موت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
موت
ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی
ایک روز مجلس میں موت کے موضوع پر بات چل نکلی۔ شاہ جی نے فرمایا موت ایک ایسا راز ہے جو آج تک کوئی گیانی، کوئی سیانا، کوئی دانشور، فلسفی، عالم یا عارف نہیں جان سکا۔ کسی نے کنفیوشس سے موت کے بارہ میں پوچھا تھا، اس نے جواب میں کہا تھا کہ ہمیں زندگی کی حقیقت ہی کا کب علم ہے جو ہم موت کا راز جان سکیں ؟ کسی عربی شاعر کا شعر ہے:
الموت باب وکل الناس یدخلہ
یا لیت شعری بعد الباب ما الدار
یعنی موت ایک دروازہ ہے جس میں ہر شخص داخل ہوتا ہے، اے کاش مجھے یہ معلوم ہوتا کہ اس دروازے کے بعد کون سا گھر ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ” انسان سوئے ہوئے ہیں موت آئے گی تو جاگ جائیں گے۔” مرشد کا قول ہے کہ زندگی بندگی کا نام ہے اور موت آزادی ہی کی ایک صورت ہے۔ ایک دانشور کا قول ہے کہ پیدائش کے ساتھ ہی ہر انسان کو موت کی سزا سنا دی جاتی ہے البتہ سزا کی تاریخ کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔ کسی کا قول ہے کہ ایک دانا آدمی اس طرح زندگی گزارتا ہے کہ گویا ملک الموت کا ہاتھ اس کی گردن پر ہے۔
اسلام کی نظر میں موت سے انسان فنا نہیں ہوتا بلکہ ایک نئی زندگی پاتا ہے جو ابدی ہے۔ بقول ایک اہل فکر کے اسلام نے موت کو وفات کا نام دے کر اسے ایک نئی معنویت عطا کی ہے۔ قرآن مجید نے موت پر تَوَ فّیٰ کا اطلاق کیا ہے یعنی موت سے فنا نہیں بلکہ نئی زندگی ملتی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام میں موت کا ایک تصور یہ بھی ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں جان دیتے ہیں وہ شہید ہوتے ہیں ، مرتے نہیں بلکہ زندہ ہی رہتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے صرف جینا ہی نہیں سکھایا ہے بلکہ مرنا بھی سکھایا ہے۔ اہل ایمان موت سے مرتے نہیں بلکہ موت پر مرتے ہیں اور ہمیشہ شہادت کی تمنا دل میں رکھتے ہیں ۔ قرآن پاک یہودیوں سے کہتا ہے کہ فتمنوا الموت ان کنتم صادقین یعنی تم موت کی تمنا کرکے دکھاﺅ اگر تم سچے ہو، مطلب یہ ہے کہ صرف اہل ایمان ہی ایسا کر سکتے ہیں ۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جینا بھی انہیں ہی آتا ہے جو مرنا جانتے ہیں ۔ ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے” زندگی در حقیقت دردناک موت سے پیدا ہوتی ہے یہ شاعرانہ خیال آرائی نہیں بلکہ حکمت ہے کہ آدمی جان دے کر حیات جاوداں پاتا ہے۔“ ہاں ! جو حیات جاوداں پر ایمان رکھتے ہیں ان کے لئے موت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ سقراط نے جب زہر کا پیالہ پی لیا تو اس کے شاگرد ضبط نہ کر سکے باوجود کوشش کے افلاطون کے آنسو بہہ نکلے، ایک اور شاگرد زور سے چیخ مار کر رونے لگا، صرف سقراط پر سکون رہا اور بولا” یہ آہ و زاری کیسی ہے؟ میں نے عورتوں کو اسی لئے واپس بھیج دیا تھا کہ شور نہ مچائیں کیونکہ میں نے سنا ہے مرد کو سکون کے ساتھ مرنا چاہئے، چپ ہو جاﺅ اور صبر کرو، حوصلے سے کام لو اور یہ کہو کہ تم صرف میرے جسم کو خاک میں دفن کروگے۔“
کہتے ہیں کہ حضرت شیخ فرید الدین عطاررحمة اللہ تعالی ایک روز اپنے دواخانہ میں کام میں مصروف تھے کہ ایک فقیر نے آکرصدا لگائی اور جب اس نے دیکھا کہ وہ مصروفیت کی بناءپر اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے اس نے کہا” کاروبار کے دھندے میں ایسے لگے ہوئے ہو تو جان کیسے دو گے؟” حضرت عطار جھنجھلا کر بولے” جیسے تم دو گے“ فقیر نے کہا” میری طرح جان کیا دوگے!“ یہ کہا اور سر کے نیچے کشکول رکھ کر زمین پر لیٹ گیا۔ زبان سے لا الہ الا اللہ کہا اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ اس واقعہ کا شیخ کے قلب پر ایسا اثر ہوا کہ کھڑے کھڑے دواخانہ لٹا دیا اور درویشی اختیار کر لی۔
سہل بن عبد اللہ اکثر عبد اللہ بن مبارک کے درس میں شریک ہوتے تھے، ایک مرتبہ درس سے اٹھتے ہوئے کہنے لگے کہ آئندہ میں آپ کے درس میں شامل نہیں ہونگا کہ آپ کی کنیزیں چھت سے آواز دے رہی تھیں کہ اے میرے سہل! اے میرے سہل! یہ سن کر حضرت عبد اللہ بن مبارک نے حاضرین سے فرمایا کہ سہل کی نماز جنازہ کی تیاری کرو۔ کچھ دیر بعد حضرت سہل بن عبد اللہ کا انتقال ہوگیا، تجہیزو تکفین کے بعد لوگوں نے سوال کیا موت سے پہلے ہی آپ کو ان کی موت کا علم کیسے ہو گیا تھا؟ فرمایا سہل جو کہہ رہے تھے کہ چھت سے کنیزیں انہیں پکار رہی تھیں ، وہ حوریں تھیں کیونکہ میرے ہاں کوئی کنیز نہیں ، اس لئے مجھے یقین ہوگیا کہ ان کی موت قریب ہے۔
مناقب العارفین میں ہے کہ جب حضرت سید برہان الدین محقق ترمذی کا آخری وقت قریب آیا تو اپنے خادم کو حکم دیا کہ ایک گھڑا پانی لے آﺅ، جب وہ پانی کا گھڑا لے آیا تو آپ نے فرمایا کہ تم باہر جاﺅ اور دروازہ بند کر لو اور سب لوگوں کو بتا دو کہ سید غریب اس دنیا سے جا چکا ہے۔ خادم کا بیان ہے کہ میں حجرے کے دروازے پر کھڑا رہا کہ دیکھوں حضرت کیا کرتے ہیں ، میں نے دیکھا کہ حضرت سید اٹھے، غسل کیا، کپڑے پہنے اور ایک کونے میں سر جھکا کر بیٹھ گئے اور فرمایا اے خدائے حاضر و ناظر! جو امانت تو نے مجھے سپرد کی تھی، مہربانی فرما کر آ اور لے جا، تو مجھے ان شاءاللہ صابر پائے گا، یہ کہا اور اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی اور ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
ملک صاحب نے کہا ایک ایرانی شاعر نے کیا اچھی بات کہی تھی کہ دوروز موت سے بچنے کی کوشش کرنا مناسب نہیں ؟ ایک اس روز جس دن موت کو آنا ہے اور دوسرے اس روز جس دن موت کو نہیں آنا، چونکہ جس دن موت کو آنا ہے اس دن اس سے بچنے کی کوئی کوشش بھی کارگر نہیں ہوتی اور جس دن موت کو نہیں آنا اس روز اس سے بچنے کی کوشش کرنا ہی بے سود اور بے کار ہے۔ شاہ جی نے کہا آدمی خواہ ساری دنیا کا مالک یا حکمران بن جائے آخر کار ایک دن اسے اس دنیا سے جانا ہی ہے۔ میوہ جب پک جاتا ہے تو درخت سے گرتا ہی ہے، ہاں البتہ موت ان کی ہی اچھی اور قابل رشک ہے جنہوں نے دنیا میں اچھے اور قابل رشک کام کئے۔ موت جگ کی بھی ہے پگ (پگڑی) کی بھی ہے، دکھ کی بھی اور سکھ کی بھی، جگ کی موت یہ ہے کہ کوئی عالم بے بدل، یا حاکم صاحب عدل یا عارف بزرگ یا عظیم قومی رہنما ا اہل جہان کی فلاح و بہبود کے کاموں میں حصہ لینے والا انسان اس دنیا سے رخصت ہو جائے تو سارا جگ اس کی موت سے متاثر ہوتا ہے۔ موت پگ (پگڑی) کی یہ ہے کہ خاندان کا سر براہ دنیا سے اٹھ جائے تو بیوی بچوں کے سر پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ ایک سہارا ٹوٹنے سے سارے سہارے منہ موڑ لیتے ہیں ۔ پگ یا پگڑی جو اہل خانہ کے لئے امن و سلامتی، معاشی تحفظ، معاشرتی تحفظ، معاشرتی مقام و سر بلندی کا سبب تھی وہ موت نے چھین لی۔ یا یوں کہئے کہ موت تو ایک کی ہوتی ہے لیکن سارے گھر والوں کی معاشی اور معاشرتی موت بن جاتی ہے۔
موت دکھ کی یہ ہے کہ ایک ہونہار نوجوان اچانک کسی حادثے کا شکار ہو جائے تو اس کی موت اسکے سارے گھر والوں ہی کو نہیں بلکہ سب ملنے جلنے والوں کو بھی دکھی کر جاتی ہے اور مدتوں اس کے غم کی پھانس دل میں محسوس کی جاتی ہے۔ موت سکھ کی یہ ہے کہ بوڑھے ستر اسی سال کے ہیں ، دن بھر گھروالوں سے لڑتے ہیں ، رات بھر کھانستے ہیں ، صاحب فراش ہیں ، ضرو ریات زندگی کے لئے دوسروں کے محتاج ہیں ، ایسے محتاج کی موت خود اس کے لئے ایک طور سے سکھ کا سبب ہوتی ہے، لواحقین بھی سکھ کا سانس لیتے ہیں ، ہر چند زبان سے افسوس کا اظہار ہوتا ہے لیکن آنکھوں سے سکھ اور سکون کی کرنیں صاف جھلکتی ہیں ۔ ہاں البتہ ایک اچھے اور سچے انسان، ایک محبتوں والے ہر دلعزیز بزرگ کی موت خواہ کتنی ہی طویل عمر کے بعد کیوں نہ ہو، بے وقت سی معلوم ہوتی ہے اور بہت سے لوگوں کو سو گوار کر جاتی ہے۔ لوگ یوں محسوس کرتے ہیں کہ گویا ایک سایہ دار برگد کا درخت تھا نہ رہا، شفقت کے سائے سے محروم ہوگئے۔ کوئی شخص اس حقیقت سے کما حقہ آگاہ نہیں کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ کیوں آیا ہے؟ کہاں جائے گا؟ اور جب وہ ان سوالوں کے سمجھنے اور جوابات کو جاننے کی کوشش کرنے کے قابل ہوتا ہے، خواہ وہ بڑے سے بڑا بادشاہ ہو، صوفی ہو، سپہ سالار ہو، خواہ اہل جلال ہو، اہل جمال ہو یا اہل کمال ہو، ایک دن موت کا ہاتھ اس کی گردن دبوچ لیتا ہے۔ قبر کا سرد اور خوفناک منہ اسے نگل جاتا ہے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔
ملک صاحب نے کہا کہ ایرانی شاعر فردوسی کہتا ہے کہاں چلے گئے وہ عظیم المرتبت تاجوران دوران و دلاوران زمانہ؟کہاں چلے گئے وہ دانشوران و دانیاں جو بہت سی عظیم کتابوں کے مصنف تھے؟ کہاں ڈھونڈےے ان حسینوں کو جن کی ادائیں دلربایانہ تھیں ، جن کی باتیں پیاری تھیں ، دلنشین تھیں گویا ان کے منہ سے پھول جھڑ رہے ہوں ۔ کہاں چلے گئے وہ پارسا لوگ جو دنیا کو تیاگ کر پہاڑوں اور بیابانوں میں اللہ کی یاد میں مصروف رہتے تھے؟ کہاں چلے گئے وہ سرداران جہاں جو اتنے بلند رتبہ تھے کہ گویا ان کا سر آسمان کو چھوتا تھا، جو شیروں کو شکار کرتے تھے۔ یہ سب لوگ قبر میں سوئے ہوئے ہیں ، مٹی اور اینٹ ان کا بستر ہے۔ اچھا انسان وہ ہے جو ہمیشہ نیکی کا بیج بوئے یعنی ہمیشہ نیک کام ہی کرے۔
شاہ جی نے کہا ذرا سوچئے تو ! وہ انسان جو خود کو عظیم سمجھتا تھا، ابدی تصور کرتا تھا سارے جہان پر حکمرانی کرتا تھا، ساری دنیا کے معاملات اپنے اشارہ ابرو سے چلاتا تھا، جو دنیا بھر کے خزانوں کا مالک تھا، جو جلال و جبروت کی علامت تھا، جو شان و شوکت کا نشان تھا، جو قیصر تھا، کسریٰ تھا، تیمور تھا، نپولین تھا، سکندر تھا، آخر کار قبر میں خالی ہاتھ گیا اور اس شان سے یا اس مجبوری سے کہ چار آدمیوں کے کندھوں پر سوار ہو کر گیا۔ جو نظام جہاں کو اپنے اشاروں سے چلاتا تھا اب وہ قبر تک خود چل کر نہیں پہنچ سکااور بعض بیچاروں کو تو دو گز زمین بھی نہ مل سکی فاعتبروا یا اولی الابصار۔ کہتے ہیں کہ جب سکندر کی وفات ہوئی تو اس کے دربار میں موجود دانشوروں نے اپنے اپنے تاثرات بیان کئے جو نہ صرف فصاحت و بلاغت کے انمول موتی ہیں بلکہ اہل دل کیلئے حکمت و موعظت اور عبرت و بصیرت کا ایک بے بہا خزانہ بھی ہیں ۔ مثلاً ایک دانشور نے کہا” جو شخص لوگوں کو قید خانے میں ڈالتا تھا آج وہ خود قبر کے قید خانے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قید ہوگیا۔“ ایک دانشور نے کہا” دنیا کا توانا ترین انسان آج مغلوب ہوگیا لیکن کمزور لوگ آج بھی مغرور و غافل ہیں ۔” ایک دانشور نے کہا” اے سکندر تیری فتوحات کے سامنے ساری زمین تنگ تھی، کاش تو یہ بتا سکتا کہ آج اس تنگ قبر میں جس سے تجھے دفن کیا گیا ہے، تیرا کیا حال ہے؟” ایک دانشور نے کہا” ذرا دیکھو تو ایک خواب کیسے انجام کو پہنچا اور ایک بادل کاسایہ کیسے دور چلا گیا۔“
ایک دانشور نے کہا” اے سکندر تیرا غصہ تو موت کا موجب ہوتا تھا، تو آج موت پر کیوں غصے نہیں ہوا؟“ ایک دانشور نے کہا” تیری موت سے آج جنہیں خوشی ہوئی ہے وہ بھی بس تیرے پیچھے پیچھے کل تک ملک عدم کو پہنچ رہے ہیں ، بالکل اسی طرح جس طرح کل تو جن کی موت پر خوش ہوا تھا ان کے پیچھے آج تو ملک عدم کو سدھار گیا ہے۔” ایک دانشور نے کہا” اس وسیع و عریض دنیا سے تجھے صرف دو گز زمین ملی، اگر اس انجام پر تجھ کو یقین ہوتا تو دنیا فتح کرنے کی یہ ساری بھاگ دوڑ تو نہ کرتا“۔ اس کے خزانچی نے کہا”اے سکندر! تم مجھے کفایت شعاری کرنے اور مال جمع کرنے کو کہتے تھے، اب بتاﺅ میں یہ جمع شدہ مال کس کے حوالے کروں ؟ “
جب سکندر کی وفات کی خبر اس کی ماں کو پہنچی تو اس نے کہا” موت نے میرا بیٹا تو مجھ سے چھین لیا لیکن اس کی یاد کو تو مجھ سے نہیں چھین سکتی۔“ سکندر نے وصیت کی تھی کہ اس کی ماں اس کی موت کے بعد ایک دعوت عام کا اہتمام کرے اور اعلان کروائے کہ ہر شخص اس دعوت میں شریک ہو البتہ وہ شخص جس کا کوئی عزیز یا دوست فوت ہو گیا ہو وہ اس دعوت میں نہ آئے۔
سکندر کی ماں نے ایسا ہی کیا لیکن اس دعوت میں کوئی بھی نہ آیا، اس کی ماں نے لوگوں سے پوچھا کہ تم نے میری دعوت کیوں قبول نہیں کی؟ لوگوں نے کہا تم نے خود ہی دعوت قبول کرنے سے منع کر دیا ہے اس نے پوچھا وہ کیسے؟ لوگوں نے کہا کہ تم نے قدغن لگائی ہے کہ جس کا کوئی عزیز یا دوست فوت ہوگیا ہو وہ اس دعوت میں نہ آئے۔ سارے ملک میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں جس کا کوئی عزیز یا دوست فوت نہ ہوا ہو۔ سکندر کی ماں سمجھ گئی کہ سکندر نے اپنی وصیت کے ذریعے مجھے تسلی دی تھی کہ میری موت پر غم نہ کرنا کیونکہ دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں کہ جس کا کوئی عزیز فوت نہ ہوا ہو۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور انسان شروع سے موت سے برسر پیکار ہے اور کوشاں ہے کہ میں موت کو شکست دیدوں اور میں لافانی ہو جاﺅں ، اگرچہ انسان موت کو تو زیر نہ کر سکا لیکن بعض صورتوں میں اس نے موت کو بے اثر اور بے قدر ضرور کر دیا۔ وہ لوگ جو خدا پر پختہ ایمان رکھتے ہیں ، موت ان کے سامنے بے حقیقت ہے۔
کسی اہل فکر نے کیا معنی خیز بات کہی تھی کہ موت سے کیاڈرنا، جہاں موت ہوتی ہے وہاں میں نہیں ہوتا،جہاں میں ہوتا ہوں وہاں موت نہیں ہوتی۔ سعدی نے کیا خوب کہا کہ نیک آدمی کبھی نہیں مرتا، مردہ وہ شخص ہے جس کا نام نیکی سے یاد نہیں کیا جاتا۔
سعدیا مرد نکو نام نمیرد ہرگز
مردہ آن است کہ نامش بنکوئی نبرند