ظہیرالدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ظہیرالدین محمد بابر
امان اللہ کاظم
یہ خانہ بدوش مغل اپنی اس خانہ بدوشانہ زندگی کے عادی ہوچکے ہیں۔ وہ انہی خیموں میں جوان ہوتے ہیں اورانہی خیموں میں مرجاتے ہیں۔ یہ لوگ گرمیوں میں پہاڑوں پرچلے جاتے ہیں جبکہ سردیوں میں میدانی اورریگستانی علاقوں کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ “
ننھے بابر کے ذہن میں بہت سے سوالات کلبلارہے تھے اس لیے اس نے بیک وقت اپنے باپ سے کئی سوالات کرڈالے۔
”باباجانی! میرا ذہن کچھ الجھ ساگیاہے میں سمجھ نہیں پارہاکہ یہ لوگ گرمیوں میں پہاڑوں کی طرف کیوں چلے جاتے ہیں اورسردیوں میں میدانی اورریگستانی علاقوں کی طرف کیوں لوٹ آتے ہیں؟ یہ لوگ مستقلًا ایک جگہ پر کیوں قیام پذیرنہیں ہوتے؟ ہر وقت حرکت میں رہنا انہیں کیافائدہ پہنچاتاہے؟ ان کے ہاں نہ تو کوئی مدرسہ ہے اورنہ ہی پڑھنے کے لیے کوئی کتاب، انہیں پڑھانے والا نہ تو کوئی معلم ہے اورنہ ہی دولت علم سے بہرہ مند کرنے والاکوئی عالم۔آخرایساکیوں ہے؟ اوران سب چیزوں کے بغیریہ لوگ زندہ کس طرح ہیں؟ شہروں کے پختہ مکانوں کی بجائے ریگستان میں اپنے غیرمحفوظ خیموں میں کیوں رہتے ہیں؟ “
عمر شیخ مرزا نے اپنے ننھے ولی عہد کو چمکارتے ہوئے کہا”بیٹا! تیرے تمام سوالوں کے جواب تو میں پہلے ہی دے چکاہوں۔ بات دراصل یہ ہے کہ منگول(مغل)اپنی سرزمین، اپنی ثقافت اوراپنے تمدن کوکسی بھی قیمت پرتیاگنانہیں چاہتے انہیں ہماری متمدن دنیاسے کوئی سروکار نہیں۔ وہ اپنے تمدن سے بہت پیارکرتے ہیں اوراپنے وطن سے ایک لمحے کےلئے بھی جدارہنا انہیں گوارانہیں یہی جہ ہے کہ ایک عالم کواپنے زیرنگیں لانے کے باوجود وہ اپنی سرزمین سے الگ نہیں ہوئے ان کے قدم ابھی تک اپنی زمین سے جڑے ہوئے ہیں انہیں بھوک پیاس سردی اورگرمی کی صعوبتیں توگواراہیں مگر اپنی مٹی سے دوررہناگوارا نہیں ہے۔
میرے بیٹے!یہ بات یادرکھنا جو لوگ غیروں کے تہذیب وتمدن، ان کی ثقافت اوران کی معاشرتی زندگی سے متاثر ہوکر اپنی مٹی، اپنی ثقافت اوراپنی تہذیب کوتیاگ دیتے ہیں وہ دنیامیں کبھی نیک نام نہیں رہتے ان کاحشر اس کوے جیسا ہوتاہے جو ہنس کی چال سیکھنے گیا تھا مگر اپنی چال بھی بھول بیٹھا۔
منگول اپنی دھن کے پکے ہیں اس لیے تو انہوں نے ایک عالم کواپنے پاﺅں تلے روندڈالاہے۔آج اگرچہ ان میں باہمی منافرتوں اورشخصی خودغرضیوں کی بناءپروہ دم خم نہیں ہے مگر اس کے باوجود ان کی مونچھوں کے تاﺅ میں کوئی کجی نہیں آئی۔وہ جاہل، اجڈ اوروحشی ہی سہی مگر اپنے اصولوں اور اپنی دھن میں پختہ تر ہیں۔ تمہارے ماموں بھی انہی اصولوں کے پیش نظرشہروں کے مالک ہونے کے باوجود مغلستان کے ریگزار کواپنامسکن بنائے بیٹھے ہیں۔ “
ننھے بابرکوآج اس قدر حیرت انگیز معلومات حاصل ہوئی تھیں جن کی وجہ سے وہ بڑی الجھن اورمخمصے کاشکارہوگیاتھا۔وہ سوچ رہاتھا کہ منگول کس قدر سخت جان، جری، محب الوطن اوراپنے اصولوں کے پکے تھے! اس کااشتیاق بڑھتا جارہاتھاوہ چاہتاتھاکہ مغلستان اوراس میں بسنے والے لوگوں کوقریب سے دیکھے، ان کے خیموں میں رہنے کاتجربہ حاصل کرے اور اس سے بڑھ کریہ کہ وہ اپنے ماموﺅں سے، ان کی اولادوں سے ملے،ان کی تہذیب وتمدن کاقریب سے نظارہ کرے۔ اس نے اس خواہش کااپنے باپ سے برملااظہارکرتے ہوئے کہا:
”بابا جانی! کیامیں اپنے ماموﺅں اورماموں زادوں سے ملنے کے لیے مغلستان میں انکے ہاں جاسکتاہوں اوران کے ساتھ ان کے خیموں میں رہنے کاتجربہ حاصل کرسکتاہوں؟ “
عمرشیخ مرزانے اپنے بیٹے کی پیٹھ پیارسے تھپتھپاتے ہوئے کہا:
”جان من!ایسا ممکن نہیں ہے محلوں میں رہنے والے اورپرتعش زندگی بسرکرنے والے ہم لوگ ریگستان میں بسنے والے سخت جان خانہ بدوشوں کے ساتھ ان کے غیرمحفوظ خیموں میں چند لمحے بھی بسر کرنے کے متحمل نہیں۔ ان خیموں میں نہ تو کسی مدرسے کاوجود ہے اورنہ ہی وہاں کتابیں ہیں اس طرح تیراتعلیمی سلسلہ منقطع ہوجائے گا۔ طوفانی ہواﺅں میں چمڑے کے خیمے میں رہنے کا تیرا تجربہ تجھے بہت مہنگا پڑے گا۔ اس پر مستزاد یہ کہ تمہارے چچاﺅں نے مغلستان کے خاقان اورتیرے ماموں محمود خان سے میرے خلاف ساز باز کررکھی ہے وہ لوگ ایک مشترکہ لشکر ترتیب دے رہے ہیں تاکہ میرے زیر قبضہ علاقوں پر فوج کشی کرکے انہیں مجھ سے چھین لیں۔ تیرا نانایونس خان نہ صرف میرا ہمدرد تھا بلکہ میرا محافظ بھی تھا۔اس کے ہوتے ہوئے تیرے چچاﺅں کو میرے علاقوں پر فوج کشی کی جرات نہ ہوئی کیونکہ وہ جاتے تھے کہ یونس خان انہیں اپنی بھرپور طاقت سے کچل کررکھ دے گااگرچہ وہ لوگ بھی اس کے داماد تھے مگر وہ مجھے ان سب پر ترجیح دیتا تھا یہی وجہ تھی کہ انہیں میری طرف آنکھ اٹھا کردیکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔
یونس خان کے مرتے ہی انہوں نے تیرے ماموﺅں کو میرے خلاف بھڑکادیاان کے نزدیک میں ایک سازشی اورناقابل اعتبار شخص ہوں میراقلع قمع کرناان کے لیے باعث اطمینان ہو گا۔ وہ چاہتے ہیں کہ فرغانہ پراپناتسلط جماکراس کے حصے بخرے کرکے اسے آپس میں تقسیم کرلیں۔ ان نامساعد حالات کے پیش نظرمیں تجھے مغلستان بھیجنے کاخطرہ مول نہیں لے سکتا اس طرح وہ تجھے اپنایرغمال بناکرمجھ سے اپنی ہرشرط منواسکتے ہیں۔ میں اپنی شہ رگ ان کے ہاتھ میں دے دوں یہ مجھے گوارانہیں ہے۔
باتوں باتوں میں دونوں باپ بیٹوں کووقت گزرنے کااحساس تک نہ ہواسورج اپنی منزل کے آخری پڑاﺅ کی طرف رواں دواں تھا۔عمر شیخ مرزا نے وقت کی نزاکت کے پیش نظر اپنے بیٹے کے ساتھ واپسی کاراستہ ناپا۔تھوڑی ہی دیر میں وہ دونوں آخشی کے محل میں تھے شاہی محل میں پہنچنے کے بعد عمر شیخ مرزا بابر کومزید معلومات بہم پہنچانے کی غرض سے محل کے بائیں باغ دلکشا باغ میں لے گیا۔ دل کشا باغ نہایت ہی خوبصورت تھااس میں انواع واقسام کے پھل دار درخت اور پھول دار پودے لگے ہوئے تھے ہر طرف پھولوں کی بھینی بھینی خوشبوپھیلی ہوئی تھی جومشام جان کو معطر کیے دے رہی تھی۔
باغ کے ایک کونے میں بہت بڑا میوزیم(عجائب گھر)تھا۔ اس عجائب گھر میں امیر تیمور کے ملکوں ملکوں سے لائے ہوئے ہنرمندوں کے بنائے ہوئے خوبصورت مجسمے رکھے تھے اورمصوروں کی مختلف اندازمیں بنائی ہوئی وہ تصویریں آویزاں تھیں جن میں امیر تیمورکی فتوحات کے منظر محفوظ کردئیے گئے تھے۔ بابرکوعجائب گھر میں رکھی گئی تصویریں اورمجسمے بہت پسندآئے۔وہ ان کے حسن کی بھول بھلیوں میں کھوساگیا اسے خصوصا وہ تصویریں بہت پسند آئیں جن میں فتوحات ہند کے متعلق مناظر محفوظ کردئیے گئے تھے۔
عمر شیخ مرزا بابر کولیے لیے آخشی سے باہردریائے سیحوں کے کنارے پہنچ گیا وہ اسے آخشی شہر کے محل وقوع سے آگاہ کرنا چاہتاتھا چنانچہ اس نے بابرکوبتایا کہ آخشی شہر کے جنوب میں جو یہ دریابہہ رہا ہے اسے دریائے سیحوں کہتے ہیں یہ دریا آخشی شہر کے لیے فصیل کاکام بھی دیتاہے اوراس کے پانی سے آخشی کے گردونواح کی سرزمین بھی سیراب ہوتی ہے تم دیکھ رہے ہوکہ آخشی کے قلعے اوردریائے سیحوں کے درمیان بے شمارچھوٹی بڑی قدرتی حندقیں واقع ہےں جوحملہ آوروں کو قلعے میں گھسنے نہیں دیتیں۔ آخشی کے شمال میں وہ پہاڑیاں واقع ہیں جنہیں تم اپنی آنکھوں سے دیکھ آئے ہو۔یہ پہاڑیاں فرغانہ اورمغلستان کے درمیان حد فاصل کاکام دیتی ہیں۔
عمر شیخ نے مرزانے اپنی بات کوآگے بڑھاتے ہوئے کہا:”شاہی محل جوآخشی کے قلعہ کے وسط میں واقع ہے اس محل سے ایک راستہ اوپرپہاڑوں کی طرف جاتاہے اورایک دوسرا راستہ اندرجان تک پہنچتاہے یہاں سے اندرجان کافاصلہ نوفرلانگ یعنی ستائیں میل ہے۔اگر آخشی کے قلعے کواندرسے بند کرلیاجائے تو پھرکوئی حملہ آور بھی اندر جان تک نہیں پہنچ سکتا۔“
آج بابر کو اپنے باپ کی طرف سے ایسی معلومات حاصل ہوئی تھیں جوقبل ازیں کبھی حاصل نہیں ہوئی تھیں اس کے دل ودماغ کے کئی گوشے کھلتے چلے گئے تھے وہ آج جو کچھ سن اوردیکھ رہا تھا اسے اپنے ذہن کے گوشوں میں محفوظ کرتا چلاجارہاتھا۔
آج کی سیر نے اس کے سامنے ایک نئی دنیاکومتعارف کرایاتھا۔اس سے پہلے تو وہ زنان خانے میں قید خانے کی سی زندگی بسر کرتا چلاآیاتھااس کی نانی ہروقت اس کے کانوں سے چمٹی رہتی تھی بس جس قدرمعلومات وہ اسے بہم پہنچاتی وہ اس کی متاع تھی۔
نانی اماں کو اپنے خاوند،اپنے بیٹوں اورمغلوں کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں سوجھتاتھا اس کی معلومات کادائرہ انہی مغلوں کے ارد گردہی گھومتاتھا۔
وقت پرلگا کراڑتارہااوربابرزنان خانے سے نکل تن تنہا اندرجان کے گردونواح کی سیر تک ہی محدودرہا اسی حیص بیص میں اس کی زندگی کاایک سال اورگزرگیا۔اب وہ چھ سال کاہوچکاتھا عمر شیخ مرزا چاہتا تھا کہ اس کا ولی عہد دینی اوردنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ فن سپاہ گری میں بھی طاق ہواس خیال کے پیش نظر اس نے قنبر علی نامی شخص کو(جسے عرف عام میں سلاخ کہتے تھے اورجو ایک نامی گرامی شمشیر زن، نیزہ باز، شہسواراورجنگجوتھا)شہزادے بابر کی جنگی تربیت پرمامورکردیا۔
قنبرعلی نہایت ہی سخت گیر شخص تھاوہ ایک لحیم وشحیم مگر گھٹے ہوئے جسم کامالک تھا اس کے چہرے مہرے پرترشی مترشح تھی اس کی عمر کم وبیش اڑتالیس سال تھی اگرچہ و ہ شخص قطعی ان پڑھ تھا مگربڑا پُر اعتماد، کھرا اورمآل اندیش انسان تھا۔اس پرمستزادیہ کہ وہ فن سپاہ گری میں اپناثانی نہیں رکھتا تھا۔
عمر شیخ مرزا نے قنبر علی عرف سلاخ کوبلاکرکہا:”شہزادہ ولی عہد کو گھڑ سواری اور ہتھیاروں کے استعمال میں اس طرح طاق کردو کہ تمہاری طرح فن سپاہ گری میں بے مثل ہوجائے
قنبر علی نے مودبانہ عرض کی:حضور سلطان معظم!شہزادہ معظم ابھی بہت چھوٹا ہے گھڑ سواری اورہتھیاروں کااستعمال بیک وقت سیکھنا اس کے لیے بہت مشکل ہوگا۔
پہلے اسے گھڑ سواری میں ماہر ہونا چاہیے اوربعد ازاں اسے ہتھیاروں کے استعمال سے روشناس کرانا چاہیے۔
عمر شیخ مرزا نے قدرے تلخی سے کہا:”نہیں! نہیں! یہ دونوں کام ایک ساتھ ہونے چاہئیں میں نہیں چاہتا کہ الگ الگ کاموں میں وقت ضائع ہومجھے شہزادے کی فنی تربیت میں کوئی فروگذاشت اورتساہل گوارانہیں ہے میں چاہتاہوں کہ گھڑ سواری اورہتھیاروں کے استعمال کی تربیت ساتھ ساتھ چلے۔
قنبر علی نے لرزیدہ لہجے میں کہا:”حضوروالا!آپ کے حکم کی بہر صورت بجاآوری ہوگی میں کل صبح ہی سے دونوں کام ساتھ ساتھ شروع کردوں گا۔
اگلی صبح قنبر علی باہر کو اپنے ساتھ لیئے لےئے محل سے کچھ فاصلے پر موجود ایک باغ میں لے گیاجہاں بابر کے کئی خدمتگار، اس کاگھوڑا، تلوار، تیروں سے بھراترکش اورایک چھوٹی سی کمان لیے انتظار کررہے تھے ایک خدمتگار نے آگے بڑھ کرننھی سی زرہ بکتراورایک چھوٹا خود پہنادیا۔
قنبر علی نے شہزادے کو پہلادرس تیراندازی کادیااس نے دور ایک بڑے د رخت کے موٹے سے تنے پر کچھ سفید سفید دائرے بنادئیے تاکہ شہزادہ ان دائروں کو اپناہدف بناسکے پہلے پہل تو قنبر علی نے بذات خودان دائروں کواپنے تیروں کانشانہ بنایاتاکہ شہزادہ اسے تیر چلاتے ہوئے دیکھے۔
پھر اس نے آگے بڑھ کرشہزادے کوکمان پکڑنا، کمان پرتیر چڑھانااورکمان کے چلے کوکھینچنے کاگربتایا اس نے بابر سے کہا:تیرکے سرے کوکمان کی تانت پررکھ کر اسے انگلی اورانگوٹھے کی چٹکی کی مدد سے مضبوطی سے تھامو ہدف پرنظریں جماﺅ ایک ہاتھ سے کمان کے چلے اوردوسرے ہاتھ سے تانت کومخالف سمتوں میں کھینچو۔اورپھرہدف کی طرف تیر چھوڑدو“
بابر نے اپنے استاد کے حکم کی من وعن تعمیل کی اورتیرچھوڑ دیااگرچہ تیر ہدف پر تو نہ بیٹھا مگر ہدف سے گزر کردور جاگر یہ پہلا تیر تھا جو بابر نے اپنی زندگی میں چلایاتھا۔
پھریہ عمل باربار دوہرایاجانے لگا تیر اگرچہ درخت کے تنے میں ادھر ادھر پیوست ہوتے چلے گئے مگرہدف پر نہ بیٹھے۔
استاد اسے تواتر سے بتاتارہا کہ اپنے ہدف کو کس طرح نظرمیں سمویاجاتاہے اورپھر ہاتھ اورنظر کے اشتراک سے نشانہ کس طرح لگایاجاتاہے ایک گھنٹے کی تیراندازی کی مشق نے جہاں بابرکونشانہ باندھنے کاگر سکھادیاوہاں اس کے اشتیاق کوبھی مہمیز لگائی۔
شروع شروع میں زرہ بکتر اورخودبابرکے لیے کافی تکلیف دہ ثابت ہوامگروقت کے ساتھ ساتھ وہ ان کاعادی ہوتا چلا گیا۔تیراندازی کے بعدگھڑسواری کی باری تھی۔ بابرکے جسم سے زرہ بکتراورسرسے خوداتارلیاگیااورپھراسے گھوڑے پرسوارکرکے باغ کے گرداگردکئی چکرلگوائے گئے۔
شہزادے کے اتالیق قنبر علی نے اس سارے عمل کے بعد شہزادے سے کہا:شہزادے یہ عمل(تیراندازی اورگھڑسواری)روزانہ کئی باردوہرایا جائے گا آہستہ آہستہ آپ زرہ بکتراورخودپہن کرگھڑسواری کے عادی ہوتے چلے جائیں گے آپ کوزندگی میں بھاری زرہ بکتراوربھاری خودپہن کر نجانے کتنا لمبا سفر طے کرناپڑے اوربعض اوقات توآپ اس دشوار گزارسفرکوپیدل طے کرنے پربھی مجبور ہوسکتے ہیں اگرآپ کی مشق پختہ ہوگی توپھرآپ بلاجھجک یہ ساری صعوبتیں برداشت کریں گے۔
بابرکویہ ساری باتیں سیکھنے میں ایک سال لگ گیا۔اب وہ سات برس کاہوشکاتھاعمر شیخ مرزا کیطرف سے اسے حکم ملاکہ وہ اب زنان خانے سے نکل کراس کے ساتھ رہاکرے۔
بنابریں بابرکوزنان خانے اورنانی اماں کی لایعنی گفتگو سے نجات مل گئی وہ مستقلا اپنے باپ کے ہاں رہنے لگا جو کبھی اندرجان میں ہوتاتھاتوکبھی آخشی میں، کبھی سمر قند میں تو کبھی تاشقند میں کبھی مرغنیان میں توکبھی کاشان میں یہاں تک کہ بابربارہ سال کاہوگیا۔
اس عرصے میں وہ ایک اچھا شہسواربن چکاتھا۔بھاری بکتر اورخودپہن کرگھڑسواری کرتے ہوئے بآسانی تلوارچلاسکتاتھا۔عمر شیخ تک یہ خبریں پہنچ رہی تھیں کہ اس کے بھائی مغلستان کے خاقان محمود خان سے ساز باز کرکے ایک لشکرجرارترتیب دے رہے ہیں تاکہ فرغانہ پرحملہ آورہوکر اسے حق سلطانی سے محروم کردیں۔
عمرشیخ مرزانے یہ ساری باتیں اپنے ولی عہد بابرکے گوش گزارکرتے ہوئے کہا”بیٹا!تمہارے چچایہ سوچ رہے ہیں کہ اپنی بڑی فوج کے بل بوتے پرفرغانہ کوتاراج کردیں اورمجھے حق سلطانی سے محروم کردیں۔ یہ ان کی بھول ہے میں ان کی اس سازش سے غافل نہیں ہوں۔ میں نے ان کی سرکوبی کے لیے ایک لشکرجرارتیارکررکھاہے میں ان پر اس طرح باربارحملے کروں گاکہ ان کابھرکسی نکل جائے گامیں ان کے ناک میں دم کردوں گامیں چاہتا ہوں کہ تم بھی میرے شانہ بشانہ رہو۔“
(جاری ہے)