عیادت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عیادت
ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی
ایک روزشاہ جی کی طبیعت ناساز ہوگئی سارے احباب عیادت کے لیے آئے میر صاحب نے پوچھا کہ شاہ جی آپ کے دشمنوں کی کیا طبیعت خراب ہے ؟فرمایاکہ میاں بیماری تو سب ہی کو آتی ہے دوست ہو یا دشمن البتہ عام لوگ دوست کے بیمار ہونے پر دل گرفتہ ہوتے ہیں اور دشمن کی بیماری پر دلشاد جب کہ داناآدمی دوست کی بیماری پر اس کی عیادت اوراس کے لیے دعائے صحت کرتا ہے اور دشمن کی بیماری پر خود عبرت پکڑتاہے اور دشمن کے لیے دعائے ہدایت کرتاہے۔ میرصاحب نے کہا:”بھائی! میں نے آپ کے اصلی دشمنوں کی بات نہیں کی تھی میں نے محاورے کے دشمنوں کی بات کی تھی مقصود یہ تھا کہ آپ کی طبیعت خراب ہے ؟ “شاہ جی نے کہا کہ امیروں کی بیماریاں بلڈ پریشر، شوگر اور دل کا عارضہ ہیں جب کہ غریبوں کے امراض اسہال،بخار اور تپ دق ہیں۔ ہم فقیر آدمی ہیں تو بیماری بھی ہمارے مرتبہ ومقام کے مطابق ہی ہوگی ہمیں بخار ہوگیاتھا شکر ہے مولا کا۔
ملک صاحب بولے شاہ جی بیماری کوئی نعمت ہے جس پر شکر ادا کیا جائے؟ شاہ جی نے کہا میاں شکر اس بات پر کیا ہے کہ بخار ہی ہوا تھا کوئی خطرناک بیماری ہوجاتی تو ہم کیاکرلیتے؟ اور ویسے بھی اگربصیرت کی نظرسے دیکھاجائے تو عام بیماری بھی ایک نعمت ہے کہ صحت کی قدر جاننے کا بہانہ بھی ہے گناہوں سے توبہ کرنے کا موقع بھی۔ احباب سے ملاقات اور تجدید تعلقات کاوسیلہ بھی دوست اور دشمن کے پرکھنے کا ذریعہ بھی اور معا لجین کی روٹی پانی کے بندوبست کا سبب بھی ہے۔البتہ یہ بات بدن کی بیماری کے لیے ہے دل اور روح کی بیماری سے خداکی توبہ کہ
نیست بیماری چو بیماری دل
تن کی بیماری سے انسان بے چین ہوتا ہے اور دل کی بیماری سے انسان بے ایمان اور روح کی بیماری سے ایمان فروش یا دین فروش ہوجاتاہے۔دولت میں خیانت کانام بے ایمانی ہے اور دین میںخیانت کا نام ایمان فروشی۔ طبیب مریض کی کمزوری کو، وکیل اپنے موکل کی خیانت کو اور پیر مرید کی حماقت کو اچھی طرح جانتاہے اور خداوند تعالی کو ہر چیز کا علم ہے کہ علام الغیوب ہے وہ تو آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے پوشیدہ رازوں کو جانتا ہے۔
میر صاحب نے کہا شاہ جی ہم آپ کی عیادت کے لیے آئے ہیں وعظ سننے نہیں آئے یہ بتائیے !ہم آپ کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟آپ کوکسی چیز کی طلب ہوتو فرمائیے ہم فوراً پیش کردیں گے۔فرمایاہاں یاد آیا کہیں پڑھا تھا کہ کسی اہل دل کا دوست اس کی عیادت کے لیے کئی دن کے بعدآیا اور پوچھا دوست تجھے کس چیز کی طلب ہے ؟ اس اہل دل نے بڑا معنی خیز جواب دیا تھاکہ مجھے دل بریاں کی طلب ہے۔ کسی اہل نظر نے کہا تھا کہ ایک پڑوسی اپنے ہمسائے کی عیادت اس احساس تفوق کے نشے میں سرشار ہوکرکرتاہے کہ ہماراہمسایہ بیچارا بے بس پڑاہے۔
ملک صاحب نے کہا ایک بہرے شخص کے پڑوسی کوملیریا بخار ہوگیااس بہرے نے سوچا کہ پڑوسی کی عیادت کرنا ضروری ہے لیکن میں بہرا ہوں اس کی بات سن نہیں سکتااس لیے صرف چند باتیں کہوںگا، کہ تمہارا کیا حال ہے ،یقینا وہ کہے گا ،اب بہتر ہے، میں جواب میں کہوں گا، اللہ کا شکرہے۔ میں پوچھوں گا کہ کیا کھایاتھا، وہ کہے گا کھٹائی کہ ملیریا بخار میں کھٹی چیزیں کھانے کوبڑی طبیعت چاہتی ہے میں کہوں گا انشاءاللہ خواہش پوری ہو جائے گی۔بہرا شخص پڑوسی کی عیادت کے لیے گیا پوچھا :کیاحال ہے؟وہ بڑی تکلیف میں تھا بولا کہ مر رہاہوں۔بہرے نے کہا:شکرا لحمد للہ۔ پڑوسی بہت حیران ہوا۔بہرے نے پوچھا کہ کیا کھایا تھا؟ اس نے غصے سے کہاکہ زہر۔بہرے نے کہا :بہت اچھا۔ بہرے نے پوچھا :کیاآپ کوکسی چیز کی طلب ہے ؟اس نے نہایت غصے کے عالم میں کہا: جی ہاں موت کی طلب ہے۔ بہرے نے کہا:ان شاءاللہ آپکی یہ خواہش پوری ہوجائے گی۔ یہ لطیفہ سن کر سب ہنس پڑے اور ماحول خوش گوار ہوگیا۔