گر وقت آپڑا ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
گر وقت آپڑا ہے
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اے میرے الہ!کیاماجراہے؟ اب نظر اٹھتی ہے تو ہر طرف سے پریشانیوں کے بت کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اب توقلم کا وظیفہ محض فریادیں کرنا اورغم کے نوحے لکھنا ہی رہ گیاہے۔
وطن عزیز پاکستان کو نجانے کس کی نظر لگ گئی ہے کہ امن، سکون، اطمینان، راحت، محبت، موانست، اخوت وبھائی چارگی اس سے دور بھاگنے لگے ہیں اور بے چینی، خوف وہراس، تشدد، ناانصافی اورظلم کے بھوت اس کو نگلنے کے لیے منہ کھولے کھڑے ہیں۔
اس تغیروتبدل کا ذمہ دار اورقصوروارکون ہے؟ اس کا جواب جس قدر آسان ہے اسی قدر ہم نے پیچیدہ بھی بنا رکھاہے۔ جب قوم اجتماعی گناہوں میں بے محابہ شریک ہے تو خداتعالیٰ کی طرف سے وہ آفات وبلیات نازل ہوتی ہیں جن کوروکناپھر کسی کے بس کاروگ نہیں ہوتا۔
ہم بحیثیت قوم اپنے رب کے مجرم ہیں اس لیے بحیثیت قوم ہم پر ان آفتوں کا نزول بھی ہورہاہے۔ سیلاب کے بے رحم ریلے ہوں یا زلزلے کے زوردار جھٹکے! ہمارے اپنے گناہوں کا نتیجہ ہے اوریہ اس وقت ہوتاہے جب گناہ کااحساس بھی دل سے جاتارہتاہے اورصبح وشام کی زندگی خدااوررسول کی نافرمانیوں سے گزرنے لگے۔ گناہ گار ہونا اتنا بڑا جرم نہیں، جتناکہ احساس گناہ کو دل سے ختم کردینا۔
وطن عزیز پاکستان میں سیلابی ریلے، طوفانی بارشیں اوردہشت گردی کے واقعات نے ہونٹوں سے مسکراہٹوں کے پھول چھین لیے ہیں۔ ہرصبح کو نئی فکر اورہرشام کونئی پریشانی مقدربن گئی ہے۔
توآئیے!خدا کے قرآن سے پوچھتے ہیں کہ یہ فساد کیوں رونما ہوتے ہیں؟ اس کے محرکات کیاہوتے ہیں؟ یہ ختم کیسے ہوسکتے ہیں؟ بچاﺅکی تدابیر کیاہیں؟ قرآن کریم نے اس عقدے کو یوں حل فرمایاہے کہ بحرو بر میں جوفسادظاہرہوتاہے یہ لوگوں کے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتاہے۔آگے خدا تعالیٰ نے فرمایا:”یہ اس لیے ہے تاکہ اللہ ان لوگوں کو اس کامزہ چکھائے جو لوگ یہ (برے) اعمال کرتے ہیں۔ “
معلوم ہواکہ بحروبرکافساد، ہماری اپنی شامت اعمال ہے۔ اس کاقصوروارکسی اور کوٹھہراتے رہنا اوراپنی بدعملیوں سے نظریں چرالینا خود کوجھوٹی تسلی دینے کے مترادف ہے اور جب تک ہم(من حیث القوم) اپنے جرائم سے توبہ نہیں کریں گے اس وقت تک یہ آسمانی آفات اترتی رہیں گی۔
انسان کو توبہ کی توفیق بھی تب ہوتی ہے جب وہ اپنی زبان اوراپنے دماغ کو کنڑول میں رکھتا ہے۔ جب وہ شتر بے مہار بن جائے زبان ودل سے بے ادبی پر اترآئے اور(العیاذ باللہ ) خدائی احکامات کاتمسخر نبی کے طریقوں سے مذاق اوراولیاءصالحین کے نقش قدم پر چلنے سے روگردانی سے کام لے، تو سمجھ لیجئے کہ یہ اپنی جان پر خود ظلم کررہاہے۔ ان مشکل، جان گسل اور روح فرسا اوقات میں ایثاروہمدردی کا وہ نمو نہ بن کردکھادو جسے قرآن کہتاہےیوثرون علی انفسہم ولوکان بہم خصا صةوہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود بھوکے کیوں نہ ہوں۔ ان قرآنی آیات پر عمل کرکے دکھلادیجئے جسے آج سے پہلے فقط پڑھ کر یاسن کرآگے گزرجاتے تھے۔ یعنی اپنے میں وہ صفات پیداکریں کہ ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما واسیرا(القرآن)وہ مساکین ویتامی اورقیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں محبت کی وجہ سے۔
آئیے!ان بے کسوں بے گھروں اوربے سہارالوگوں کے ہاتھ تھام لیں، ان کے آنسو پونچھ لیں ان کو ان کے گھربسادیں، ان کوغیرمسلم این جی اوز کے ”رحم و کرم “سے بچالیں اورمستند علماءاہل السنة والجماعة کے زیر نگرانی رفاہی تنظیموں کے حوالے کریں جو ان کے ایمان اورمال وجان کے سچے رکھوالے اورمعمارہیں۔ تعمیر وطن اورتعمیر قوم کے مقدس فریضہ میں بڑھ چڑھ کر اور خوب دل کھول کر حصہ لیں۔