ذوالحجہ کی عبادات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ذوالحجہ کی عبادات
مولانا محمد کلیم اللہ
ماہ ذوالحجہ میں چند ایک خصوصی احکام یہ ہیں :
1: حج بیت اللہ (یہ صرف اسی مہینہ میں ہی ادا ہوتا ہے ) 2: قربانی(صاحب استطاعت مسلمانوں کے لیے واجب ہے اور اس مہینہ کے صرف تین دنوں میں ادا کی جاسکتی ہے)
3: عیدالاضحی 4: تکبیرات تشریق (اس ماہ کے پانچ دنوں میں فرض نمازوں کے بعد” اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد” اونچی آواز سے کہنا۔ 5: یوم عرفہ کا روزہ (یعنی نویں ذوالحجہ کو روزہ رکھنا ) 6: جس شخص نے قربانی کرنی ہو اس کا بال اور ناخن نہ کٹوانا 7: اس ماہ کی دسویں ، گیارہویں بارہویں اور تیرہویں تاریخ کو روزہ نہ رکھنا کیونکہ سال بھر میں اللہ تعالی کی طرف سے پانچ دن ممنوع ہیں کہ ان میں روزہ نہ رکھا جائے۔مذکورہ چار دن او ریکم شوال المکرم کا دن۔
ہم ان میں سے صرف قربانی کے مسائل کا ذکر کیے دیتے ہیں چونکہ قربانی اللہ تعالی کے قرب کا ذریعہ ہے اس لیے چند شیطان صفت انسان اس مبارک عبادت میں بھی رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جیساکہ آگے مذکور ہوگا کہ کس طرح اس اہم عبادت کا یہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں خیر! قربانی کے متعلق چند امور قابل ذکر ہیں ۔
-1 قربانی کا ثبوت -2 قربانی کا حکم -3 قربانی کا جانور
-4 جانور کی عمر -5 شرکاءاوران کی تعداد -6 قربانی کا وقت
-7 قربانی کے دن -8 قربانی کا نصاب -9 شرائط قربانی
-10 ذبح کون کرے؟
1:قربانی کا ثبوت:
سورة کوثرمیں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں “ فصل لربک وانحر
ترجمہ: نماز پڑھیے اپنے رب کے لیے اور قربانی کیجیے۔
عن زید بن ارقم قال؛ قال اصحاب رسول اللہ ﷺ: یا رسول اللہ ! ما ھذہ الاضاحی؟ قال: سنة ابیکم ابراھیم (علیہ السلام) قالوا: فما لنا فیھا یا رسول اللہ؟ قال: بکل شعرة حسنة۔ قالوا: فالصوف یا رسول اللہ؟ قال: بکل شعرة صوف حسنة
ترجمہ: “ صحابہ کرام ؓ نے حضور اکرمe سے سوال کیا کہ یارسول اللہe ! قربانی کیا ہے؟ آپ e نے ارشاد فرمایا:” آپ کے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مبارک طریقہ ہے۔ صحابہ کرام ؓنے عرض کیا کہ یارسول اللہeاس میں ہمارے لیے کیا ہے؟
آپ e نے فرمایا:” ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔” صحابہ کرام ؓ نے پھر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولe ! اوراون میں (ہمارے لیے کیا ہوگا؟ )آپe نے فرمایا کہ اون میں بھی ہربال کے بدلے نیکی ہے۔”
2: قربانی کا حکم:
قربانی کا حکم یہ ہے کہ صاحب استطاعت پر واجب ہے اس کی تفصیل آگے آرہی ہے کہ آدمی صاحب استطاعت کب بنتاہے۔
عن ابی ہریرة ؓ قال؛ قال رسول اللہ ﷺ:” من کان لہ سعة، فلم یضح فلا یقربن مصلانا۔“
اس حدیث مبارکہ میں بہت سخت وعیدہے کہ جس کے پاس وسعت بھی ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ شخص ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے او رظاہر ہے کہ اس طرح کی وعید واجب کے چھوڑنے پر ہوتی ہے۔
3: قربانی کا جانور:
قربانی کے لیے مذکورہ جانور ہی ذبح کیے جاسکتے ہیں بھیڑ، بکری، اونٹ، گائے مذکر ومونث۔
قال تعالی؛ ثمنیة ازواج من الضان اثنین ومن المعزاثنین۔۔۔۔ ومن الابل اثنین ومن البقرا ثنین۔
فائدہ: بھینس بھی گائے کے حکم میں شامل ہے۔
تحسب الجوامیس مع البقر
4: جانور کی عمر
بھیڑ، بکری ایک سال، گائے دو سال، اونٹ پانچ سال، ہاں البتہ بھیڑ اور دنبہ جو دیکھنے میں ایک سال کا لگتا ہو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔ اس لیے کہ حدیث مبارک میں ہے کہ” عن جابر بن عبد اللہ ؓ مرفوعاً: لا تذبحوا الا مسنة الا ان یعسر علیکم فتذبحوا جذعة من الضان۔“
جبکہ غیر مقلدین کے ہاں مدار عمر پر نہیں ، مدار دانت ہیں کہ قربانی کے لئے دو دانتا ہونا شرط ہے، عمر شرط نہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ اس سبق میں استاد محترم مولانا محمد الیاس گھمن دامت برکاتہم نے فرمایا تھا کہ” جذعة سے مراد باتفاق امت دنبے اور بھیڑ میں چھ ماہ کی عمر والا جانور ہے۔ مسنہ نہ ملنے کی صورت میں عمر کے اعتبار سے جانور کا تعین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مسنہ سے مراد عمر والاجانور ہے نہ کہ دانت والا۔“ ساتھ ہی فرمایا کہ یہ جواب میری اپنی طرف سے ہے، تاحال میں نے کسی کتاب میں اس کو نہیں پڑھا مزید فرمایا کہ اگر کسی دلیل سے میری یہ بات غلط ثابت ہو جائے تو اس غلطی کی نسبت میری طرف کی جائے۔
5: شرکاءاور ان کی تعداد:
بھیڑ، بکری میں ایک، گائے، بھینس اور اونٹ میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں ۔ حدیث مبارک میں ہے کہ:
“ عن جابر امرنارسول اللہ ﷺ فی الابل والبقر کل سبعة منا فی بدنة۔
6: قربانی کا وقت:
شہر اوربڑے گاﺅں میں عید کی نماز ادا کرنے کے بعد قربانی کا وقت شروع ہوتا ہے:”عن انس ان رسول اللہ ﷺ صلی ثم خطب فامر من کان ذبح قبل الصلوة ان یعید ذبحاً۔“
7: قربانی کا دن:
جیساکہ ابھی ذکر کیا کہ قربانی کا وقت شہر اور بڑے گاﺅں میں نماز عید کے بعد جبکہ دیہات میں صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعدسے شروع ہوتا ہے اوربارہویں تاریخ کی شام تک قربانی کا وقت موجود رہتا ہے اس کے بعد یعنی تیرہویں تاریخ کو قربانی نہیں کرنی چاہیے۔
” و وقت الاضحیہ یدخل بطلوع الفجر من یوم النحر الا انہ لایجوز لاھل الامصار الذبح حتی یصلی الامام العید فاما اھل السواد فیذبحون بعدالفجر۔“
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ قربانی کے دو دن ہیں قربانی کے دن کے بعد۔ یعنی دسویں ذو الحجہ کے بعد
” مالک عن نافع ان عبد اللہ بن عمر قال: الاضحیٰ یومان بعد یوم الاضحٰی۔”
8: قربانی کا نصاب:
ہر اس شخص پر قربانی کا کرنا واجب ہے جس پر صدقة الفطر واجب ہے۔
یاد رہے کہ قربانی کا نصاب اور زکوة کا نصاب الگ الگ ہے، قربانی کو زکوة پر قیاس کرنا درست نہیں ۔ سونا، چاندی، نقدی اور مال تجارت اور ضرورت سے زائد اشیاءمثلاً ٹی وی، وی سی آر جیسی خرافات اور تین جوڑوں سے زائد کپڑوں کے جوڑوں اور وہ اشیاءجو محض زیب و زینت کے لئے گھروں میں رکھی ہوتی ہیں سال بھر استعمال نہیں ہوتی ہیں ان سب چیزوں کی قیمت یا بعض کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے تو قربانی کرنا واجب ہے اور اس پر سال کا گزرنا شرط نہیں ہے۔
9: شرائط وجوب قربانی:
-1 حریت(آزاد ہونا ) -2 اسلام (مسلمان ہونا) غیر مسلم اور مرتدین اس سے خارج ہیں جیساکہ قادیانی وغیرہ ) -3 غناء(یعنی صاحب استطاعت بھی ہو بالکل مفلوک الحال، مفلس اورغریب پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے ) -4 اقامت (مسافر پر قربانی واجب نہیں )
10: ذبح کون کرے؟
ذبح کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلمان ہو کفار اور یہود ہ و ہنود کا ذبیحہ جائز نہیں ہے یاد رہے کہ رافضی اور قادیانی بھی اس میں شامل ہیں ان کا ذبیحہ حرام ہے آج کل عام طور پر مسلمانوں میں یہ غفلت پائی جارہی ہے کہ وہ کسی رافضی سے ذبح کرالیتے ہیں یا قادیانی سے۔ شریعت محمدیہeکی رو سے رافضی کافرہیں جبکہ قادیانی مرتد ہیں ان کا ذبیحہ کسی طور پر حلال نہیں ۔
آخری گزارش:
آپe کا مبارک معمول یہ تھا کہ آپ دو قربانیاں کرتے ایک اپنی طرف سے اور ایک اپنی امت کی طرف سے، اس لیے تمام مسلمان بھائیوں سے گزارش ہے کہ اگر اللہ نے وسعت دی ہوتو جہاں آپ اپنی طرف سے قربانی کررہے ہوں وہاں نبی آخرالزمانeکی طرف سے بھی قربانی کریں اور اس کے ساتھ ساتھ کسی عزیز رشتہ دار کی طرف سے بھی قربانی کرنا چاہیں تو یہ بھی جائز ہے۔