کعبہ پر پہلی نظر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کعبہ پر پہلی نظر
محمد فاروق کراچی
سطح ارض پر” بیت اللہ“ پہلی مبارک عبادت گاہ ہے جو انسانوں کے لیے قائم کی گئی ہے اور جسے تمام جہاں والوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک متعدد انبیاءعلیہم السلام نے ضرورت پڑنے پر کعبة اللہ کی تعمیر میں حصہ لیا۔ کتنی متبرک و مقدس ہے یہ جگہ کہ اللہ کے جلیل القدر انبیاءعلیہم السلام نے اس کا طواف کیا اور کتنے مبارک تھے وہ لمحات کہ خاتم الانبیاءصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے گھر کا طواف کیا اور حجر اسود کو بوسہ دیا۔ ہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلو میں تھے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔۔۔۔ دل شوق و محبت کے جذبات سے معمور اور آنکھیں بیت اللہ کی زیارت کے لیے بےتاب ہیں ۔ محبان کے قافلے دور دراز کے مقامات سے آج بھی بیت الحرام پہنچ رہے ہیں ۔
بیت اللہ پر پہلی نظر پڑتے ہی دل و دماغ کی کیفیات کو بعض زائرین نے قلمبند کیا ہے۔ اردو ادب میں مشاہرین کے جو چند حج نامے معروف ہیں ، انہی میں سے کچھ اقتباسات یہاں پیش کئے جا رہے ہیں جو ان احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں جو خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی مصنفین پر طاری ہوئے !!
پاکستان سے دیارِ حرم تک: نسیم حجازی (1959ء)
بارگاہ خداوندی کے جاہ و جلال کے تصور سے لرزتا ہوا اندر داخل ہوا۔ صحن میں پاوں رکھتے ہی خانہ کعبہ پر نظر پڑی اور مجھے اچانک ایسا محسوس ہوا کہ اس کی چھت آسمان کو چھو رہی ہے ! سینکڑوں آدمی وہاں طواف کر رہے تھے۔ کسی کو دوسرے کی طرف دیکھنا گوارا نہ تھا۔ جو طواف سے فارغ ہو چکے تھے، ان میں کوئی حطیم کے اندر نفل پڑھ رہا تھا اور کوئی غلاف کعبہ تھام کر گریہ و زاری کر رہا تھا۔ کسی کو کسی کے ساتھ سروکار نہ تھا۔ کسی کو کسی کے ساتھ دلچسپی نہ تھی۔ وہ مختلف سمتوں سے آئے تھے، لیکن وہاں مشرقی و مغربی، کالے اور گورے، امیر اور غریب، ادنیٰ اور اعلیٰ کی کوئی تمیز نہیں تھی۔
طواف شروع کیا، میری خودفراموشی کا یہ عالم تھا کہ کبھی چلتے چلتے میری رفتار کم ہو جاتی اور کبھی میرے قدم تیز ہو جاتے، لیکن دو تین چکر لگانے کے بعد میں سنبھل چکا تھا۔ خانہ کعبہ کے گرد سات چکر پورے کرنے اور ہر بار حجر اسود کو بوسہ دینے کے بعد باب الرحمة کے سامنے دعا شروع کی۔ وہاں شاید پہلی بار یہ خیال آیا کہ میں کون ہوں ؟ اور کہاں سے آیا ہوں ؟ اور اس کے ساتھ ہی میری آواز بیٹھ گئی۔ میں بڑی کوشش کے ساتھ رک رک کر دعائیہ کلمات دہرا رہا تھا لیکن اچانک میری قوت گویائی جواب دے گئی اور آنسووں کا ایک سیلاب جو نہ جانے کب سے اس وقت کا منتظر تھا، میری آنکھوں سے پھوٹ نکلا۔
شہاب نامہ: قدرت اللہ شہاب (1953ء)
میں نے سن رکھا ہے کہ جو شخص حرم شریف میں داخل ہوتا ہے وہ اپنا جوتا، گناہوں کی گٹھڑی، اپنی دستار فضیلت اور اپنی بزرگی کا عمامہ دروازے کے باہر چھوڑ جاتا ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ جب وہ باہر آئے گا تو اس کا جوتا یا اس کے گناہوں کی گٹھڑی یا اس کی فضیلت کی دستار یا اس کی بزرگی کا عمامہ اس کو واپس ملے گا یا نہیں ؟ میرے پاس حرم شریف کے باہر چھوڑنے کے لیے پاوں میں ربڑ کے چپل اور سر پر گناہوں کی گٹھڑی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ میں نے دل و جان سے دونوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔
باب السلام کے راستے حرم شریف میں داخل ہو گیا۔ اندر قدم رکھتے ہی دم بھر کے لیے بجلی سی کوندی اور زمین کی کشش ثقل گویا ختم ہو گئی۔ مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے گاڑی کو مضبوط بریک لگا کر میرے وجود کو پنکچرشدہ ٹائر کی طرح جیک لگا کر ہوا میں معلق کر دیا گیا ہو۔ میرے جسم کے اعضا کا ایک دوسرے سے رابطہ ٹوٹ سا گیا ہو، ہاتھ بےلوچ ہو کر لٹک گئے اور سر بھنور میں پھنسے ہوئے خس و خاشاک کی طرح بے بسی سے چکر کاٹنے لگا۔ اس طرح اپاہج سا ہو کر میں طواف کے لیے آگے بڑھنے کے بجائے بے ساختہ لڑکھڑا کر وہیں بیٹھ گیا۔
کاروان حجاز: ماہرالقادری (1954ئ)
لیجئے ! حدود حرم سے بھی کچھ آگے نکل آئے۔ تلبیہ پڑھنے میں آنکھیں بھی زبان اشک سے لے میں لے ملا رہی ہیں ۔ مکہ کی آبادی آ گئی۔ رات کا وقت ہے، ایسے میں جو ٹیلہ، جو پہاڑی اور جو مکان بھی نظر آتا ہے، عقیدت کہتی ہے کہ اسے دل میں اتار لیجئے۔ انسانیت کی تاریخ کا پہلا ورق اسی سرزمین پر مرتب ہوا۔ اسی شہر میں حق کی وہ آواز بلند ہوئی جس نے باطل کے جسم میں تھرتھری پیدا کر دی۔ یہ تاریخی شہر نہیں بلکہ خود تاریخ ساز ہے۔ اس شہر پر تاریخ کا ذرہ برابر بھی احسان نہیں بلکہ خود تاریخ پر اس شہر کا احسان ہے۔ تاریخ اس شہر سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ اگر تاریخ سے مکہ کو نکال دیا جائے تو پھر تاریخ میں رہ کیا جائے گا۔
یا اللہ ! میں کہاں آ گیا؟ یہ میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا، مجھ سا پلید اور حرم مقدس میں ! مجھ سا خطاکار، گناہگار اور معاصی سرشت اس مقام پر جہاں ہر زمانے کے اتقیاءو صلحاء، پاک بازوں اور نیکو کاروں نے سجدے اور طواف کئے۔ یہ پیروں سے نہیں ، سر کے بل چلنے کا مقام ہے۔ یہاں کا جتنا بھی احترام کیا جائے کم ہے۔
شرق اوسط میں کیا دیکھا؟ ابوالحسن علی ندوی (1947ئ)
میں نے بچپن میں جس طرح لوگوں کو جنت اور اس کی نعمتوں کا بڑے شوق سے ذکر کرتے ہوئے سنا، اسی طرح مکہ اور مدینہ کا تذکرہ بھی سنا تھا۔ جنت کو حاصل کرنے اور ان دونوں متبرک شہروں کو دیکھنے کی تمنا اسی وقت سے میرے دل میں کروٹیں لینے لگی تھیں ۔ پھر ایسا ہوا کہ ایک طویل عرصے کے بعد میں خود اس جگہ آ پہنچا جس کی زمین پر نہ تو سبزے کا فرش تھا اور نہ اس کی گودی میں ندیاں کھیلتی تھیں ۔ جب میں نے حسن ظاہری سے خالی یہ سرزمین دیکھی تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ شہر مناظر سے کتنا تہی دست ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ میں نے یہ بھی سوچا کہ اس شہر نے انسانیت اور تمدن پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ اگر یہ شہر کا دامن گلکاریوں سے خالی ہے، روئے زمین پر نہ ہوتا تو دنیا ایک سونے کا پنجرہ ہوتی اور انسان محض ایک قیدی!
یہی وہ شہر ہے جس نے انسان کو دنیا کی تنگنائے سے نکال کر وسعتوں سے آشنا کیا۔ انسان کو اس کی کھوئی ہوئی سرداری اور چھنی ہوئی آزادی دلائی۔ اسی شہر نے انسانیت پر لدے ہوئے بوجھوں کو اتارا۔ اس کے طوق و سلاسل کو جدا کیا جو ظالم بادشاہوں اور نادان قانون سازوں نے ڈال رکھے تھے۔ وہ عزت دنیا کو دوبارہ ملی جو سرکشوں اور ظالموں کے ہاتھوں پامال ہو چکی تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ یہاں انسانیت نے نیا جنم لیا اور تاریخ نئے سرے سے ڈھل کر نکلی۔