اہل سنت کی نشانیاں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اہل سنت کی نشانیاں
مولانا عابد جمشید
-4 اللہ تعالی کا عرش اور کرسی:
اس علامت کی تفصیل جاننے سے پہلے ایک چھوٹی سی بات سمجھ لیں۔ علم العقائد میں ایک بحث ہے ”حادث“ اور ”قدیم“ کی۔ میں انتہائی آسان الفاظ میں آپ کو یہ بحث سمجھاتا ہوں اس کے بعد ہم اصل مقصد کی طرف واپس آئیں گے یعنی اہل السنت کی چوتھی نشانی کی طرف یہ تفصیل ہم اس لئے بیان کر رہے ہیں کہ آج کل بہت سے ایسے لوگ جن کے عقائد و نظریات اہل السنت کے خلاف ہیں وہ عرش اور کرسی کی بحث میں الجھا کر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔
”حادث“ اور ”قدیم“ دو متضاد اور بالکل مختلف چیزیں ہیں۔
”حادث“ سے مراد ہے عارضی(Temporary) اور ”قدیم“ سے مراد ہے دائمی (Forever)اور ہمیشہ سے موجودternal۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ ”قدیم“ سے مراد وہ ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور اس ذات کو کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ وہ خود سے ہی موجود تھی، موجود ہے اور موجود رہے گی۔ نہ اس سے پہلے کچھ تھا نہ اس کے بعد اس جیسی کوئی اور ذات ہوگی بلکہ اس کی کوئی ابتداءاور کوئی انتہاءنہیں۔ جبکہ ”حادث“سے مراد وہ تمام مخلوقات اور چیزیں جن میں مذکورہ بالا صفات نہیں ہوتیں۔ ”حادث“ (Temporary)سے مراد وہ جو دائمی نہیں بلکہ بعد میں ان کو وجود ملا، وہ ہمیشہ سے موجودternalنہیں۔
اللہ تبارک وتعالی کی ذات اور صفات ”قدیم“ ہیں ہمیشہ سے ہیں۔ Forever اورternalہیں۔ اس کے علاوہ باقی تمام تر مخلوقات ”حادث“ ہیں۔ عرش بھی اللہ تعالی کی نورانی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے جس کے اوپر اللہ تعالی کی ایک اور مخلوق رکھی ہوئی ہے جس کا نام کرسی ہے اور اللہ تعالی کا عرش پانی کے اوپر ہے۔ عرش اور کرسی دیگر مخلوقات کی طرف مخلوق ہیں اور دائمی و ابدی نہیں ارشاد باری تعالی ہے: رب العرش الکریموہ کریم ذات عرش کا رب ہے۔
اب آئیں اصل بات کی طرف!
قرآن کریم میں ارشاد ہے: الرحمن علی العرش استویٰ
کہ اللہ تعالی عرش پر مستوی اور متمکن ہیں۔ امام اعظم ؒ فرماتے ہیں۔
”ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی عرش پر مستوی ہیں اگرچہ اللہ تعالی کو عرش پر مستوی ہونے کی حاجت یا مجبوری نہیں اور نہ ہی مستوی ہونے کا کوئی خاص طریقہ او رکیفیت ہے۔ “
آج کل بعض گمراہ لوگ استویٰ علی العرش کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی عرش اور کرسی پر موجود ہیں اور ہر جگہ موجود نہیں۔
جبکہ اہل السنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ پر موجود ہےں۔ اور عرش پر مستوی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عرش پر اللہ تبارک و تعالی کی خاص تجلی کا ظہور ہے۔ ہم اس استویٰ کی ٹھیک ٹھیک کیفیت کو نہیں جان سکتے البتہ اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی عرش پر ہی موجود ہیں اس کے علاوہ دیگر کائنات میں ہر جگہ پر موجود نہیں، یہ سخت گمراہ کن اور اسلام سے متصادم عقیدہ ہے۔
اللہ تعالی کو عرش پر بیٹھا ہوا سمجھنا سخت گمراہی ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ تعالی اس کے اندر سما گئے ہیں تو گویا عرش اللہ تعالی سے بڑھا ہوا ہے حالانکہ یہ درست نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ اللہ تعالی عرش پر بیٹھے ہوئے ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عرش اور کرسی کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالی کہاں تھے؟
آپ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ اللہ تعالی کے عرش پر مستوی اور متمکن ہونے سے یہ مراد ہرگز نہ لینا چاہئے کہ شاید عرش اور کرسی بھی اللہ تعالی کی ذات کی طرح دائمی ہیں اور اللہ تعالی کی ذات ان کے ساتھ ہمیشہ سے متصل اور جڑی ہوئی ہے جیسے کوئی شخص اپنی نشست پر بیٹھا ہوتا ہے نہیں، ہرگز نہیں ! بلکہ عرش اور کرسی کا تعلق اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ اسی طرح کا ہے جیسے دیگر تمام مخلوقات کا۔
عرش ایک محدود (Limited)اور حادث مخلوق ہے جبکہ اللہ تعالی دائمی و ابدی (Forever)اور قدیم (Eternal)ہیں۔
دوسری بات یہ کہ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کسی خاص جگہ یا مقام میں سمٹ کر بیٹھنا مخلوق کی صفات میں سے ہے اور اللہ تعالی اس سے پاک ہیں کہ کسی مخصوص جگہ پر بیٹھیں۔
جو لوگ اللہ تعالی کو عرش پر بیٹھا ہوا سمجھتے ہیں وہ اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں اور منہ کے بل گمراہی کے گہرے تاریک غار میں جا گرتے ہیں۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں۔
”میں اللہ تعالی پر بغیر کسی تشبیہ کے ایمان لاتا ہوں اور کسی مخصوص صورت کا قائل ہوئے بغیر اس کی تصدیق کرتا ہوں اللہ تعالی کی ذات کی حقیقت کا ادراک نہ کر سکنے کا الزام خواد کو دیتا ہوں اور اس بارے میں غور و خوض سے مکمل اجتناب کرتا ہوں۔“
امام محمد ؒ فرماتے ہیں
”ہم یوں کہتے ہیں کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس طرح کے متشابہات کی کیفیت معلوم کرنے میں الجھتے نہیں۔ اسی طرح جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہم اس پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اس طرح کی باتوں کی حقیقت معلوم کرنے میں نہیں الجھتے۔“
خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالی کو عرش اور کرسی پر اس طرح متمکن سمجھنا جس طرح کوئی آدمی کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے۔ سخت گمراہی ہے اللہ تعالی اہل السنت کے عقائد و نظریات اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔