ آئے تو اس نے وہاں موجود تمام لوگوں کو خیمے سے باہر نکال دیا،پھر بولا: ”اے ایرانی! آخر بتاوتو سہی تمہارا دین کیا ہے؟جس پر تمہیں اتنا ناز ہے۔“
شیخ اسی بہادری اور اعتماد سے بولے: ”شہزادے! ہمارا دین مجھے، تمہیں، اس دنیا کے ہر انسان کو، یہ بتاتا ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے، ہر انسان نے مر جانا ہے اور مر کر اپنے رب کے سامنے پیش ہونا ہے۔ پھر اس کا رب اس سے پوچھے گا کہ تم نے زندگی اچھے انسان کی طرح بسر کی یا برے انسان کی طرح؟ اگر وہ برا انسان ہوا تو اسے کبھی نہ ختم ہونے والے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا اور اگر وہ اچھا ہوا تو اسے دل پسند زندگی نصیب ہوگی۔“
شہزادے کے لیے دین کی یہ تشریح بڑی سادہ، صاف اور دل کو لگنے والی تھی۔ اس نے کہا:
”اے شیخ، مجھے اپنے دین کے بارے میں تفصیل سے بتاو
شیخ نے اسے اسلام کے متعلق مزید بتایا، پھر اس کے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا۔ اس گفتگو نے تغلق شہزادے کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھرکہنے لگا:”اے شیخ! اگر میں اس وقت ایمان لے آیا تو کچھ حاصل نہ ہوگا۔ لیکن اگر میں نے بادشاہ بننے کے بعد اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا تو ساری رعایا مسلمان ہو جائے گی۔ میں دل سے اسلام قبول کرتا ہوں لیکن اس کا اعلان بادشاہ بننے کے بعد کروں گا۔“
شیخ جمال الدین نے شہزادے کے فیصلے کو درست قرار دیا۔
شہزادہ پھر بولا: ”اے بزرگوار، اب آپ جایئے اور جب میں تخت پر بیٹھوں تو بے دھڑک میرے پاس چلے آیئے اور میرا وعدہ مجھے یاد دلایئے!“
شیخ جمال الدین، شہزادے کے کہنے کے مطابق خاموشی سے واپس چلے گئے اور شہزادے کے بادشاہ بننے کا انتظار کرنے لگے۔ دن، ہفتوں میں بدلے اور ہفتے مہینوں میں۔ اسی طرح کئی برس گزر گئے لیکن شہزادے کے بادشاہ بننے کی خبر سننے میں نہ آئی۔ اسی دوران شیخ بیمار پڑ گئے اور ان کی بیماری دن بدن بڑھنے لگی۔ شیخ کو احساس ہوگیا کہ اب ان کا آخری وقت آگیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے شیخ رشید الدین کو بلایا، تاتاری شہزادے کا سارا واقعہ تفصیل سے اسے بتایا اور آخر میں وصیت کرتے ہوئے کہنے لگے:
”دیکھو بیٹا! میں شہزادے سے ملنے کے بعداس مبارک گھڑی کا انتظار کرتا رہا لیکن شاید میری زندگی میں ایسا ہونا ممکن نہیں، اس لیے اب یہ کام میں تمہارے ذمے لگا رہا ہوں۔ تمہیں جیسے ہی شہزادے تغلق کے تخت نشین ہونے کی خبر ملے، فوراً اس کے پاس چلے جانا اور اسے میرا حوالہ دے کر اس کا وعدہ یاد دلانا۔“ اس وصیت کے کچھ ہی دنوں بعدشیخ جمال الدین کا انتقال ہوگیا۔
آخر وہ گھڑی آ ہی گئی جس کا شیخ رشید الدین کو بے چینی سے انتظار تھا۔ ہر طرف سرکاری ڈھنڈورچی یہ اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ شہزادہ” تغلق تیمور“ کی تاج پوشی کا جشن منایا جا رہا ہے۔شیخ رشید الدین نے جشن کے اس مو قع پر بادشاہ سے ملنے کا فیصلہ کیا اور اپنے شہر سے جشن والی جگہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ تاتاری اپنے جشن محلات کے بجائے کھلے میدانوں میں مناتے تھے ”تغلق تیمور“ نے بھی اس جشن کا اہتمام ایک کھلی جگہ پر کیا تھا۔ میدان میں ہر طرف شان دار خیمے نصب تھے۔شیخ رشید الدین بادشاہ کے خیمے تک پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ خیمے کے اردگرد سخت پہرہ ہے، دربانوں کے چاق و چوبند دستے نے خیمے کو گھیر رکھا تھا۔ شیخ رشید الدین ان دربانوں سے بالکل نہیں گھبرائے، ان کے سردار کے پاس پہنچے اور کہنے لگے:
”مجھے تمہارے بادشاہ سے ملنا ہے۔“ دربان نے ایک ایرانی مسلمان کو سادہ سے کپڑوں میں دیکھا تو حیران ہوتے ہوئے بولا: ”تمہیں کیا کام ہے بادشاہ سے؟“”مجھے ان سے ذاتی کام ہے۔“شیخ نے اعتماد سے کہا۔
دربان نے ایک طنزیہ نظر ان پر ڈالی اور ان کو دھکے دے کر وہاں سے نکال دیا۔ مگر واپس شہر جانے کے بجائے وہ خیموں کے پاس ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ ساری رات جشن کا ہنگامہ بپا رہا، فجر کا وقت ہوا تو شیخ اٹھے، انہوں نے وضو کیا اور بلند آواز سے اذان کہنی شروع کی: ”اللہ اکبر اللہ اکبر“ خاموشی کے اس عالم میں شیخ کی آواز خوب گونجی، بادشاہ ساری رات جشن منانے کے بعد تھوڑی ہی دیر پہلے سویا تھا شیخ کی آواز نے اسے جگا دیا۔ اذان کی آواز اس کے لیے بالکل اجنبی تھی، اس کا کوئی لفظ اس کی سمجھ میں نہ آیا۔ اسے شدید غصہ آیا، اس نے چیخ کر اپنے دربانوں کو حکم دیا کہ اس گستاخ کو پکڑ کر اسی وقت میرے سامنے حاضر کیا جائے۔
دربان آواز کی سمت لپکے، شیخ کو پکڑا اور مارتے پیٹتے بادشاہ کے سامنے لا حاضر کیا۔ بادشاہ غصے سے بولا:
”ابے احمق فقیر، یہ تم کیا کر رہے تھے؟“شیخ رشید الدین نے بادشاہ کے سوال کو سنا اَن سنا کردیا اور کہنے لگے:”اس خدا کے ایک حکم پر عمل کر رہاتھا جس کو نہ مانتا تو، اپنے باپ جمال الدین کے کہنے کے مطابق، کتے سے برا ہوتا!“
شیخ کی اس بات نے بادشاہ کے غصے کو حیرت اور تجسس میں بدل دیا۔ وہ شیخ کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ شیخ بولے: ”بادشاہ سلامت میں شیخ جمال الدین کا بیٹا ہوں، رشید الدین، یاد ہے آپ کو وہ واقعہ جب آپ شکار کر رہے تھے اور میرے والد سے آپ کا سامنا ہوا تھا۔“ یہ کہہ کر انہوں نے سارا واقعہ بیان کر دیا۔ نیند بادشاہ کی آنکھوں سے کوسوں دور جا چکی تھی، وہ بولا:”اے نیک دل شخص، مجھے تمہارے والد سے کیاگیا وعدہ یاد ہے اور سچ پوچھو تو میں اسی دن کے انتظار میں تھا۔“
پھر اسی وقت بادشاہ نے شیخ رشید الدین کی رہنمائی میں اسلام قبول کر لیا۔ جیسے ہی ایران میں بادشاہ کے اسلام لانے کی خبر مشہور ہوئی، تاتاری بھی اسلام قبول کرنے لگے۔ پہلے دن ایک لاکھ ساٹھ ہزار آدمیوں نے اسلام قبول کیا۔ اس سے قبل کہ تاتاری اسلامی تہذیب و تمدن کا نام و نشان مٹا ڈالتے، اللہ کے دین نے ان کو اپنے رنگ میں رنگ دیا۔ اسلام کے دشمن، اسلام کے پاسبان بن گئے۔