عورت کا اعتکاف

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عورت کا اعتکاف
مولانا مقصود احمد
رمضان المبارک تمام مہینوں کا سردار مہینہ ہے اسی وجہ سے اس میں کچھ ایسی زائدعبادتیں بھی آئیں جن سے دوسرے مہینے خالی ہیں۔ مثلاً: قرآن پاک کا نزول، رمضان میں بیس تراویح کا اہتمام،تلاوت، قرآن، سحری وافطاری نفل کا اجر فرض کے برابر ایک فرض ستر فرائض کے برابر، جنت کے دروازوں کا کھلنا، جہنم کے دروازوں کا بند ہونا، شیاطین کا قید ہونا وغیرہ ا س میں اللہ رب العزت نے کاخاص اپنی رحمت کو خلقت میں بانٹنا جس کی وجہ سے لو گ آپس میں ہمدردی اورغم خواری کرتے ہیں اس ماہ مبارک میں صفت غفوریت کا بھی ظہور ہوتاہے کہ روزانہ ایک جم غفیر کے لیے جہنم سے چھٹکارے کا پروانہ لکھ دیا جاتا ہے۔
خیر! اس مہینہ کی کس کس عبادت عظیمہ کا تذکرہ کیاجائے اس مبارک مہینے میں کئی عبادتیں ایسی ہیں کہ جن میں تلاش محبوب یعنی اللہ تعالی کے لیے ورافتگی عشق میں بھوک وپیاس سے بے نیاز ہوکرمحبت سے سرشار ادائیں قابل دید ہوتی ہیں۔ انہی میں سے ایک اہم عبادت اعتکاف ہے۔
اعتکاف: ”روزہ دا ر کاتمام مشاغل دنیا سے خالی ہوکر اپنے اللہ کے حضور سپرد کرکے اعتکاف کی نیت کے ساتھ مسجد میں بیٹھنے کو۔“
رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کرنا سنت موکدة علی الکفایة ہے۔
یعنی محلے والوں میں سے اگر کچھ نے کر لیاتو تمام سے ساقط ہوجائے گا اگر کسی نے بھی نہ کیا تو تمام کے تمام گناہ گار ہوں گے کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضوررمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف بڑے اہتمام اور پابندی کے ساتھ کیاکرتے تھے۔
فضیلت اعتکاف: ترجمان القرآن،صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور نے اعتکاف کرنے والے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا کہ اس کے گناہ روک دیے جاتے ہیں اور تمام نیکیاں (یعنی تمام اچھے کام جن کو وہ اعتکاف کی وجہ سے نہیں کر سکتاان کا اجر)نیکی کرنے والے کی طرح جاری کردیا جاتا ہے۔
اسی لیے تو امی عائشہ ؓ فرماتی ہیں اعتکاف کرنے والے پر نہ مریض کی عیادت ہے اورنہ نماز جنازہ وغیر ہ پڑھنا سنت ہے۔
اعتکاف کاوقت:
جوآدمی اعتکاف کرنا چاہے تو وہ بیس رمضان المبارک کے دن نماز عصر کے بعد سورج کے غروب ہونے سے پہلے اپنی اعتکاف کی جگہ میں بیٹھ جائے اور انتیس یا تیس رمضان کو(یعنی عید کا چاند دیکھنے کے بعد)بعد از مغرب اعتکاف سے نکلے اور دوران اعتکاف آدمی بغیر کسی شرعی ضرورت کے(مثلا قضائے حاجت وغیرہ)اعتکاف کی جگہ سے نہ نکلے۔
اعتکاف کہاں کرے؟
مرد کے لیے اپنے محلے کی مسجد میں اعتکاف کرنا اور عورت کے لیے اپنے گھر کی مخصوص جگہ میں ہی اعتکاف کرنا افضل ہے اور عورت کا گھر میں اعتکاف کرنا یہی حنفیہ کا مذہب ہے عقل انسانی کا تقاضا بھی یہ کہ جب عورت کے لیے نما زگھر میں پڑھنا افضل ہے تو پھر اعتکاف بھی گھر میں ہی کرنا افضل ہوگا۔
عورت کی مسجد:
مذکورہ بالاحوالہ جات سے معلوم ہواکہ مرد کا مسجد اور عورت کا اپنے گھر میں اعتکاف کرنا افضل ہے اور عورت کے نماز پڑھنے کی مخصوص جگہ کو حضور نے بھی مسجد ہی قرار دیا ہے دیکھئے حضرت ام المومنین ام سلمہؓ نے نبی علیہ السلام سے نقل کیاہے کہ عورتوں کی بہترین مسجدیں ان کے اپنے گھروں کے تہہ خانے ہیں۔
اسی طرح ام حمید الساعدیة ؓنے نبی علیہ السلام کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کی درخواست کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اگر تو میرے ساتھ نماز پڑھنے کی کو پسند کرتی ہے تو پھر تیرا اپنے گھر میں نمازپڑھنا افضل ہے اور اپنی قوم کی مسجد میں نماز پڑھنا یہ میری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ “ یہ سن کرحضرت ام حمید ؓ نے اپنے گھر والوں کو گھر میں مسجد بنانے کا حکم دیا تو ان کےلئے گھر کے ایک کونے میں مسجد تیار کی گئی اور آپ آخر دم تک اسی مسجد میں ہی نماز پڑھتی رہیں (نہ کہ مسجد نبوی میں )
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ عورت کی مسجد اس کا گھر (مخصوص جگہ) ہے تو اللہ رب العزت نے بھی مسجد میں اعتکاف کرنے کا ذکر فرمایا وانتم عاکفون فی المساجد اسی وجہ سے مرد مسجد عرفی میں اور عورت اپنے گھر والی مسجد میں ہی اعتکاف کرے لیکن آج کے اس دور میں عورتوں کو اصل تعلیمات اسلامیہ سے ہٹاکرنام نہاد اسلام کے ”شیوخ “نے عورتوں کو مردوں کی ہم نشینی میں کھلے آسمان تلے اعتکاف کروا کے مزید اس بدعت اور اخلاق باختگی کو فروغ دیا اور اپنے اس عمل یعنی مسجد میں عورت کے اعتکاف کوقرآن وحدیث سے ثابت کرنے کی ناکام وبے فائدہ کوشش کی ہے۔ مثلاً: قرآن میں ہے
وانتم عاکفون فی المساجد
(البقرہ)
تم مسجدوں میں بیٹھنے والے ہو،اس سے یہ سمجھا کہ مرد وعورت مسجد میں ہی اعتکاف کریں جب کہ ہم نے مندرجہ بالا سطور میں مرد اور عورت کی الگ الگ مسجدکو دلائل کی روشنی سے ثابت کردیاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے گھر کو ہی عورت کی مسجد بتلایا ہے مزید برآں اسی آیت کے ذیل میں مفسرِقرآن ابوبکر الجصاصؒ (وفات 073ھ) نے فرمایا ہے کہ مسجد میں اعتکاف کرنے کا حکم فقط مردوں کےلئے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے۔ احادیث رسول میں بھی کسی عورت کا عملاً مسجد میں اعتکاف کرنا یا پیغمبر کا حکم دیناکہ عورت مسجد میں اعتکاف کرے کسی صحیح، صریح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
وساوس وشبہات: لیکن اس کے باوجو د عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے بخاری ج1ص172،372سے دو حدیثیں دکھاتے ہیں کہ (1)حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی گھر والیوں نے اعتکاف کیا(2)حضرات امہات المومنین نے مسجد نبوی میں اعتکاف کے لیے خیمے لگائے۔
کاش!!! یہ لوگ ضداور تعصب سے بالا تر ہو کر حدیث کو پڑھیں توبات بہت آسان ہے حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں مسجد نبوی میں مخصوص جگہ بنا کر اعتکاف کرتے تو حضرت عائشہؓ نے بھی اجازت لی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ انہوں نے بھی اپنا خیمہ لگایا پھر ان کی دیکھا دیکھی حضرت حفصہ ؓ، حضرت زینب ؓ نے بھی اپنا اپناخیمہ لگا لیا۔ آپ نے جب مسجدمیں خیمے دیکھے تو تعجباً سوال کیایہ کیوں لگائے گئے ہیں؟ اور کس چیز نے ان(یعنی ازواج مطہراتؓ)کواس نیکی(یعنی مسجد نبوی میں اعتکاف)پر اُبھارا ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ یہ خیمے لگا کر اعتکاف کو تم نیکی سمجھتی ہو؟اس کے بعد حضور نے ان خیموں کے اکھاڑنے کا حکم ارشاد فرمایا۔تو مسجد نبوی سے ازواج مطہرات کے خیمے (دوران اعتکاف ہی) اکھاڑ دیے گئے اور اس ناراضگی کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اعتکاف بھی توڑ دیا پھر شوال میں اس قضا ءفرمائی۔
محترم قارئین!
اگر عورت کے لیے بھی اعتکاف مسجد میں کرنا ضروری ہوتا تو اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کو مسجد میں اعتکاف کیوں نہ کرنے دیا؟اور خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کاحکم کیوں دیا؟ اور اس نیکی پر ان کو کس نے اُبھارا ہے؟ اپنے اہل بیت کو عتاب کیوں فرمایا؟اور اپنے اعتکاف کو بھی آخر ختم کیوں کردیا؟اتنی عام فہم حدیث کے باوجو دبھی عورتوں کو مسجد میں اعتکاف کی دعوت دینا یہ ا طاعت مصطفی نہیں بلکہ صرف اور صرف نفسانی خواہشات کی اتباع ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی خلاف ورزی ہے۔
علامہ ابن حجر ؒشارح بخاری حضرت ابراھیم بن علیةؒ کا قول نقل کرتے ہیں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری نہیں اور مزید لکھتے ہیں: ” عورت کے لیے افضل بات یہ ہے کہ مسجد میں اعتکاف نہ کرے اور امام شافعیؒ کے ہاں عورت کا مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے۔