اگر زکوۃ ادا کر دیں تو

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اگر زکوۃ ادا کر دیں تو
عبد المنعم فائز؛کراچی
ننھی کا ئنات کا جواب بھی بڑا معصومانہ تھا۔ رات کے پچھلے پہر محنت کش باپ کے کھر درے ہاتھوں میں پکڑے محلول کو دیکھ کر اس نے ناگواری سے ناک سکیڑی ابو مجھے اس سے بو آتی ہے، میں نہیں پیوں گی۔“
کا ئنات کی بہن نے آج تک باپ کے مضبوط ہاتھوں کو لرزتا کپکپاتا نہیں دیکھا تھا۔ اس کا ماتھا بھی ٹھنکا ضرورمگر اتنی دیرمیں زرد مشروب اس کی انتڑ یاں کاٹ چکا تھا۔ رات گئے شوہر کے ہاتھوں سے اٹھتی عفونت نے اکبر کی بیوی مزمل کو ان کہی داستان کا حرف حرف سمجھادیا۔ اس نے دوڑ کر اپنے سرتاج کا ہاتھ پکڑا اور جھنجوڑتے ہوئے بولی ” زہر، تمہیں کیا ہوگیاہے، تم اتنے ظالم نہیں ہوسکتے “۔ صدمے کی شدت سے الفاظ گڈ مڈ ہوگئے۔اکبر نے کمال لاپر واہی سے جواب دیا”بچوں کو زہر اس لےے دے رہا ہوں ، کہ جب ہم نہیں رہیں گے تو انہیں کون روٹی کھلائے گا۔“ بوتل سے ایک چسکی بھرنے کے بعد اس نے باقی ماندہ محلول مزمل کے منہ سے لگا دیا۔
مزمل نے زہر پینے کے بجائے تھوک دیااور دکھ بھری دنیامیں اذیتوں پہ لوٹنے کے لےے زندہ رہ گئی۔ نرم دل سرتاج اور نٹ کھٹ تین بیٹیوں کے جنازے اس کی آنکھوں کے سامنے اٹھائے گئے۔ اس کی روح بھی اپنی ننھی کلیوں کے ساتھ قبر میں جاسوئی۔ اب اس کا نے روح لاشہ ہے جو ہر لمحہ گرم گرم آنسو ٹپ ٹپ بہاتا رہتاہے۔
جولائی کے مہینے کی جس بے رحم رات کے سنگ دل سینے پہ داستان غم لکھی جارہی تھی، اس لمحے لاہور سے سینکڑوں کلومیٹر دور اسلام آباد میں شب اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ سایہ فگن تھی۔ اس وقت پاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک وہ شخص تھا جس کے 27بین الاقوامی بینکوں میں موجود اکاﺅنٹ دولت سے لبالب بھرے ہوئے تھے۔ پاکستان میں اس کے پاس میلوں طویل 34 وسیع و عریض زرعی پلاٹ تھے۔ 6 شوگر ملوں میں اس کے حصص تھے۔ بیرون ملک ا س کی اپنی 24تجارتی کمپنیاں کام کر رہی تھیں۔ برطانیہ کے پوش علاقوں میں اس کی 9بلڈنگیں تھیں۔ بیلجئم میں اس کی 6دوکانیں اور تجارتی عمارتیں تھیں۔ امریکامیں اس کے 9ہوٹل اور دیگر بلڈنگیں تھیں۔ لیکن دریائے چناب کی بپھری قاتل موجوں میں دوسالہ احمد اور چار سالہ ایمان کے ساتھ چھلانگ لگانے والی دکھیاری عظمی کی جھولی میں ڈالنے کے لےے اس کے پاس چند کھوٹے سکے بھی نہیں تھے۔لاہور کے اکبر کا 60ہزار کا قرضہ اتارنے کےلےے اس کا کوئی انکم اسپورٹ پروگرام حرکت میں نہیں آیا۔اس جہان رنگ و بو سے گزرنے والوں کا ذکر تو چھوڑےے، ہر روز خود کشی کرتے کم از کم پانچ پاکستانیوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کا بھی کسی نے سوچا۔سوچ کے کینوس پہ بکھرے زاویوں کو ذرا وسیع کیجےے، دنیا بھر میں روتے، سسکتے اور دم توڑتے مسلمانوں کے زخموں پہ مرہم کون لگائے گا؟ عالم اسلام کو عفریت کی مانند نگلتی غربت کا سبب از اول تا آخر سیاسی ہے۔ سیاسی عدم استحکام نے لاکھوں گھر اجاڑ دےے۔
”ارب پتی مسلمان سالانہ زکوة ہی ادا کرتے رہیں تو دنیا میں کوئی اسلام کا بیٹا پیٹ کی خاطر خودکشی نہ کرے“ اک مرد حر کی بات میرے ذہن کے دریچوں پر دستک دینے لگا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہر گزرتے سیکنڈ کے ساتھ ساتھ برونائی دارالسلام کے سلطان کی دولت میں 90یورو کا اضافہ ہورہاہے۔ اسے دنیا کا امیر ترین بادشاہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ حسن بلقیہ کی دولت میں یومیہ77لاکھ 76ہزار یورو اضافہ ہورہاہے۔ آج کے دن ایک یورو پاکستانی 108روپے کے برابر ہے۔ اس اعتبار سے یومیہ 83کروڑ 98لاکھ روپے کا اضافہ ہورہاہے۔ اس ناقابل یقین حد تک امیر آدمی کی دولت پتھروں اور عمارتوں کی نذر ہورہی ہے۔چند لاکھ آبادی کے حکمران کا محل دنیا کا خوبصورت ترین قصر ہے۔محل کے کمروں کی تعداد ایک ہزار سات سو اٹھاسی ہے۔ کمروں میں سونے اور چاندی سے تزیین و آرائش کی گئی ہے۔ گیراج میں ایک سو دس کاریں کھڑی کرنے کی گنجائش ہے، جو اپنی وسعت کے باوجود سلطان کی کاروں کے لےے ناکافی ثابت ہورہی ہے۔اپنے سفر کرنے کے لےے اس نے بوئنگ 747طیارہ خریدا ہواہے۔ خریدنے کے بعد طیارے کے اندر سے سیٹیں نکال کر گھر کی طرح سجایا گیاہے۔ صرف اس سجاوٹ پر ہی 12کروڑ ڈالر لاگت آئی۔ا س نے اپنی بیٹی کی شادی کی تو 14دن تک رہنے والی شادی کی تقریب میں 40لاکھ ڈالر پھونک دےے گےے۔اس وقت بادشاہ کی ذاتی ملکیت میں 1932کاریں ہیں۔ اس کی ذاتی شاہی سواری مکمل سونے سے رنگی گئی ہے۔
یقین کیجےے رب کی نعمتوں میں گھٹنوں گھٹنوں ڈوبے یہ چند بادشاہ، چند تاجر اور چند سرمایہ کار اپنی دولت کا درست حساب لگا کر صرف فرض زکوة ہی ادا کردیں تو عالم اسلام میں کوئی بھکاری نہ بچے، کوئی باپ اپنے ہی ہاتھوں سے جگر گوشوں کو موت کے گھا ٹ اتارنے پر مجبورنہ ہواور نہ ہی دریائے چناب کی لہروں میں کوئی ماں اپنے بچے سینے سے لگاکر نہ سو رہی ہو۔