ظہیرالدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ظہیرالدین محمد بابر
امان اللہ کاظم'لیہ
بابرگزشتہ چھ سال سے اپنے والد عمر شیخ مرزا کے ساتھ قیام پذیرتھا۔زنان خانے سے جو اس کے لیے کسی قید خانے سے کم نہ تھارہائی پاکروہ بہت شاداں وفرحان تھا۔ اب اسے یہاں نانی اماں کی نہ سمجھ آنے والے گفتگو کے جُرعے بھی نہیں پینے پڑرہے تھے۔ نانی اماں کے ذہن ودل کی سوئی تو بس ایک ہی جگہ پراٹکی تھی۔اسے مغلستان اس کے باسیوں اوراپنے بیٹوں کے سوااورکچھ سجھائی ہی نہیں دیتاتھا۔ وہ ہمیشہ بابر کے ننھے سے ذہن میں صرف ایک ہی بات بٹھانا چاہتی تھی اوروہ یہ کہ” مغلستان کے خانہ بدوش باسیوں کی زندگی نہایت ہی کٹھن اورپرآشوب ہوتی ہے وہ اپنی جنگی تربیت کے لیے لگاتارکئی ماہ تک شکارکھیلتے رہتے ہیں اوراسی شکارکے ذریعے وہ جنگی تربیت حاصل کرتے ہیں وہ اس شکار کے دوران اپنے بچوں کوبھی اپنے ہمراہ لیے پھرتے ہیں تاکہ صغرسنی ہی میں ان کی تربیت جنگی بنیادوں پر کی جاسکے۔ اسی طرح بچوں کے اذہان میں جنگی طورطریقے منتقل ہوکرراسخ ہوتے چلے جاتے ہیں انہیں سکھایاجاتا ہے کہ شکار کاکس طرح پیچھا کیاجاتاہے؟اسے کس طرح دھوکا دیا جاتا ہے؟ اور پھراسے اپنے گھیرے میں لے کرکس طرح زندہ دبوچا جاتا ہے؟ اگراسے ہلاک کرنامقصود ہوتوپھراسے کس طرح ہلاک کیاجائے۔یہ سارے طورطریقے بچے اپنے بڑوں سے ازخود سیکھتے چلے جاتے ہیں۔ گویاشکارگاہ بچوں کے لیے ایک بہترین جنگی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے شہری لوگوں کے بچوں کوایسے مواقع کم ہی میسر آتے ہیں اس لیے وہ جنگی طورطریقوں سے یکسر نابلدہوتے ہیں۔ اب تم ہی بتاﺅ کہ خانہ بدوشوں اورشہریوں میں سے جنگی مہارت کے لحاظ سے کس کوبرتری حاصل ہے؟“
ننھا بابر صرف نانی اماں کامنہ تکتارہ جاتا تھا کیونکہ نانی اماں کے سوالات کے جوابات دنیا اس کے حیطہ ادراک سے ماوریٰ تھا۔
وقت پرلگا کراڑتاچلاگیاتھا۔نانی اماں کی ناسمجھ آنے والی باتیں بہت پیچھے رہ گئی تھیں چھ سال کاعرصہ اگرچہ بہت بڑاعرصہ ہوتاہے مگر بابراپنی تعلیم اورتربیت میں اس قدرمحوہواکہ اسے خبربھی نہ ہوئی اوروہ بارہ سال کاہوگیا۔
ان چھ سالوں میں بابر نے خوب قدکاٹھ نکالاتھا۔ اس کاجسم بھرابھراسااوراعضاءمضبوط ہوگئے تھے۔ بارہ سال ہی کی عمر میں وہ بھرپورجوان دکھائی دیتاتھا۔ اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ وہ شمشیر زنی، نیزہ بازی اورتیز اندازی میں بھی کافی ماہر ہوگیاتھا۔ اب اسے بھاری خود اورزرہ بکتر نہ کھلتے تھے۔ قنبر علی عرف ملاخ نے اس پر بھر پور محنت کی تھی۔
عمر شیخ مرزا کے دوقابل اعتماد ملازم بھورے بالوں والاہم درد گھٹے ہوئے جسم والابظاہر وفادار،بہادر اور معاملہ فہم یعقوب ہروقت بابر کے ساتھ سائے کی طرح چمٹا رہتا تھا تاکہ اسے ا سکے چچاﺅں اورمغلستان کے خاقان اعظم محمود خان کی متوقع سازشوں کا شکارہونے سے بہرطورمحفوظ رکھیں۔ یہ دونوں اشخاص اپنا فرض منصبی بھرپور طریقے سے انجام بھی دے رہے تھے اب تک بابر اپنی نانی اماں کی گفتگو کے سحر سے کماحقہ باہر آچکا تھا۔ اب اس میں تصویرکادوسرارخ دیکھنے کی صلاحیت بدرجہ اتم پیداہوچکی تھی۔ اس کے باپ نے اس کی آنکھیں کھول دی تھیں۔ اس لیے وہ اپنے دوستوں اوردشمنوں میں تفریق کرنے کے قابل ہوچکاتھا۔
اس کی جسامت کے ساتھ ساتھ اس کاذہن بھی پروآن چڑھ چکاتھا۔ جب اسے یہ معلوم ہواکہ ایک طرف تواس کے چچا ایک بھاری بھرکم لشکرتیارکرکے وادی فرغانہ پرحملہ آورہواچاہتے تھے تودوسری طرف خاقان اعظم محمود خان بھی اپنے دندان آز تیز کئے بیٹھاتھا۔ یہ سوال ایک پھانس کی طرح اس کے ذہن میں اٹک گیاتھاکہ اس کے چچا اوراس کاماحول اس کے والد کے خلاف کس لیے ادھارکھائے بیٹھے تھے۔
بھورے بالوں والا قاسم اندرجان کے شاہی محل کے امورکا نگران اعلی مقرر کردیا گیا تھا اوریعقوب اس کی نیابت کے فرائض انجام دے رہاتھا۔اگرچہ قاسم زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھامگر وہ نہایت ہی زیرک اوربہادرتھا۔
عمر شیخ مرزا جب سے بابرکو اپنے بھائیوں کی خاقان اعظم کے ہاتھ ساز باز اورفرغانہ پرحملہ آورہونے کی خبردی تھی وہ بہت بے چین سا رہنے لگاتھا۔ اس نے اپنے باپ سے کہاکہ”باباجانی!میں آپ کے شانہ بشانہ اس جنگ میں شریک ہونے کے لیے تیارہوں میرے بازوﺅں میں اب اتنا دم موجود کے کہ میں کسی بھی بڑے سے بڑے سورما کا مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتاہوں میرے استاد محترم قنبرعلی نے مجھے فن حرب وضرب میں تاق کردیاہے۔“
عمرمرزا اپنے بیٹے کی اس خواہش کورد نہ کرسکااوراس نے بابر کواپنے ہمراہ جنگ میں شریک ہونے کی اجازت دے دی۔ بابرکی زندگی کی یہ پہلی جنگ تھی جس میں وہ براہ راست شریک ہونے جارہاتھا۔ اس لیے وہ بڑاپرجوش دکھائی دے رہاتھا۔
کسی طورنانی اماں کوعمرشیخ مرزا کی جنگی تیاریوں کی بھنک پڑگئی اوراس نے عمرشیخ مرزا کوبُلاکرپوچھاکہ”کیا تو بیک وقت اپنے بھائیوں اورمیرے بیٹوں سے جنگ کرنے جارہاہے تجھے اپنی اس سوچ سے باز آجاناچاہئے ورنہ میری آنکھیں یہ دیکھ رہی ہیں کہ تو کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہونے والاہے تجھے یہ جنگ بہت مہنگی پڑے گی۔ توچکی کے ان دوپاٹوں میں پس کر رہ جائے گا۔“
عمرشیخ نے بڑی حیرت کااظہارکرتے ہوئے اپنی خوش دامن سے پوچھاکہ” یہ خبریں آپ تک کون پہنچاتاہے؟“
دولت بیگم نے برملاکہاکہ”وہی لوگ جن سے تواس قسم کے مشورے کرتاہے اورپھر وہ تیری عدم موجودگی میں شیخی میں آ کر اپنے دوستوں کے سامنے سارا کچا چٹھا کھول دیتے ہیں اوروہی دوست جومیرے بھی دوست ہیں۔ یہ ساری باتیں مجھ تک من وعن پہنچادیتے ہیں تجھے اپنی صفوں میں موجود ایسی کالی بھیڑوں کونکال باہرکرناہوگا ورنہ تیراکوئی راز، راز نہ رہ سکے گا اور پھر تو اپنے دشمنوں سے مات کھاجائے گا۔
دولت بیگم کی باتیں سن کرعمر شیخ کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، وہ کئی دنوں تک تذبذب کا شکار رہا۔ وہ دولت بیگم کی اس بات سے قطعاًمتفق نہ تھاکہ اسے اپنے بھائیوں اورخاقان اعظم سے بیک وقت جنگ نہیں کرناچاہیے۔
عمرشیخ مرزا جانتاتھا کہ دولت بیگم کے مشورے پرمن وعن عمل کرنا اس کے لیے خودکشی کے مترادف ہوگااس کے مستقبل کاانحصاراس بات پرتھاکہ وہ اپنے دونوں دشمنوں سے کس طرح نبردآزماہوتاہے۔
بابراپنے باپ کواس قدر متفکردیکھ کرکچھ بجھ سا گیا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کے باپ کے ذہن ودل میں کیسی پھانس اٹکی ہوئی تھی جوا سے مغموم اور متفکر کیے دے رہی تھی۔ عمر شیخ مرزا کایہ معمول تھاکہ جب وہ مغموم یااداس ہوتا تو وہ آخثی کی پہاڑی پرچلاجاتاتھا جہاں اس نے بے شمارکبوتر پال رکھے تھے وہ اپنے گردوپیش سے بے نیازہوکرکبوتروں کی ہم نشینی میں محو ہو جاتا تھااس طرح کچھ وقت کے لیے وہ اپنی پریشانیوں سے رستگاری حاصل کرلیتاتھامگر” تا بہ کَے۔“
بابربھی اپنے محافظوں کوچکما دے کراکثر اوقات بہت دور تک گھڑ سواری میں مشغول رہتا تھا اوراپنے اردگرد کے ماحول سے آگاہی حاصل کرتا رہتا تھا بعض اوقات تو وہ جوش شہسواری میں خجند تک جا پہنچتا تھا جواندرجان سے کم و بیش تیس میل دورایک نہایت ہی سر سبز و شاداب اور صحت افزامقام تھا۔
باپ بیٹے کی آوارہ گردی کایہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری وساری رہاوہ یہ فیصلہ نہیں کررہے تھے کہ مستقبل قریب میں پیش آنے والے خطرناک صورت حال سے کس طرح نبرد آزما ہوئی۔
ایک روز عمر شیخ مرزا نے اپنے ہم نشینوں پر شکارکھیلنے کاعندیہ ظاہرکیاجوبصدعجلت ترتیب دے دیاگیا۔شکارتومحض ایک بہانہ تھااس کے پس پردہ عمر شیخ مرزا کے دومقاصد پنہاں تھے۔ پہلایہ کہ وہ خاندبدوش منگولوں کی طرز پراپنی فوج کو سرگرم عمل کرناچاہتاتھا تاکہ اپنے سروں پرمسلط کی جانے والی جنگ سے وہ مکمل طور پر عہدہ براہوسکیں اور دوسرا یہ کہ وہ اس بات کی ٹوہ لگانا چاہتا تھا کہ اس کے دشمن کس نہج پرجنگی تیاریوں میں مصروف ہیں اور وہ کب تک وادی فرغانہ پرحملہ آور ہواچاہتے ہیں۔
دریائے سیحون کے اس پارموجود جنگل میں کافی شکار موجود تھا بنابرایں عمر شیخ مرزا ایک بھاری لشکر کے ہمراہ دریائے سیحون کے اس پارجادھمکا۔یہ لوگ بعینہ مغلوں کی طرزپرشکار کھیلنے لگے۔ انہوں نے جنگی حکمت عملی سے جانوروں کاپیچھاکیا۔ یعنی میمنہ میسرہ اور مرکزہ بالکل اجتماعی طورپراپنے شکارکاپیچھاکررہے تھے۔
عمرشیخ مرزااگرچہ بھاری تن وخوش کا مالک تھا مگر آج وہ نہایت ہی پھرتی سے روبہ حرکت تھا۔شکاریوں نے اپنی پوری مہارت کامظاہرہ کرتے ہوئے خوب شکارکیا۔ بابر نے بھی اس شکارمیں بھرپور حصہ لیاتھااورخوب لطف اندوزہوا تھا۔
شام کوجنگل میں ہرطرف چولہوں کے لاﺅجلتے اورشکارکوبھوناجاتااورخوب مزے لے لے کرکھایاجاتا ایک روز شاہی مخبرنے عمرشیخ مرزا کوایک منحوس خبرسنائی کہ....(اگلی قسط آئندہ شمارے میں )